استعمارکے گماشتے اس ملک کے اربابِ اقتدار واختیاراس ملک کے قسمت مارے عوام سے کیا کیا ظلم ملکی مفادکے خاطر نہیں کررہے،لیکن اس ملک کے عوام کے لیے نہ سپریم کورٹ 184کے تحت سوموٹولیتاہے،نہ کوئی عوامی لیڈر آواز بلندکرتاہے، چونکہ یہ قسمت کے مارے عوام اس ملک کے اشرافیہ کے ازل سے غلام ہیں، اور ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ملک کے ملازمان اور اشرافیہ کی خوشحال زندگی گزارنے کے لیے اپنااوراپنے بچوں کا بلیدان کرکے ان کی عیاشیوں کو پروان چڑھائیں، عطااللہ نیازی نے کسی زمانے میں ایک غزل گائی تھی جس میں ایک شعر تھا،”اک میرے لہوکی سرخی سے رنگینی بڑھائی ہاتھوں کی، جس روز شہرمیں قتل ہوا تو عیدمنائی لوگوں نے“یہ وہ لوگ ہیں کہ اس بے بس وبے زبان عوم کے خون سے اپنی عیاشیوں کی رنگینی بڑھاتے ہیں، اورپھر اس مجبور ومحکوم عوام پر احسان بھی چڑھاتے ہیں کہ ہم نہ ہوتے تو تم زندگی نہ گزار سکتے،انگریزوں کے دور سے لے کر اس ملک کے ٹاوٹ اور ملازم اس عوام کو بیچ کر اس کی قیمت پر تنخوائیں اورجاگیریں حاصل کرتے رہے ہیں، ملک کو آزاد کرانے والے عوام جنہوں نے اپنی عزتیں اپنی جانیں اپنے مال ودولت اور گھر بار گنوائے، وہ آج بھی اس ایسٹ انڈیا کمپنی کے مالکوں اور ملازموں کے ہاتھوں غلامی کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں، سیاسی حکومتیں اور ریاستی مشینری اس عوم کے ساتھ وہی سلوک کررہی ہیں،جو انگریز اور سکھ حکمران کرتے تھے۔ہرحکومت جب آتی ہے تو پچھلے حکمرانوں کی عیاشیوں کے بقائے عوام سے پورے کرتی ہے،حالانکہ عیاشیاں حکمرانوں و اشرافیہ یا سرکاری ملازمان نے کی ہوتی ہیں، لیکن چونکہ یہ قوم فرعون کے زمانے کی غلامی کے قوانین میں جی رہی ہے، لہذافرعونوں کے محل میناروں کی تزئین سے لے کر ان کے ناچ گانے کے خرچے تک کوپوراکرنا ان غلاموں کی ذمہ داری ہے ورنہ ان کو جینے کاحق نہیں، لہذازندگی تو اس جانور کوبھی پیاری ہوتی ہے جو اپنی طاقت سے زیادہ کسی ظالم کا بوجھ اٹھائے چل رہا ہوتا ہے، جب ظالم اس کو ڈنڈا دکھاتا ہے تو وہ چلنے سے عاری جانور بھی دوڑنے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح میری اس قوم کے غریب ومجبور انسان جو اپنے پیٹ پالنے کی بھی سکت نہیں رکھتے جب استعماری اورفرعونی طاقتیں ان کو قانون کا ڈنڈا دکھاتی ہیں تویہ اپنے بچوں کو بھوکا پیاسا چھوڑ کر استعمارکے ایجنٹوں کو ہرقسم کے ناروا بلز، ٹیکس،لوٹے ہوے خزانے کی کمیوں کو پورا کرنے کے لیے پیسہ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں، یہی نہیں استعمار کے بعض گماشتے اس قوم کے درد سے تڑپتے ان لوگوں کے پاس آتے ہیں اور بھوک وننگ مین مبتلا قوم ان کو رفاہی کاموں کو لیے چندے دینے کی بھی پابندہوتی ہے،استعمار اپنے ایجنٹوں کو اسی قوم کے چندوں سے پال پوس کر پھر اس قوم کے لیڈر بناکران کے سرچڑھادیتاہے۔2018میں ایک سیاسی حکومت استعماری حربوں سے ختم کرکے ایک نئی استعماری پنیری کو حکومت کی کیاری میں لگایا گیا،جس کے لیے استعمار نے سابقہ حکومتوں کے خلاف چور ڈاکوکی میڈیا وارچلائی،اور زور وشور سے وہ وار چلائی گئی کہ قوم ہکا بکا دیکھتی رہی ”ہیں“ ہم تو ان کو بڑے محبِ وطن اورمخلص سمجھ رہے تھے، مگریہ تو اتنے چوراور ڈاکو نکلے، کیونکہ غلامی صرف جسموں پرہی نہیں روحوں پر بھی وارد ہوجاتی ہے، کسی عام عوام کو تو چھوڑیں کسی متاثرہ لیڈر کو بھی یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ اس مہم کے چلانے والوں پر سوال کرتا کہ اگر ہم ایسے ہی تھے تو یہ ہمارے ماتحت ادارے اس وقت کیوں خاموش رہے؟ لہذااب یہ اگر ہمارے اوپر الزام لگا رہے ہیں تو ہم بھی ببانگِ دہل کہتے ہیں کہ ہمارے جرم میں یہ بھی برابر کے شریک ہیں، لہذاجیسے ہم کو حکومت وسیاست سے نااہل کیا جارہا ہے، ان کو بھی عہدوں اور ملازمتوں سے نااہل کیا جائے،لیکن چونکہ وہ بھی غلام تھے، اور غلام فرعون کے غرق ہوجانے کے بعد بھی موسیٰ سے کہتے ہیں ”جا تواور تیرا رب ان سے لڑوہم یہاں بیٹھے ہیں“لہذاان غلاموں نے چوں چرانہ کی،مقدس ججوں کے فیصلے کو قبول کرکے کہا ”اب میں اپنا فیصلہ اللہ پرچھوڑتا ہوں“۔لیکن اس قوم کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں آگیا،جس نے کبھی کوئی فیصلہ کیا ہی نہ تھا، جس نے اپنی مرشد سے نکاح کرکے،خودکوہی نہیں سارے ملک کو مرشدکی نظرکرم پرچھوڑدیا،آتے ہی عوام کو بجلی کے بلوں کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے پچاس پچاس ہزاراور لاکھ لاکھ کے بل ان بے چاروں کو تھما دئیے، جو باقاعدگی سے بل دیتے تھے، اور جن کے بقائے بھی نہ تھے،اوران میں کچھ ایسے غریب تھے جن کے پاس بچوں کو کھلانے کے لیے روٹی بھی نہ تھی،لیکن اس ملک کے ہمدرد ملازمین نے ان غلام اور بے بس لوگوں سے بذریعہ پولیس بھی بل وصول کئیے، اب اگر کوئی آزاد قوم ہوتی تو پوچھتی کہ یہ بجلی کے بقائے کیا س عوام نے چھوڑے ہیں، یا ان اشرافیہ نے جو اس ملک پر ملازمان اور لیڈران کی شکل میں مسلط ہیں، لیکن غلام کو سوال کا حق فرعونی حکومت میں حاصل کہاں تھا، جو یہاں ہوتا، البتہ عوام یہ بھی نہ کہہ سکتے تھے، کہ ہم اپنا فیصلہ اللہ پرچھوڑتے ہیں،کرتے کرتے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازموں نے بجلی کے خرچ کرنے کو اورایمانداری سے اس کا بل ادا کرنے کو امیری اور غریبی کا معیار بنا لیا اب کوئی غریب اگر مہینے میں دوسوسے اوپریونٹیں چلائے گا تو وہ امیر ہوجائے گا،اوراسے گھریلویونٹ بھی پندرہ سے اٹھارہ روپے میں دی جائے گی، اب کسی غریب کاکوئی بیمار ہے اور اسے اس کے لیے پنکھا یا ہیٹرلگاتار چلانا پڑے تو وہ امیر ہوجائے گا، اور اسے پروٹیکٹوبل دیاجائے گا، لیکن دوسری طرف جو امیر ہیں جن کو دس دس بیس بیس لاکھ حکومت تنخواہ دے رہی ہے، ان کو ہزاروں یونٹ بجلی بھی فری ہے، جس کے تحت وہ اپنا ہی نہیں بلکہ اپنے باقی عزیزواقارب کا بل بھی ادانہیں کرتے،اس کے ساتھ اس قوم کو کہا جاتا ہے، ہم نے انصاف مہیاکرنا ہے، ہم نے جمہوری حقوق کی بات کرنی ہے، ہم نے 184کے تحت فنڈامینٹل رائٹس پرسوموٹو لینا ہے، کیا یہ لوگ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں ”یخٰدعون اللہ والذین اٰمنوا“کہ وہ اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور ایمان والوں کوبھی۔لہذااہل اقتدار واختیار اگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں، تو انہیں اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس بھی ہونا چاہیے،قوم کے ساتھ اس ظلم کو بندکیا جائے، کہ جو بل دے رہا ہے، وہ بجلی نہ جلائے، بلکہ صرف حکومت کو مدد کے طور پر ماہانہ بل دے دیا کرے، کہتے ہیں کسی بنیے نے دیسی گھی خریدااوراسے اس ڈبے میں بندکیا جس پر تالا لگا ہواتھا، اورابچوں سے کہا اب دیسی گھی سے روٹی ترکرکے کھایا کرو، بچے بے چارے پاکستانی قوم سے تھے، انہوں نے اباجی سے سوال کرنے کے بجائے، روزانہ صبح گھی کے ڈبے کانچلا حصہ روٹی پر رگڑ کر کھانا شروع کردیا، ابا نے ایک دن دیکھا تو اس نے کہا بجٹ کا خیال کرو یہ روزانہ گھی کھانے کی عادت چھوڑدو،لہذاہمارے بنیے بھی کہتے ہیں،لوگو!بجلی کے کنکشن لگواولیکن اس کا ستعمال نہ کیا کروورنہ بجٹ پورا کرنے کے لیے آپ کو پروٹیکٹو بل ادا کرنے پڑیں گے،اللہ تعالیٰ اس غلام اور مظلوم قوم پررحم فرمائے آمین،وماعلی الاالبلاغ۔