آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

سردیوں کی آمد اور بے گناہوں کی موت : قاری محمدعبدالرحیم

ہرسال موسمِ سرماجب پاکستان میں آتا ہے،تودواندھیرے چھا جاتے ہیں، ایک دھند کا جو پاکستان کے اکثر علاقوں میں دن کو رات کا سماں بنالیتی ہے، اوردوسرا پہاڑی علاقوں اور سڑکوں کے اردگرد،اور غیر آباد زمینوں میں اگنے والے گھاس پھونس اورسرکنڈوں کا جو کہ خشک ہوکر بادِ صرصر سے کہہ رہے ہوتے ہیں،کہ تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں اورہم بے زار بیٹھے ہیں، اورپاکستانی قوم چونچلے کرتے ہوے کہیں اپنی تفریح کے دوران راتوں کو تاپنے کے لیے،ان خشک گھاس پھونس کو آگ لگا کر مزے لے رہے ہوتے ہیں، لیکن دوسری طرف اس خشک گھاس پھونس میں رات بسر کرنے والے پرندے اور جنگلی جانور اپنے بچوں سمیت،میرے ان لذتِ شوق کے مدھ مستوں کے ہاتھوں بھسم ہورہے ہوتے ہیں۔پہاڑوں میں لوگ گھاس جلانے کے دوران قیمتی جنگلات اورنایاب پرندوں کوجلادیتے ہیں،محکمہ وائلڈ لائف اور اس طرح کے کئی جانداروں کے حقوق کی تنظیموں کو اس کی خبر نہیں ہوتی،کوئی اژدھا یا کوئی بڑا جنگلی درندہ اگر بستیوں میں گھس آئے،ا وروہ لوگوں کا جانی ومالی نقصان کررہا ہو،اور کوئی بندہ اپنے جانور بچاتے یا اپنے بچے محفوظ کرتے اگر اسے ماردے تو فورا محکمہ وائلڈ لائف والے پہنچ جاتے ہیں، اور اس بندے پر باقاعدہ کاروائی ہوتی ہے، کیو ں؟اس لیے کہ ان درندوں کی حفاظت کا حکم ہمیں عالمی جانوروں پررحم کرنے والوں کی طرف سے ملا ہوا ہے، لہذااگر ہم ان سے کچھ نذرانہ لیتے ہیں تو ہمیں اس کا حق بھی ادا کرنا چاہیے، لیکن یہ بے گناہ جانور جن کے بارے میں عالمی شاطروں کو علم ہے کہ اگر یہ جانوراور پرندے جو قدرتی طور پر انسانوں کو ضرر پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں اور اسی طرح کی اورتکلیف دہ چیزوں کے خاتمے کے لیے ایک فورس ہیں، اگرباقی رہیں تو پھر فصلوں کے کیڑوں، چوہوں اورایسے ہی بے ہنگم پیدا ہونے والے جانوروں کو کنٹرول رکھیں گے، توپھر ان کی کیڑے مار ادویات کہاں بکیں گی، لہذاوہ ان بے ضرر چیزوں کے بارے میں کوئی ہمدردی نہیں رکھتے، اللہ انہیں ہدایت دے۔دوسری طرف ہمارے پنجاب میں بالخصوص دھند کا راج ہے کہ اس کی وجہ سے اہم شاہراہیں بند بلکہ کاروبار وتعلیمی ادارے بندکردیے جاتے ہیں، عدالتوں سے آرڈر جاری ہوتے ہیں کہ انتظامیہ دھندکے خلاف کام کرے اور اسے جلد سے جلد ہٹائے، اور انتطامیہ بھی آرڈر کردیتی ہے کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بند کردیا جائے، جوگاڑی ذرا پرانی کنڈیشن کی ہے اسے جہاں دیکھو جرمانہ کردو،چاہے دھواں چھوڑتی ہویا نہ۔یعنی کہتے ہیں کہ کسی ریچھ کو کسی آدمی کے ساتھ دوستی ہوگئی وہ اس کے ساتھ ساتھ رہنے لگا، گرمیوں کا موسم تھا، آدمی جب سوتا تو ریچھ اسے پنکھا جھلنے لگتا،ایک دوپہر بندہ بے خبر سویا ہوا تھا، ریچھ بیٹھا پنکھا جھل رہا تھا، ایک مکھی بندے کے منہ پر دھرنا دے کر بیٹھ گئی، ریچھ ادھر سے اڑاتا، ادھر ہوکر بیٹھ جاتی،حتیٰ کہ ریچھ تنگ آگیا پاس ہی ایک بڑاسا پتھر پڑاتھا ریچھ نے اٹھایاا ور مکھی کو دے مارا بندے کے سر میں جالگا اور وہ کچلا گیا،نہ بندہ رہا نہ مکھی رہی، لہذادھند ہے، ڈی سی صاحب کے پاس تو یہی ایک چٹکلا ہوگا نا کہ وہ لوگوں کو بندکردے، وہ سڑک پرنہ نکلیں،کہ کہیں مارے نہ جائیں، لیکن ڈی سی صاحب جج صاحب کی گاڑی انہیں سڑکوں سے گزر کا دفتر جائے گی، لیکن وہ محفوظ رہیں گے، دھند یا اس کے مشابہ قدرتی چیزیں باقی ملکوں میں بھی آتی ہیں، لیکن وہاں لوگوں کو بندنہیں کردیا جاتا، بلکہ ان کے کام میں اگر یہ قدرتی آفات رکاوٹ بنتی ہوں تو ان لوگوں کو گزر وبسر کے لیے مالی معاونت بھی کی جاتی ہے، ابھی ماضی قریب میں کروناکی مثال موجود ہے، وہاں صرف انسانوں کو ہی دھند یا برف میں کھانے پینے کی معاونت نہیں کی جاتی ہے بلکہ اس ماحول میں رہنے والے پرندوں اور ایسے جنگلی جانوروں کے کھانے پینے کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے، ہمارے یہاں صرف ان چیزوان کے انگلش نام یاد کیے ہوتے ہیں،اور انگلش ڈاکٹروں کی وہ ایڈوائز جو انہوں نے اپنے محفوظ بے احتیاج لوگوں کو معلومات کے طور پر بتائی ہوتی ہیں، ہم انہیں اپنے بھوک وننگ سے نیم مردہ لوگوں پر بزورِ حکم نافذ کرتے ہیں، ابھی ہمارے یہاں دھند سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی ہورہی ہے کہ فیکٹریوں کو بند کردیا جائے گا، دھواں چھوڑتی بسوں کو بند کردیا جائے گا، فصلوں کے کچرے کو آگ نہیں لگانے دی جائے گی، تو بتائیں کہ پھر لوگ اپنی زمینوں کو اگلی فصل کے لیے تیار کیسے کریں گے؟بجائے اس کے عوام کو اس کچرے کو کسی مفید کام کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے، پچھلے دورِحکومت میں حکمرانوں کو علم ہواکہ گنے کے کچرے سے انڈیا والے بجلی بنارہے ہیں، تو ہمارے یہاں سرکاری خرچے پر اتنی چیخ وپکار ہوئی کہ لوگ سر پکڑ کر بیٹھ گئے، کیا کریں ہم زندہ گنے ہی سے بجلی بنالیں لیکن کوئی بنانے بھی تو دے، بجلی بنانے کے عمل میں بھی تو گنا جلے گا اس کا دھواں بھی اٹھے گا، دوسرے یہ کہ ہمارے یہاں کوئی عام بندہ ایسا کام تو اپنے لیے بھی نہیں کرسکتا، ہمارے آزاد کشمیر میں کسی نے کسی جگہ نہر پر جرنیٹر لگا کر اپنے گھر کے لیے بجلی بنانا شروع کردی، تو حکومت نے اسے پکڑلیا اس کا جرنیٹراور باقی سامان ضبط کرلیا، کیوں کہ ہم کسی بھی کام کے لیے ایک باقاعدہ فرم ہائر کرتے ہیں اوروہ بھی کسی باہر کے ملک کی اورپھر اس سارے منصوبے کو باقاعدہ پی سی ون اورپی سی ٹو سے گزارنا ہوتا ہے، وہاں ملازمانِ سرکاراپنا حقِ خدمت وصول کرتے ہیں، اور پھر وہ کوڑیوں میں بننے والی چیز اس پاکستانی قوم کو کروڑوں میں پڑتی ہے، اورپھر اگلی حکومت اس منصوبے کو ادھورا چھوڑ کر ایک نیا منصوبہ شروع کردیتی ہے، جیسے پچھلے حکمرانوں نے بجلی کے بے تحاشہ کارخانے لگائے حتیٰ کہ ان کے مخالف حکومت نے بھی کہا کہ انہوں نے بجلی ہی اتنی بنا دی ہے، کہ ہم اسے کہا ں بیچیں،لیکن اب وہ حکومت جب آئی تو وہ کہنے لگے کہ لوگوں کو اب چاہیے کہ بجلی مہنگی اورکم ہے تو سولر سسٹم لگوائیں،تو وہ جو دوہزار اٹھارہ میں زیادہ بن گئی تھی وہ اب کہاں گئی ہے؟ اسی طرح ہمارے جانوروں کے ہمدرد ادارے،بھی جانوروں کو بچانے کے لیے ایک پورا محکمہ بنا ہے، وہ ان آگ میں جلتے جانوروں کے لیے کیا کررہے ہیں؟ لوگوں کو آگاہی بھی نہیں دے رہے کہ آپ کے اس طرح آگ لگانے سے یہ بے گناہ جانور یا ان کے بچے جل رہے ہیں، جو عالمی جرم بھی ہے، لیکن اسلام نے تو اس قدر منع فرمایا ہوا ہے کہ میرے آقاﷺ نے کسی غزوہ میں جاتے ہوے ایک چڑیا کو جب فریاد کرتے سنا تو اپنے اصحاب سے فرمایا کس نے اس کے بچے اٹھا کر اسے اذیت دی ہے، لہذافورا اس کے بچے آلنے میں رکھو، چہ جایئکہ تم آگ لگا کرتماشہ دیکھو، ان جلتے تڑپتے جانوروں کی فریادیں ہی ہیں کہ اس ملک میں کسی کے بچے بھی محفوظ نہیں،اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے نبی ﷺ کے احکام کے مطابق اپنی زندگی گزارنے اوراپنے ماحول کو محفوظ رکھنے کی توفیق دے آمین وماعلی الاالبلاغ.

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*