مکالمات آزاد کشمیر کے سابق سنئیر بیوروکریٹ اکرم سہیل کی تازہ تصنیف ہے۔ بیوروکریسی کا نام سنتے ہی ہمارے لوگ خائف ہو جاتے ہیں۔ وہ اسے ایک ایسا طبقہ تصور کرتے ہیں جو دلیل کو نہیں بلکہ حکم کو مانتا ہے چائے وہ غلط ہو یا صحیع لیکن اکرم سہیل نے دوران سروس اس روایت کو کم از کم اپنی ذات کی حد تک ضرور بدلا ۔ انہوں نے شعر و شاعری اور تحریر و تقریر ہی نہیں بلکہ سرکاری فیصلوں کے ذریعے بھی بیوروکریسی کے امیج کو بہتر بنانے کی بھر پور کوشش کی۔ سرکاری ملازمین پر تحریر و تقریر کی جو پابندیاں ہوتی ہیں انہیں نظر انداز کرتے ہوئے اکرم سہیل نے تحقیق و تخلیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ انکی نئی تصنیف مکالمات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مکالمہ امن پسندی اور دلیل کا دوسرا نام ہے۔ جہاں مکالمہ نہیں ہوتا وہاں امن نہیں ہوتا اور جہاں امن نہیں ہوتا وہاں ترقی نہیں ہوتی۔ مکالمہ فرد اور معاشرے کا تہزیب یافتہ اور تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت بھی ہے۔ انٹرنیٹ کے جدید دور میں مکالمہ کو سافٹ پاور بھی کہا جا سکتا ہے جس میں کلچرل ایکسچینج پروگرامز، نشر واشاعت ، ریڈیو، ٹی وی، سیمینارز اور سوشل میڈیا کو بہترین ٹولز کے طور ہر دیکھا جاتا ہے۔ اکرم سہیل صاحب نے ان ٹولز سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے ایک بہترین صحت مندانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ سافٹ پاور کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہارڈ پاور کی زیادتیوں کا بھی زکر کیا ہے۔ علاقائی سطع پر اس ہارڈ پاور کا مطلب اشرافیہ، سیاسی ، اقتصادی اور معاشرتی قوتیں ہیں جبکہ عالمی سطع پر استعماری قوتیں ییں۔ استعمار کا مقابلہ کرنے کے لیے تو عالمی طاقت کے توازن کی ضرورت ہے جو اسلامی دنیا کو متحد کر کے ہی قائم کی جا سکتی ہے لیکن علاقائی سطع پر اصلاحات کے لیے اکرم سہیل صاحب نے کچھ اہم تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ اصلاحات اور حق و انصاف ہر یقین اور اپنی انفرادی صلاحیتوں سے استفادہ اور زمہ داریوں کو پورا کرنے پر یقین رکھنے والوں کو کلمات کا مکمل مطالعہ کرنا چائیے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے نیشنل انسٹیٹیوٹ میرپور یا براہ راست اکرم سہیل صاحب سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ گو کہ ہمارے معاشرے میں کتاب بینی کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے لیکن تحقیق و تخلیق پر یقین رکھنے والوں کے لیے کتاب کی اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔ کتاب بہترین دوست ہے۔ آزما کر دیکھئے !