احادیث نبویہ کے مطابق رمضان نیکیوں کا موسمِ بہارہے،دلوں میں رغبتِ عبادت پیداہوجاتی ہے،کہ آپ نے فرمایا ہے کہ شیاطین کوبندکردیا جاتا ہے،جوبندے کوعبادت سے غافل کرنے میں لگے رہتے ہیں، اسی لیے بندوں کے دل میں ہرعبادت کاشوق بڑھ جاتا ہے،ساراسال نمازومسجدکے قریب نہ جانے والے بھی تراویح کی طویل نمازشوق سے اداکرتے ہیں،اسی طرح صدقہ وخیرات بھی حتیٰ الوسع کرتے ہیں،اورپھرہمارے سرکاری اسلام نے زکواۃ کی کٹوتی بھی رمضان کی پہلی تاریخ پررکھ دی،سودکاقانونی لین دین کرنے والے حکمرانوں کی امت مسلمہ کی زکواۃ رمضان میں کاٹ کرسترگناثواب دلانے کی کوشش امت سے بھلائی کی آئینہ دار ہے،گوکہ اسلام کے احکام کے منافی ہے،پھراسی شوقِ ثواب میں خدمتِ خلق کے دردوالے لوگ بھی اپنے درماں میں رمضان کی آمدکے ساتھ ہی ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگتے ہیں،زمانے کا خدابھلاکرے اس نے ان مجروح دلان کے لیے کہیں ناکہیں اسباب بنارکھے ہوتے ہیں،جیسے آج کل مسئلہ فلسطین چل رہا ہے، یہ کوئی آج کل کا مسئلہ نہیں،بطورِ مسئلہ تویہ پون صدی سے بھی پہلے کا ہے، لیکن یہ کربلا جوکفار نے فلسطین میں مچارکھی ہے یہ بھی کوئی چندمہینوں سے جاری ہے،لیکن ہمارے خدمتِ خلق میں گھلنے والے ان پچھلے مہینوں سے الیکشن اورناالیکشن کی گومگوکے جال میں پھنسے ہوے تھے جوان کی پوری کوششوں کے باوجودوقوع پذیرہوگئے،اورپھردھاندلی فراڈاورپتہ نہیں کیسے کیسے چکروں میں پاکستان اوراس کی عوام کوایساچکرایا کہ وہ دم بخودسہمے رہے،چلواللہ اللہ کرکے اسمبلیاں حلف اٹھاتی گئیں،اب پرائی شادی میں عبداللہ دیوانوں کی دھمال کی ضرورت نہ رہی،توسب ہی فلسطین کے حالات پہ بولنے لگے،ہمارے دردمندسینیٹرمشتاق احمد صاحب نے سینیٹ میں دھواں دارتقریرفرمائی کہ ہماری پارٹی کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم فلسطینی بچوں کوپاکستان میں لانا چاہتے ہیں،حکومت ہمیں اجازت دے،اب قابلِ غورہے کہ حکومتِ پاکستان کے اجازت دینے سے اسرائیلی حکومت فلسطینی بچوں کو جماعتِ اسلامی کوسونپے کے لیے تیارہوجائے گی؟میرے اپنے خیال میں ہوسکتا ہے یہ درست نہ ہویہ ہے کہ یہ ٹریلرصرف رمضان کی آمدکے لیے ہے کہ لوگ جماعت کے اس ایثاراوردردمندی پرجماعت کے اداروں کو زکواۃ جمع کرائیں،کہ اس جذباتی بے عمل مسلمان قوم کوجوگھرمیں ایک دوسرے کو کاٹ کاٹ کرکھارہے ہوتے ہیں،دورکے زخمیوں کودیکھ کرپسیج جاتے ہیں،اورپھرجب اس پرجذبات سے بھرپورتقریرسنیں توپھرایک بارتو”مرجانے کو جی چاہتا ہے“،اوریہی تھوڑاساوقت ہی ہوتا ہے،جب ساحرانِ بیان اپنا کام نکال لیتے ہیں، غوث علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے تذکرہ میں لکھا ہے،کہتے ہیں میرے ساتھ ایک ہندولڑکا ایک سفرمیں تھا تو اس نے مجھے کہا میرے پاس ایک منترہے،وہ جس پرماروں وہ رام ہوکرمجھے اپنی دولت دے دیتا ہے،شاہ صاحب کہتے ہیں میں نے اسے ایک پیرصاحب پر منتر مارنے کا کہا،اس نے اپنا منترمارا اورپیرصاحب چپ چاپ اٹھے اورگھرمیں گئے، سب روپیہ پیسہ اور اہلیہ کے سارے زیورایک کپڑے میں باندھے سیدھے آکراس لڑکے کودے دئیے، جو میں نے اس سے لے کر،واپس زنان خانے میں پہنچائے تومائی صاحبہ کہنے لگی آج شاہ صاحب کوکیا ہوگیاہے،تومیں نے فرضی قصہ سنایا کہ حضرتِ صدیق کی سخاوت کی بات ہورہی تھی کہ انہوں نے اپنے گھرکاساراسامان بارگاہِ نبوی میں پیش کردیاتوشاہ صاحب بھی اس سنت کوپوراکرنے کوچلے تھے تومیں نے یہ ان خدمتِ خلق والوں سے واپس کرلیے ہیں۔لہذاآج بھی لوگ اسی طرح کے منترجواپنی سحربیانی سے لوگوں پرمارتے ہیں،اوران سے زکواۃ وصدقات جوان کے قرابت داروں،ان کے رشتہ داروں،یتیموں،بیواوں،پڑوسیوں اوراپنے علاقہ کے مسکینوں کاحق ہے، اسے بٹورکر ngosکے یتیم خانوں،ٹرسٹوں،برائے نام ہسپتالوں،رمضان وعید پیکج دینے والوں کودے کر،اسلامی قوانین اوراپنے قرب وجوارکے حقداروں کا حق مارکرسمجھتے ہیں،کہ ہم نے اللہ اوراسکے رسولﷺکے حکم کوپوراکردیا ہے،اورپھران سحربیانوں کی مسحورکن بشارتوں اوراس کے ساتھ فوٹوسیشن والی خبروں کو لیے مقربِ بارگاہ بنے اترارہے ہوتے ہیں،بقولِ غالب،”ہواہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا،وگرنہ شہرمیں غالب کی آبروکیا ہے“لہذاشہ کے مصاحب بننے والوں سے گزارش ہے کہ اپنے شہریعنی دین میں اپنی آبرودیکھیں، ان موسمی خدمت گاروں کی اسلامی ترجیحات کودیکھیں،یہ لوگ اگردردِ دل سے خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں تواپنے پیسوں سے کریں پھران کے اپنے محل وکاروباراس خدمتِ خلق کے بدلے میں نہ بنیں،جس طرح ہم حکمرانوں پرنظررکھتے ہیں کہ حکومت میں آنے کے بعد ان کے کاروباراوراثاثے کیسے بڑھے؟انہوں نے کرپشن کی ہے،توکیا ہم نے کبھی ان خادمانِ خلق پربھی غورفرمایا کہ ان کے اس کاروبارکے بعدیہ”دیکھتے ہی دیکھتے کیا سے کیا ہوگئے؟“لہذاخدارامسلمانوں کے جذبات سے فائدہ نہ اٹھائیں اوریہودونصاریٰ کی ان چالبازیوں سے امتِ مسلمہ کوبچانے میں علماء حقہ کسی لگی لپٹی کے بغیر اسلامی احکامات کے مطابق زکواۃ دینے کی لوگوں کوتعلیم ترغیب دیں،ورنہ کل بروزِ قیامت یہ ابلہ امت فریادکریں گے کہ بارالٰہ تیرے ان علماء نے ہمیں گمراہ کیاہمیں حق نہ بتایا،توہم کیاکرتے۔میرے نبیﷺ نے فرمایا میں نے معراج میں کچھ لوگوں کو دوزخ میں دیکھاجن کی زبانیں آگ کی کینچیوں سے کاٹی جارہی تھیں،پوچھا توجبریل نے عرض کیا یہ آپ کی امت کے وہ علماء ہیں جولوگوں کو حق بیان نہیں کرتے،لہذاایسے علم سے میرے آقاﷺنے اللہ کی پناہ چاہی ہے جو نفع نہ دے،لیکن میرے علماء نے اس سے شاید یہی سمجھ لیا ہے کہ جودنیا میں نفع نہ دے،لیکن علم دنیا میں شرف ہے البتہ نفع اس کا تمام صالح اعمال کی طرح آخرت میں ہی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اوراپنے نبی ﷺکے احکامات کے مطابق ہرکام کرنے کی توفیق عطافرمائے،اورہمارے علم اوراعمال کو ہمارے لیے دونوں جہانوں میں نفع بخش فرمائے،آمین، وماعلی الاالبلاغ۔
