آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

احتجاج کیوں….آٹا ؟؟

تحریر:قاری محمد عبدالرحیم”

آٹاانسانی خوراک میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی چیز ہے، اوریہ مختلف اجناس کا بھی ہوتا ہے، مثلاگندم، باجرہ، مکئی، جو،لیکن پوری دنیا میں آج کل آٹا سے مراد گندم کا آٹا ہی ہوتا ہے،جب کہیں بھی آٹے کا ذکرِ خیرہوتوفوراگندم کا آٹاہی ذہن میں آتا ہے،بقول بعض کے گندم ہی وہ مصیبت ہے جوآدم علیہ السلام اورمائی حواکے لیے جنت سے نکلنے کی وجہ بنی،شاید یہی وجہ ہے کہ بنی آدم گندم کواس غصے سے کھائے جارہے ہیں،اورجہاں یہ نہیں ہوتی وہاں بھی اسی کا آٹاکھایاجاتا ہے،یہ بھی ایسی ہٹیلی شے ہے کہ جیسے اس نے آدم کو جنت سے نکلوایاایسے ہی آج بھی کھانے والوں کو یہ سکھ کاسانس نہیں لینے دے رہی،مولینا روم نے بھی کہیں لکھا ہے،کہ عشقِ مجازی عشق نہیں یہ فسادِ گندم ہے،آج کے اس دورمیں تواس کے فسادکوعشق مجازی تک ہی محدودنہیں رکھا گیا بلکہ اس نے توفسادِ عالم برپا کررکھاہے،زراعت پرتحقیق کرنے والے سائنسدانوں نے اسے بے تحاشاپیداکرنے کے باوجوداسے انسانوں کی پہنچ سے دورکرنے کے کئی طریقے ایجاد کرلیے ہیں،امریکہ کی کسی ریاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں گندم اس قدرپیداہوتی ہے کہ صرف اسی ریاست کی گندم اگرپوری دنیا میں استعمال کی جائے توتمام لوگوں کے لیے کافی ہوسکتی ہے، لیکن امریکہ جس کو ایران والے”شیطان بزرگ“کہتے ہیں وہ اتنا رحم دل اوراللہ کی مخلوق سے پیارکرنے والاہے کہ وہ اس ریاست کی ساری گندم خریدکرسمندرمیں ڈال دیتاہے،ہمارے لوگوں نے تومحاورہ بنارکھا ہے کہ نیکی کردریا میں ڈال،لیکن امریکہ چونکہ سپرپاورہے اس لیے وہ نیکی کراور سمندر میں ڈال والے محاورے پرعمل کرتا ہے،یعنی حصہ بقدرِ جثہ۔چلوپاکستان کے بے بس عوام جو آٹے کے ذرے ذرے کوترستے ہیں،کسی نے کہا تھا دانے دانے پہ لکھا ہوتاہے کھانے والے کا نام،لیکن ہماری قوم اتنی ظالم ہے کہ یہ دانوں کوپیس کر آٹابنا دیتی ہے، کہ کسی کا نام اس پرلکھانہ رہے،اورپھرآٹے کے ذرہ ذرہ پراگرنام کہیں ہوبھی تواونٹ کے منہ میں زیرہ والی ہی بات ہے نا،ہمارے یہاں آٹے کا بحران اکثرآتا رہتا ہے، اورلوگ اس کے عادی ہوچکے ہیں،آج کل آزادکشمیربالخصوص ضلع میرپورمیں توایسے لگتا ہے کہ لوگ صرف آٹے ہی کے لیے رہ گئے ہیں اورآٹالوگوں کے لیے نہیں رہا،ہمارے اسمبلی ممبران کے بقول توہم میرپوریے ایک تو”ولیتی“ ہیں اوردوسرے، ان کے بقول ہم زرعی ضلع ہیں شاید اس لیے کہ ہمارے ضلع کی زمین پرجوقابلِ زراعت ہے منگلا ڈیم کا پانی آدھا سال کھڑارہتا ہے،اوروہ صرف گندم کی بجائی کے موسم میں زمین کی منہ تکائی کراتاہے،تومیرپوریے پھراس کے آرام کے دوران اس میں گندم کاشت کرلیتے ہیں،اوراس کی بے خبری میں اکثرگندم کی فصل حاصل کرلیتے ہیں، لیکن یہ تقریباچوتھے حصے سے ایساہوسکتا ہے،لیکن اس کے باوجود کاغذوں میں میرپورایک زرعی ضلع ہے،لیکن پچھلے سال سے لیکراب تک اس زرعی ضلع میں تماشہ یہ لگا ہوا ہے،کہ ہفتے میں دودن ہرشہرمیں لوگ آٹے کے لیے رل رہے ہوتے ہیں،غریب توغریب کاروں اورکوٹھیوں والے،بھی لائینوں میں لگے آٹے کی تھیلیاں جھپٹ رہے ہوتے ہیں،میں نے انیس صد چھیاسی میں انگلینڈمیں دیکھا کہ دسمبرمیں ہندوکوئی خیرات دے رہے تھے، توہمارے اکثر حاجی نمازی بابے وہاں لائینوں میں لگے وصول کررہے تھے، یعنی جن کو ہمارے اسمبلی ممبروں نے کہا ہے، کہ یہ ”ولایتیے“ہیں،وہ چھوڑتے پرشادنہیں تویہ آٹاتوپھرپیسوں پرلیتے ہیں،اورپھر سستابھی اتنا ہے کہ کم ازکم ایک ہزارروپے عام آٹے سے کم میں ملتاہے،تویہ کیوں نہ خریدیں،نادان حکومتیں غریبوں کے لیے قومی خزانے سے سبسڈی دے کر آٹاسستا مہیا کرنے کی خدائی خدمت گار بنتی ہیں، لیکن وہ خرید کرمالدارلے جاتے ہیں،تواگرحکمران قوم اورملک سے مخلص ہوں یا قوم اورملک کاشعور رکھتے ہوں تووہ ایسی چیزو ں پرسبسڈی دے کرقومی خزانے کو نہ نقصان پہنچائیں،نہ قوم کے اندرطبقات کی بنیادبنا کرلوگوں میں نفرت پھیلائیں،سبسڈی ہی اگردینی ہے توسارے آٹے پردیں اور آٹے کی قیمتیں،آئی ایم ایف کے حکم کے مطابق رکھنے کے بجائے،عام اشیاء سے سستاکردیں،توپھرسب امیروغریب اسی قیمت پرخریدے اسے، کسی کوٹے والے دن کا انتظارنہ کرنا پڑے،کہ یا اس دن سستا آٹا خریدے،یا مزدوری کرے،اب مزدوری چھوڑکرسستا آٹا تومہنگے کے برابرہی پڑانا،لیکن یہ بات اگرامریکہ اورآئی ایم ایف بتائے توہمارے حکمران اس کو ریڈیواورٹی وی پرباقاعدہ فارغ البال قسم کے دانشوروں کو بٹھا کرگھنٹوں پروگرام چلا کرقوم کو باورکرائیں کہ دیکھوجدید دنیا کتنا شعوررکھتی ہے،اوران کو انسانوں سے کتنی ہمدردی ہے،لہذالوگوکام نہ چھوڑوآٹا ذرامہنگا ہی خریدلو،لیکن آج کل ہمارے حکمران مع اپنے سرکاری ملازموں کے آئی ایم ایف کے حکم کے تحت غریبوں کے لیے سب سڈی دے کر آٹاایسی ملز سے حاصل کرتے ہیں،جو آٹے کے ساتھ خمیر آدم یعنی مٹی کو بھی پیس کردیتے ہیں، کہ کھاکراگرغریب میں کوئی تخلیقی کمی بوجہ کمئی خمیریعنی مٹی رہ گئی ہوتووہ بھی پوری ہوجائے، اس کے علاوہ گندم کے وہ کار آمداجزاجو عام لوگ بوجہ ناسمجھی ضائع کردیتے ہیں،یعنی چھان،بوسہ وغیرہ وہ بھی ساتھ ہی پیس دیتے ہیں،اور بعض لوگوں کاتوخیال ہے کہ شادی بیاہ ولنگروں وغٰٰیرہ کی بچی سوکھی روٹیاں،اوردوسری”ون سونی“ چیزوں کی بنی اشیائے خوردنی جوڈسٹ بنوں میں پڑی ہوتی ہیں وہ پیسی ہوتی ہیں کہ بندہ کھانے کے بجائے زہرماری کررہا ہوتا ہے،اورساتھ ہی حکومت کے لیے آنتیں دعادے رہی ہوتی ہیں،کہ اللہ اپنے ان نیک بندوں کو بھی ایسی ہی غذااگراس دنیا میں تونہ دینا چاہے توجنت میں ضروردینا،ہمارے سرکاری ملازمین بھی اللہ ان کا بھلا کرے،فوڈ انسپکٹرکامطلب شاید یہ ہوتا ہے کہ وہ فوڈیعنی کھانے والی چیزوں پرنظررکھے کہ وہ قابلِ استعمال ہیں بھی کہ نہیں،یعنی آٹاہی لے لیں جو آج کل غریبوں کے سبسڈی دے کرسستا دیا جاتا ہے، فوڈ انسپکٹرصاحب اس کی کوالٹی پرنظررکھیں کہ کیا وہ عام آٹے کے برابرمعیارمیں ہے، لیکن وہ کیا کریں جی حکومت نے ان کو صرف سستا آٹا تقسیم کرنے پرلگایا ہوا ہے،وہ بے چارے اسے تقسیم کریں یا اس کی کوالٹی چیک کریں؟اس لیے ہمارے علاقے میں اکثرزمیندارلوگ جن کے پاس اپنے دانے ہوتے ہیں،وہ یہ خیرات کا آٹا خریدکرخودکھانے کے بجائے،اپنے جانوروں کوکھلاتے ہیں، کہ کھل باڑے مہنگے ملتے ہیں،لیکن ہمارے سادہ لوح یا قسمت کے مارے لوگ آٹانہ ملنے پرتواحتجاج کرتے ہیں، لیکن یہ آٹاجس کو جانور بھی کھانے سے مجبور ہوجاتے ہیں،اس پراحتجاج نہیں کرتے کیونکہ کھاتے وہ بھی نہیں بلکہ جانوروں کوکھلا دیتے ہیں،لہذابے نواغریبوں کی طرف سے عرض ہے کہ فوڈ انسپکٹر صاحب آٹے کی کوالٹی چیک کریں،یا خودبھی یہی آٹاکھائیں تاکہ آپ کو پتہ چل سکے،غریب زندگی کی سزاکیسے کاٹ رہے ہیں، وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*