عام انتخابات اور ویلنٹائن ڈے: نا منظور نا منظور! سید فرحان الحسن

آج 15 فروری 2024 ہے، گزشتہ 1 ہفتے کے دوران ملک میں عام انتخابات ہوئے اور ویلنٹائن ڈے بھی ملک کے طول وعرض میں عقیدت واحترام کے ساتھ منایا گیا، اس مرتبہ چونکہ انتخابات اور ویلنٹائن ڈے ایک ہی ہفتے کے فاصلے پر تھے اس لیئے شاید نوجوانوں میں ویلنٹائن ڈے کے موقع پر زیادہ جوش و خروش نظر نہیں آیا. اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ویلنٹائن ڈے اور پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے!
اگر ہم ویلنٹائن ڈے سے آغاز کریں تو ایسے نوجوان اور خوبصورت لوگ جن کے پاس کوئی سراہنے والا ، ان کے ناَز نخرے اٹھانے والا محبوب ہو اور ان کو ویلنٹائن ڈے ہجر کی گرم دوپہروں کے بعد وصل کی ٹھنڈی شام کی مانند نظر آتا ہو ان کو ویلنٹائن ڈے میں کوئی قباحت اور قابل اعتراض بات نظر نہیں آتی. دوسری جانب وہ لوگ جن کے پاس ان تمام خصوصیات کا حامل کوئی محبوب نہ ہو وہ ویلنٹائن ڈے کو مطلقاً حرام جانتے ہیں.
سیاست کی جانب آئیں تو وہ سیاسی جماعتیں اور رہنما جن کو انتخابات میں فتح، حکومت سازی کی امید ہو اور کامیابی کے بعد کم از کم سوا آنے منافع بھی ہو جائے تو سونے پر سہاگہ.
جبکہ تمام ایسی جماعتیں جن کو عوامی رائے شماری کے ذریعے اقتدار ہاتھ آتا دکھائی نہیں دیتا وہ وقتاً فوقتاً مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے جمہوریت اور عوامی رائے شماری کو غیر مؤثر اور حرام گردانتے ہیں اور الیکشن کے بعد تجزیوں اور تبصروں میں کم وبیش وہی الفاظ استعمال کرتے ہیں جو کسی بھی طرح 15 فروری کی صبح کسی ناکام اور سنگل عاشق کے تبصروں سے مختلف نہیں ہوتے، ہارنے والی سیاسی جماعتوں اور کنوارے اور سنگل لوگوں کے نزدیک الیکشن اور ویلنٹائن ڈے ہمیشہ سے ہی قبیح، واہیات اور حرام رہے ہیں.
پاکستانی سیاست میں جن سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو یقین ہو جاتا ہے کہ وہ اب کسی بھی صورت اقتدار میں نہیں آ سکتے ان کی ہرممکن کوشش ہوتی ہے کہ ملک میں ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں کہ مارشل لاء کے نفاذ کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچے.
دوسری جانب تقریباً ہر خاندان میں ایسے ادھیڑ عمر کنوارے خواتین و حضرات موجود ہوتے ہیں جن کا باوجود انتھک کوشش زندگی بھر کوئی چکر نہیں چل سکا اور مذکورہ بالا ناکام عاشق ہر سال 14 فروری کا انتظار محض اس لیئے کرتے ہیں کہ اپنی ناکامی کا بدلہ خاندان کے ان نوجوان لڑکے اور لڑکیوں سے لے سکیں جن کو کامیابی چند گھنٹوں کے فاصلے پر صاف نظر آ رہی ہوتی ہے.
میرا ذاتی خیال ہے کہ "کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے” والا یہ رویہ درست نہیں، سیاست ہو یا ذاتی زندگی عوام کے جذبات کو اور کروڑوں لوگوں کی آنکھوں میں موجود خوابوں کو محض اس لئے پیروں تلے نہ روندیں کہ اب آپ نے موٹے شیشوں والا چشمہ پہن لیا ہے، اگر آپ مثبت سوچیں تو شاید آج بھی کوئی ادھیڑ عمر حسینہ آپ کے انتظار میں دوپٹے کے پلو سے اپنا چشمہ صاف کر رہی ہو.

تعارف: سید فرحان الحسن

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*