ملک میں ڈکیتیوں کی وارداتوں میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے، پہلے کراچی، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے چند اضلاع ہی ڈکیتیوں کے لیئے زیادہ مشہور تھے لیکن اب تو ایسا لگتا ہے جیسے ملک کا کوئی بھی شہر ڈاکوؤں سے محفوظ نہیں (ویسے تو پاکستان اور اس کی عوام 76 سال سے غیر مسلح ڈکیتوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں لیکن فی الحال ہمارا موضوع غیر سیاسی ہے). نوجوان، بوڑھے، مرد و خواتین حتی کہ اب تو صحافی حضرات بھی ان ڈاکوؤں سے محفوظ نہیں۔
کراچی میں ایک شریف النفس انسان کسی سنسان سڑک کے کنارے گاڑی کھڑی کرکے کسی خاتون سے حساس موضوعات پر تبادلہ خیال کر رہا ہو یا پھر لاہور میں کوئی نوجوان صحافی بیوی کے میکے جانے پر موٹر سائیکل پر قلفی کھاتا ہوا ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہو رہا ہو، ڈاکو اچانک آتے ہیں اور ہاتھ میں موجود قلفی کے علاوہ سب کچھ ساتھ لے جاتے ہیں جیسے یہ سب کچھ ان کا ہی ہو اور اس نوجوان نے امانتاً اپنے پاس رکھا ہو۔
یہ کسی قسم کی دھمکی سے ڈرتے بھی نہیں، ورنہ اگر کسی سیاسی ڈاکو کو ڈرانا مقصود ہو تو صحافی حضرات عموماً اپنے موبائل فون یا کیمرے کا استعمال کرکے ڈاکو کو سمجھا دیتے ہیں کہ یہاں اس کی دال گلنے والی نہیں(ویڈیو اور آڈیو کا تعلق کسی زیبا سے بھی ہو سکتا ہے اور نازیبا سے بھی) لیکن ڈاکوؤں کی مذکورہ قسم تو سامنے والے کے پیشے کا بھی احترام نہیں کرتی، یہ ویڈیو یا آڈیو شیئر کرنے کی دھمکیوں سے بھی نہیں گھبراتے کہ یہ عموماً بٹوہ، موٹر سائیکل اور نقدی تو لے کر جاتے ہی ہیں، اور تو اور موبائل بھی نہیں چھوڑتے۔ عموماً ایک شریف النفس انسان ڈکیتی کی واردات کے کچھ دن بعد تک اس بات پر پریشان رہتا ہے کہ ڈکیت شام کو واپسی پر دفتر کے باہر سے اس کا تعاقب کر رہے تھے یا پھر صبح روانگی سے قبل گھر کے اندر سے ہی۔
ویسے تو متاثرہ شخص خواہ امیر ہو یا غریب وہ اس سانحہ کے بعد جذباتی اور مالی طور پر ریکور ہو ہی جاتا ہے۔ روپیہ، پیسہ، گاڑی، موٹر سائیکل پر انسان یہ سوچ کر صبر کر لیتا ہے کہ جس نے پہلے دیا تھا وہی دوبارہ دے گا، لیکن موبائل فون میں جو کچھ تھا وہ اگر کسی طرح اپنوں یا اپنی کے سامنے آگیا تو پھر ان کی آنکھوں کے سامنے موت کا منظر گھومنے لگتا ہے۔
غرضیکہ ڈاکو ہمارے وہ مسیحا ہیں جو ہمیں دنیا کی دوڑ باگ اور نفسا نفسی میں بھی اللہ کا خوف دلاتے ہیں، ہمیں توبہ استغفار کرنے پر مجبور کرتے ہیں، بعض منچلے تو ہر واردات کے بعد کچھ ایسی دعائیں بھی مانگتے ہیں کہ "یا اللہ اس مرتبہ کچھ بھی بیوی کے سامنے نہ آئے آئندہ ایسا کچھ نہیں کروں گا” لیکن مذکورہ واردات کے فوراً بعد پیدل گھر پہنچنے سے پہلے ہی اگر کوئی دلکش حسینہ ان سے لبرٹی چوک کا راستہ پوچھ لے تو کریم یا اوبر کروا کر پھر سے اس کو چھوڑنے چل پڑتے ہیں اور بھول جاتے ہیں "موت کا منظر!”