آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

نشہ، جوا اور بھیک : قاری محمدعبدالرحیم

اسلام نے نشہ (خمر) جوا (میسر) اور بھیک سے سخت منع فرمایا ہے،قران پاک میں فرمایا گیا ہے،اے ایمان والو!سوائے اس کے نہیں کہ شراب اور جوا،شیطان کے نجس اعمال میں سے ہیں،اس ٓیت سے پہلے فرمایا گیاتھاکہ ان دونوں میں لوگوں کے لیے فائدے بھی ہیں لیکن ان دونوں کا گناہ بہت بڑا ہے ان کے نفع سے۔اسی طرح سوال کرنے یعنی بھیک مانگنے سے بھی منع فرمایاہے۔ عجیب بات ہے کہ آج زمانے میں ان تینوں چیزوں کا کھلے عام چلن ہے،اورجس طرح میرے آقاﷺ نے ایک حدیث پاک فرمایا ہے کہ میری امت میں لوگ شراب پئیں گے لیکن اس کا نام بدل لیں گے،تو اس وجہ سے ان پر زمین میں دھنسنے کا اور کچھ کی شکلیں بدلنے کا عذاب آئے گا،۔ آج ساری اسلامی دنیا میں قانوناًشراب پر پابندی ہے،لیکن پاکستان سمیت کئی اسلامی مالک میں شراب کی صنعت پر پابندی نہیں ہے،ہر پاکستانی حکومت شراب کی فروخت کے لیے پرمٹ بھی جاری کرتی ہے، جبکہ عمرانی حکومت جو پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کا دعویٰ کر رہی تھی اس نے اپنے مختصر دور میں گیارہ ہزار شراب کے پرمٹ جاری کیے۔اسی طرح پوری دنیا میں ”میسر“ یعنی آسانی سے مال کمانے کا ذریعہ جسے جوا کہا جاتا ہے،وہ بھی پاکستان میں جاری ہے۔ آجکل یہودیوں نے ”میسر“کی ایک نئی قسم ٹک ٹاک، اور یوٹیوبر فالوور کے نام سے چلا دی ہے یہودیوں کو اس کا فایدہ یہ ہے کہ ان کابزنس نیٹ لوڈنگ ہوا کی طرح پوری دنیا میں چل رہا ہے، اور اس میں صارفین کا اضافہ اس سے ہوتا ہے جو ان کی چاندی ہی نہیں سونا بنا ہو اہے، دوسرا یہ کہ وہ اس کے ذریعے پوری دنیا کے انسانوں میں بے حیائی بدکرداری، نفرت اور فتنہ وفساد پھیلانے میں مصروفِ کارہیں، اس مفت کے پیسے کی لت نے دنیا میں جہاں علم کی گتھیا بھی سلجھائی جارہی ہیں وہاں ہی جہالت، شیطانیت کو بھی فروغ دیا جارہا ہے، ایک یو ٹیوبر،ملک وقوم سے لے کر مذہب اور مقدسات تک سب کے لتے لے رہا ہے، اور جتنا کوئی لایعنی بات کرتا ہے،اتنا ہی اس کے فالوور زیادہ ہوتے ہیں کچھ اس لایعنی کو ماننے والے کچھ اس کے خلاف لیکن یہود یوں کا فارمولا بقول اقبال یہ ہے، کہ یہاں ”بندوں کو گنا جاتاہے تولا نہیں جاتا“، کسی قوم کو بے کار اور بے دست وپا کرنے کا اس سے بڑا چکمہ اور کیا ہوسکتا ہے، کہ بندے بیٹھے ہوے فون پر پوسٹیں شئیر کرتے رہتے ہیں،نہ کوئی اور کام کریں نہ سیکھیں،ہماری موجودہ نسل اگر خدا خیرکرے ”توڑ چڑھ“ گئی تو اگلی نسل صرف بھیک مانگنے کے لیے رہ جائے گی، کیونکہ ان کے پاس نہ کوئی علم ہوگا نہ ہنر اور اتنے تک یہودی بھی اپنا پینترا بدل لیں گے، اورپھر ہوسکتا ہے کہ وہ ساری دنیا میں اپنے ہوٹل کھول لیں، اورڈیجیٹل کرنسی جس کی شروعات ہماری سابقہ عمرانی حکومت کرتے کرتے رہ گئی تھی، وہ شاید جاری ہوچکی ہو، اورپھر یوٹیوبر اور ٹک ٹاکر کو ان ڈیجیٹل کرنسی کارڈز پر ان ہوٹلوں سے کھانا ہی ملا کرے گا، کیونکہ اس کے علاوہ ان لوگوں کو کوئی ہاتھ پاوں سے کرنے والا کام توآ ٓتا نہ ہوگا، آج پاکستان میں جس طرح اس ”میسر“کی کاکمائی پرلوگ لگے ہوے ہیں، ان کا تماشہ اسی بات سے کیا جاسکتا ہے، کہ ہمارے نہایت محترم اور مقدس مذہبی ہستیاں بھی، اس میڈیا پر اپنے بیانوں کے کلپ چلاکر بطور حق مہر فالوور کے نام پر مال کام رہے ہیں، حالانکہ یہ”میسر“کے زمرے میں آتا ہے، کسی مذہبی ٹی وی کے ایک پروگرام میں کسی نے سوال کیا کہ فلاں عالم بزرگ کی کمائی کا کیا ذریعہ ہے تو مفتی صاحب نے جواب میں ایک بات یہ بھی فرمائی کہ ان کے ویڈیو کلپ جو میڈٖیا پر چلتے ہیں،ان کی رائلٹی بھی تو ان کی بنتی ہے، تو اب خودغور فرمالیں، کہ اس ”میسر“ سے کس کس نے فایدہ نہیں اٹھایا۔ آئیے سب سے بڑا فایدہ اٹھانے ولا وہ ہمارا صحافی طبقہ ہے، جو خبروں پر مصروف ہے، ملک کی مناسب اور غیر مناسب سب خبریں، اس یو ٹیوب پر ملتی ہیں، اور وہ تمام معزز لوگ جو کل تک ٹی وی چینلوں،اور اخباروں کے رحم وکرم پر تھے، آج ان سب کے اپنے اپنے چینل ہیں،ہمارے ایک اینکر عمران ریاض صاحب سے کسی نے پوچھا کہ آپ روزانہ کتنے کمالیتے ہیں، تو اس نے کہا تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ میں کتنے روزانہ کما لیتا ہوں، اوروہی کمائی آج پاکستان کی بربادی کی ذریعہ بن گی ہے، کہ عالمی صیہونی طاقتوں نے بغیر کسی ہینگ پھٹکڑی کے، پاکستان کو چونا لگا دیا، پاکستان کی وہ قوم جو خود بھوکے رہ کر جنگِ ستمبرمیں اپنی فوج کو پراٹھے کھلاتے رہے، وہ آج آگ اورآہن سے فوج کے مراکز پر حملہ آور ہوگئے، آج یوٹیوب پر صحافی سچی یا جھوٹی خبریں چلانے کے ساتھ باربار استدعا کرتا ہے، کہ ہمارے چینل کو سبکرائیب کریں،ہمارے چینل کو سبکرائب کریں کیوں؟ صرف اس لیے کہ وہ مال زیادہ بنا سکیں، لیکن میرے خیال میں یہ مال”میسر“ کے مثل ہے تو اب لوگوں میں پاکیزگیِ افکار وعمل کہاں سے آئے گی؟اس کے علاوہ بھیک بھی اس قوم کی نس نس میں سماچکا ہے، ہر بندے نے کسی نہ کسی نام سے کوئی خدمتِ خلق کا کام شروع کررکھا ہے، جس کے لیے وہ فخریہ مانگتا ہے کہ وہ لوگوں کے لیے مانگ رہا ہے، حالانکہ ایک عام بھکاری بھی اپنے لیے نہیں اپنے بچوں کے لیے ہی بھیک مانگ رہا ہوتا ہے، لیکن ہمارے جاہل لوگ بچوں کے لیے بھیک مانگنے والے کو تو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اسے کہتے ہیں ہٹا کٹا ہے اسے شرم نہیں آتی،لیکن این جی اوز کے ہٹے کٹے بلکہ سوٹڈ بوٹڈ مانگنے والوں کے ساتھ ہم کھڑے ہوکرفوٹو سیشن کراتے ہیں، اسی طرح کئی بھکاری قوم کے لیڈر بن جاتے ہیں، بلکہ وزیراعظم بن کربھی ان کے اکاونٹ میں ان کی این جی او کے لیے چندہ جمع کیا جاتا ہے، اورپھر ایسے لیڈر حکومت میں رہ کربھی قوم کے لیے لنگر خانے ہی بناتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان بھیک مانگنے والوں کی صفِ اول میں کھڑا ہے، اللہ اس قوم کو ہدایت دے کہ یہ شراب جوے اور بھیک سے،تائب ہوکر اپنے دین کے اوراپنے علم اورہنر کے مطابق حلال کمائی کی طرف رجوع کرلے تو پاکستان اس عذاب خداوندی سے بچ سکتا ہے، اللہ تعالی ہمیں اپنی ہدایات پر چلنے کی توفیق دے آمیں وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*