دودھ اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے،جسے اللہ نے ہراس مخلوق کے لیے جوبچے پیداکرتی ہے،زندگی کی پہلی غذابنایا ہے،اورجنت جیسے لامنتہا نعمتوں والے مقام پربھی اپنی چار بڑی نعمتوں میں شمارفرمایا ہے،حاشا و کلا انسانی بچے جب تک خالص دودھ سے پلتے رہے،واقعی ہی انسان کے بچے بنے رہے،بقول بڑے بوڑھوں کے ماں کے دودھ کی طاقت چالیس سال تک قائم رہتی ہے،لیکن آج کل توماں ہی چالیس تک نہیں رہتی،دودھ کی طاقت کہاں رہے، اورماں کے دودھ سے پروان چڑھنے والے بچوں میں اخلاق واطواربھی ماں سے ورثے میں ملے ہوتے ہیں،آج کل بچوں کودیکھوتووہ ماں باپ سے شکل میں تو ملتے ہیں،لیکن اخلاق اطوارمیں نہیں،کہ اکبرالہ آبادی نے کہا ہے،”طفل میں بوآئے کیاماں باپ کے اطوارکی،دودھ تو ڈبے کاہے تعلیم ہے سرکارکی“اس زمانے میں بھی تودودھ کوصحت کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے،لیکن بقول شیرافضل جعفری ”چائے نوشانِ وطن،محفل میں دودھ پیتے شرماتے ہیں“اسی طرح دوددھ کا شاید نام ہی اس قوم نے صحت کے لیے لازم سمجھ ہوا ہے،دودھ نہیں۔عالمی شیطانی تحقیقوں نے کبھی انسان کے بچوں سے انسانی دودھ اس بدظنی میں دورکروایا کہ اس سے بچوں میں موروثی بیماریاں درآتی ہیں،اورپھراللہ کے بنائے دودھ سے انسان کے بچوں کو ڈاکٹروں کے بنائے دودھ پرلگادیا، جس کا ذکراکبرالہ آبادی نے بھی کیاہے،پھرکاروبارنے یہاں تک ترقی کرلی کہ ڈبوں میں لیکوڈ دودھ دستیاب ہونے لگا،انسانوں کوبے وقوف بنانے کے لیے پوڈردودھ ہی کو لیکوڈکی شکل دی،اس کے ساتھ خالص دودھ کو پوڈردودھ سے بھی زیادہ خطرناک کیمیکل سے محفوظ (حنوط) کرکے ڈبوں میں ڈال کر،پھیلانا شروع کردیا،اوراس دودھ کوجانوروں سے لے کرفیکٹریوں تک پہنچانے کے دوران جو اس کے ساتھ کیا جاتا ہے، وہ اس طرح ہے،دودھ کو پھٹنے سے بچانے کے لیے، اس میں فی من ایک کلویوریاکھاد ڈال کرکم ازکم آٹھ گھنٹوں کے لیے اسے پھٹنے سے محفوظ کرکے،ٹینکیوں میں بھرکرفیکٹریوں تک پہنچایا جاتا ہے،اگرآٹھ گھنٹوں سے وقت زیادہ ہوجائے تو پھرایک کلو یوریا کھادفی من کے حساب سے اوراس میں ڈالی جاتی ہے، اب فیکٹری میں پہنچنے کے بعداسے بلوکراس پرسے کریم اتار کراس میں روغنی اجزا بنانے کے لیے اس میں گھٹیا قسم کے تیل شامل کیے جاتے ہیں،اوربقولِ بعض تھکنس کے لیے جیلاٹین ٹائیپ کوئی چیز ملائی جاتی ہے، اور اس میں جھاگ بنانے کے لیے بقولِ بعض ”سرف“ کپڑے دھونے والا شامل کیا جاتا ہے،او ر پھربقول بعض اس میں لاشوں کوحنوط کرنے والا کیمکل شامل کیا جاتا ہے کہ دودھ ایک عرصے تک حنوط رہے، اورپھراسے ڈبوں میں پیک کرکے جراثیم سے محفوظ دودھ ہزارقسم کی میڈیائی تشہیراورڈاکٹروں کی تصدیق کے ساتھ عوام الناس کے جراثیم مارنے کے لیے کھلے عام شہرشہرگاؤں گاؤں فروخت کر کے لوگوں کی صحت کا خیال رکھا جارہا ہے۔ پاکستانی قوم کی ایک خوبی یہ ہے کہ سائنس جو بھی تحقیق وایجادکرے یہ لوگ اسے سائنسدانوں اوموجدوں کے دیکھتے دیکھتے اس چیزکو مشینوں کے بجائے ہاتھوں سے تیارکرکے انہیں شرمندہ کردیتے ہیں،اسی طرح دودھ کولمبے عرصے تک محفوظ کرتے کرتے ان لوگوں نے دودھ خودبنانا شروع کردیا،جسے ”کٹا“ بھی دیکھ کربھینس کا پینے کے بجائے اسے ہی ”چونگنے ‘‘ لگتا ہے،اورپھریہی ہمارے سائنسدانوں کا بنا دودھ ہی ڈبوں میں پیک ہوکرمحفوظ دودھ کی طورپراس غیرمحفوظ قوم کو پلایاجارہا ہے،اورپھر ڈاکٹر کے حکم پربچے کو ڈبے کا دودھ پلانے والے امیروغریب اسی ”محفوظ“ دودھ والے ڈبے سے بچوں کو بھی دودھ پلاتے ہیں، اورکوئی حکمرانوں ڈاکٹروں اورعوام سے اس بات پرفکر مند نہیں کہ ہم قوم کے ساتھ کیا کر رہے ہیں،البتہ جانوروں کے دودھ فروش گوالوں پرجو دودھ پیک کرنے کی فیکٹریاں نہیں لگا سکتے البتہ دیہی وشہری علاقوں میں اپنی ثقافت کو قائم رکھے ہوے ہیں،گائے بھینس پالتے ہیں اوران کے دودھ سے کچھ معاش بھی کمالیتے ہیں،ان کے دودھ میں اگرپانی کی ملاوٹ ہوجوایک تھوڑی مقدارمیں بعض حالتوں میں ضروری ہوتی ہے، اس پرہمارے سچے مسلمان یہ حدیث چسپاں کرتے ہیں، ”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں“،لیکن ڈبے کے دودھ میں جو ملاوٹ ہے؟شایدیہ حدیثِ اس کے لیے نہیں فرمائی گئی، لیکن ہمارے مسلمان زبانی حدیث کا احترام توکرتے ہیں، اس پرعمل نہیں کرتے،اس لیے حکومت نے بزورِسرکاردودھ چیکرلگائے ہوتے ہیں،جوکھلے دودھ کو چیک کرکے اس میں اگرپانی کی ملاوٹ ہوتواسے بہادیتے ہیں،اورگوالے کو جرمانہ بھی کرتے ہیں،اورپھرلوگ انگشتِ بدنداں اپنے ملک میں دودھ کی نہریں بہتی دیکھتے ہیں،گوکہ آج کل دودھ مشینوں کے بجائے یہ قوم ہاتھوں سے بھی تیارکرلیتی ہے،اورپانچ کلو اصلی دودھ میں پندرہ کلو مصنوعی دودھ جوواشنگ مشین میں،سرف، تیل،جیلاٹین،پاوڈردودھ اورپانی بلوکربنایا ہوتا ہے،بلکہ آج کل ایک مخصوص کیمیکل لیکوڈ ملتا ہے ہے، جوخالص پانی میں ڈالوتووہ دودھ کی طرح سفید ہوجاتا ہے،اس سے اللہ کے بندے اللہ کی مخلوق کی خدمت میں لگے ہوتے ہیں،تو کہیں ناکہیں کوئی ”ویلا“افسراپنا کام دکھانے آجاتا ہے،اوردودھ کی نہریں بہاکرملک کی خوشحالی اوراپنی کارکردگی دکھا کراللہ کو بھی خوش کرجاتا ہے اوربندوں کوبھی،لیکن اگرقوم کی صحت کے پیشِ نظریہ کیا جائے توصرف مٹکوں کے کھلے دودھ کو نہ بہایا جائے، بلکہ بندڈبوں میں جودودھ آتا ہے اسے بھی روکا جائے،لیکن اصل میں اسی محفوظ دودھ کی کھپت کے لیے اس غیرمحفوظ دودھ پرہاتھ ڈالا جاتا ہے،ورنہ دودھ سے حکومت کا کیا لینا دینا،اگردودھ کو حکومت قومی صحت کے لیے ضروری سمجھتی ہوتووہ پرانے زمانے کی طرح ہرآبادی کے ساتھ چراگاہوں کوتحفظ دے اوران کے لیے رقبے ایوارڈ کرے اور لوگوں کومال مویشی پالنے کی ترغیب دے، جس سے خالص دودھ اورگوشت کی پیداوارہواورلوگ اس گھریلوں صنعت سے اپنی زندگی بھی آسان بناسکیں،جبکہ حکومت ایسے رقبوں پرہاؤسنگ سوسائیٹیاں،کالونیاں اورپلاٹ بنارہی ہے،جس سے زرعی رقبے بھی ناپیدہوچکے ہیں۔ غریبوں کے لیے کوئی کاروبارنہیں، امیروں اوراجارہ داروں کیلیے حکومتی سطح پرجانوروں کے فارم بنانے کے لیے قرضے دئیے جاتے ہیں، جواکثرڈیفالٹ ہوجاتے ہیں،اگرعوام الناس کوچراگاہیں مہیاکی جائیں تولوگ فطری طریقے سے اس صنعت کوچلائیں، جس سے دودھ اورگوشت عوم کو خالص اورسستے دستیاب ہوں،اورماحول بھی آلودہ نہ ہو،لیکن چونکہ ہم imfکے منصوبے کے بغیرنہ کچھ سوچ سکتے ہیں،نہ کرسکتے ہیں،توپھریہاں دودھ کی نہریں ہی بہیں گی،جو زمین کو سیراب نہیں بنجر کررہی ہیں،ایسے ہی یہ دودھ پینے والوں کوبھی بنجرکررہا ہے،اللہ تعالیٰ اس قوم پررحم فرمائے آمین وماعلی الاالبلاغ۔
