دین ایک مختصرسالفظ ہے،لیکن یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،اللہ نے اسے ایک کتاب جوعالمین کااحاطہ کیے ہوئے ہے،اس کے ذریعے انسانوں کوودیعت کیا ہے،قرانِ پاک میں اللہ نے فرمایا ہے کہ ہرچھوٹی بڑی چیز اس میں لکھی ہوئی ہے،دوسری جگہ فرمایا،نبی ﷺجوتمہیں دیں اسے لے لوجس سے روکیں رک جاو،یعنی دین وہی ہے،جس کی جہاں تک میرے نبی ﷺ نے قولاً،فعلاًیاتقریراًاجازت دی ہو، اب اس کے اندرکسی وجہ سے کوئی کمی بیشی،ظاہری مفاد یا عالمی تناظرمیں کرنادین سے انحراف یاارتداد کے زمرے میں آتا ہے،ناقدینِ مذہب بدعتوں کے زمرے میں ایک فرمانِ رسولﷺ کوبہت زوروشورسے بیان کرتے ہیں، ”کل بدعۃ ضلالہ“ کہ ہربدعت گمراہی ہے،لیکن جب حکومتیں دین کے اندرعالمی احکام کے تحت یادنیاوی ضرورتوں کے تحت احکاماتِ دین میں دست برد کرتی ہیں،تووہ سارے”کل بدعۃ ضلالہ“ والے گونگے ہوجاتے ہیں،کیوں؟اس لیے کہ دین کسی کا مقصد نہیں صرف اختلاف وتفرقہ ان لوگوں کامقصد ہے۔دین کی کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی اگرکوئی مسلمان درخورِ اعتنانہ جانے تووہ گمراہ ہوجاتا ہے،پھر اس کے دین کا انہدام بڑھتا ہی جاتا ہے،رکتا نہیں۔میرے آقا ﷺنے فرمایا ہے،کہ گناہ بندے کے دل پرایک سیاہ نقطہ ڈال دیتا ہے،اورپھراگربندہ توبہ نہ کرے تووہ نقطہ بڑھتے بڑھتے پورے دل کو سیاہ کردیتا ہے،اورپھربندہ مکمل گمراہی میں اترجاتا ہے،اسے توبہ کی توفیق ہی نہیں رہتی،لہذادین کے کسی چھوٹے سے چھوٹے عمل وحکم میں تبدیلی سارے دین سے منہ موڑنے کے برابرہے۔ آج بفضلِ تعالیٰ پاکستان وآزادکشمیرمیں علماؤفقہاومفتیان کی کوئی کمی نہیں،بلکہ اس کے ساتھ پروفیسروڈاکٹر بھی موجِ دریا کی طرح پھیلے ہوے ہیں،دینی مدرسوں کے علاوہ تمام کالجز ویونیورسٹیوں میں اسلامیات کی اعلیٰ ڈگریوں کا باقاعدہ بندوبست ہے،اورشاید ہی کوئی پڑھا لکھا بندہ ہوجسے یہ زعم نہ ہو کہ اسے دین میں کسی کی راہنمائی ضرورت نہیں ہے،لیکن باوجوداس کے ملک میں دین نمازروزے اورمساجدومقابر کے علاوہ کچھ نہیں سمجھا جارہا۔علماء سے پوچھوتودین کلمہ نمازوروزہ حج وزکواۃ و نکاح وجنازہ ہے،عام پڑھے لکھوں سے پوچھوتووہ کلمے سے شروع کرتے ہیں،اورعبادات سے گزرکرمرنے تک کا ذکرکرتے ہیں،زندگی میں دین جسم ولباس سے ظاہرہوتا ہے، عمل وفکر سے نہیں۔یہودونصاریٰ نے دین میں نقب زنی کے لیے جمہوری حکومتوں کا قیام کیا، خودان کے اپنے تحریف شدہ دینوں کو حکومت سے اخراج یا ان کے تسلط کو ختم کرنے کے لیے،جمہوری نظام کووضح کیا۔ لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ دنیائے اسلام اس وقت یہودونصاریٰ کی غلامی میں تھی،جن کو بعدازاں اسی جمہوری نظام کے تحت آزادیاں ملیں،اب کم از کم سوسالہ غلامی کے دوران تعلیم وتربیت بھی یہودونصاریٰ ہی کی تھی،جس میں مذہب گریزی اولین نکتہ تھا جو کسی پڑھے لکھے کے دل ودماغ میں پیوست کیا گیا،دوسری طرف اسلامی تعلیم جو مکمل طورپرغیرسرکاری وغیرعملی بن گئی،جس میں صرف تعلیم اسلام تورہ گئی لیکن تعمیلِ اسلام نہ ہوسکی، یہ بھی کم ازکم سوسالہ تربیت تھی،اب مسلمان کی گھٹی میں اسلام عبادات وتعلیمِ عبادات تک رہ گیا،پاکستان کی بنااورعلیحدہ آزادریاست کا اولین مقصد ہی یہ تھا کہ تعمیل اسلام کے لیے ایک آزاد خطہ مل جائے،اوریہی وہ ایک نعرہ تھاکہ پاکستان کا مطلب کیا،لاالہ الااللہ،یعنی نظام وعمل صرف دین کا ہوگا،جس پرتمام عالم وان پڑھ روحیں جو فطرتاًاسلام سے ربط تھیں تڑپ کرمیدانِ عمل میں آگئیں،اورپاکستان وجودمیں آگیا،لیکن شیطان بھی کوئی سویاہوانہ تھا، اس نے بھی اپنے چیلے چانٹوں کو حکم دیا کہ اب ان کو”یعدکم الفقرویامرکم بالفحشاء“،یعنی ان کو فقر(محتاجی) کا ڈرڈالو اوربے حیائی میں مصروف کردو،توآتے ہی جمہوری احکام کے تحت عالمی ربط وتعاون کے لیے آئین وقانون اسلامی کے بجائے وہی انگریزی آئین وقانون اپنالیا گیا،قائدِاعظم ؒکی تومجبوری تھی کہ وہ معاہدہ آزادی کے تحت ایک سال کے لیے ملکہ برطانیہ کے گورنرتھے،اوروہ وہی سال ہی پورا کرکے اللہ کو پیارے ہوگئے،لیکن بعدمیں آنے والوں نے بھی اسی آئین وقانون میں حکومتیں چلائے رکھیں،اسلام کے خلاف عالمی ریشہ دوانیاں بڑھتی رہیں،ملک جمہوری کے بجائے مارشل لائی حکومت میں بھی چلتارہا،جسے عالمی مکاروں نے حیلے بہانوں سے قبول کئیے رکھا، حتیٰ کے عوام اسلامی نظریہ بھول کرمعاشی معاملات میں کھوگئی،اب عالمی نقب زنوں نے اپنے فنڈزاورقرضوں کے عوض اپنے عالمی احکام کی ترویج مانگی،جوجمہوری حکومتوں بلکہ مارشل لائی حکومتوں نے بھی تسلیم کرلیا، جیسے جماعتِ اسلامی کے موجودہ امیرسراج الحق کہتے ہیں کہ مجھے عالمی فنڈ کے کسی ممبرنے کہا تھا کہ ہم تمہیں یہ امدادایسے ہی تونہیں دے رہے نا،تم ہمارے ایجنڈے کو نافذ کرو،اوروہ ایجنڈہ عورتوں کی تعلیم و آزادی کا تھا،اب آپ خودہی غورفرمائیں، کہ عورتوں کو آزادی،عزت ووقار تو اسلام نے دیا ہے، اس سے پہلے کہاں تھا،لیکن وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ایجنڈے کے مطابق آزادی دوتوجماعت اسلامی کو بھی یہ ماننا پڑاکے ایسے ہی کریں گے،اسی طرح یہودو نصاریٰ نے ایک ورلڈ آرڈر جاری کیا جس کے تحت عالمی زرِ مبادلہ صرف ڈالرہوگا، سب ملکوں نے مان لیابلکہ اسلامی ملکوں نے سب سے پہلے مانا، حالانکہ اسلام میں زرِ مبادلہ سونااورچاندی ہے،کسی شیخ الاسلام، کسی مجددوفقیہہ نے نہ کہا کہ اللہ کے قانون کی یہ نفی ہمیں لامتناہی مصائب میں پھنسادے گی،جوآج ڈالرکے رولے سے ظاہرہے،لیکن ہمارے ملاوں نے کہا یہ حکومتی معاملہ ہے اس میں دین کا کیا تعلق ہے، ابھی کورونا شریف ظاہرہوے ہمارے اللہ کے قران کے وارثوں نے فتوے دئیے کہ جیسے عالمی حکم ہے ایسے ہی نمازیں پڑھو، بلکہ مسلمانوں پرشرک کے فتوے لگانے والوں نے کعبے کوہی بندکردیا،کسی شیخ وملا نے احتجاج تک نہ کیا، لیکن جب یہودیوں نے اجازت دی کہ اب کھول دو،تو کعبے کے فراق میں جھلسے ہوے سب پیروملا دوڑپڑے،اب کعبے والااگرظاہر آجاتا توپھرکیاہوتا؟ عالمی عیاروں نے عورتوں کے حقوق دلانے کے بعداگلا وار اسلام پریہ کیا، کہ عالمی احکام کے تحت بچوں کی شادی کی عمر اٹھارہ سال کردی، کہ اس سے پہلے شادی کرنا جرم قراردیا گیا، جوپاکستان کو کوئی فنڈ دے کرجمہوری حکومتوں کے ذریعے قانون بنوایا گیا،اوراب آزادکشمیرمیں کم عمری کی شادی سے متعلق بل اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے مشاورت جاری ہے ۔یہ ہے شیطان کاوہ طریقہ جس کو اللہ نے قران پاک میں فرمایا ہے،”یعدکم الفقرویامرکم بالفحشاء“،کہ وہ تمہیں فقرسے ڈراتاہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے، اب قران وحدیث توبلوغت کے فورابعد نکاح کا حکم فرماتے ہیں کہ”ولا تقربواالزناانہ کان فاحشۃ وساء سبیلا“کہ زناکے قریب نہ جاوکہ وہ بے حیائی ہے اوربری راہ ہے، اسلام میں بلوغت بلکہ ہرانسان کی بلوغت بارہ سے چودہ سال میں ہے، لیکن اس پرپابندی ہوگی کہ وہ اٹھارہ سال کی عمرتک شادی نہیں کرے گا تووہ اپنی جنسی خواہش کے لیے کیا کرے گا؟زناہی نا۔توپھراللہ کے قانون کے خلاف قانون بنتا دیکھ کرجوعلمائے اسلام اپنے بے علم حکمرانوں کوتنبیہ نہیں کرتے،انہیں سمجھاتے نہیں،وہ کس زمرے میں آتے ہیں؟اوراس کے لیے کسی حکمرانی کے حصول کی ضرورت نہیں،جابرحکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کی بات ہے، جولوگ یہ نہیں کرسکتے وہ حکومت میں آکرکیا کرلیں گے،اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے دین کی حفاظت کی توفیق عطافرمائے آمین وماعلی الاالبلاغ۔