ایک ہفتہ دورہ ایران کی روداد : قیوم راجہ

ایک ہفتہ دورہ ایران کی روداد : قیوم راجہ

ابتدائی شیڈول کے مطابق مجھے 14 جولائی کو ایران پہنچنا تھا لیکن اچانک ایک قریبی دوست نے بھی ساتھ چلنے کی خوائش کا اظہار کیا۔ ویزہ آفیسر کی طرف سے انٹرویو کی دعوت پر وہ نہ پہنچ سکے ۔پھر محرم کی مصروفیات کی وجہ سے وقت پر دوبارہ انہیں اپائنٹمنٹ نہ مل سکی ۔ اس طرح 14 جولائی گزر گیا ۔ مجھے ہر صورت میں 13 اگست تک میرپور واپس انا تھا اس لیے میں دوبارہ اپنا شیڈول طے کر کے 6 اگست کو لاہور سے تہران پہنچ گیا لیکن دو ہفتے کا ابتدائی ٹور ایک ہفتے تک تبدیل ہو جانے کی صورت میں کچھ ملاقاتیں بھی نہ ہو سکیں۔

میرے نزدیک سیاسی ، سفارتی اور ثقافتی ملاقاتوں کی نسبت اہم تزکرہ 44 سالوں سے غیر منصفانہ اقتصادی پابندیوں کے شکار ملک ایران کا معیار زندگی، حکومتی نظم و نسق، مضبوط انتظامیہ اور عوام کی خود داری ہے۔

مقامی وقت کے مطابق جہاز چار بجے صبح لینڈ ہوا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ کسی کی نیند میں خلل ڈال کر ائر پورٹ بلایا جائے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب دنیا سو رہی ہو، ایک اجنبی ملک کے ہوائی اڈے سے اکیلے بائر گلیوں میں جانا ہر کوئی خطرہ محسوس کرتا ہے لیکن وہاں کے ماحول سے مجھے کوئی خطرہ محسوس نہ ہوا۔ قانون کی بالا دستی واضع نظر ا رہی تھی۔ یہ حقیقت بھی باعث حیرت تھی کہ 44 سالوں سے اقتصادی پابندیوں کے شکار ملک کے ہوائی اڈے پر کوئی گدا گر نظر نہیں ایا اور نہ ہی کسی دفتر ، پارک اور گلی میں پاکستان کی طرح کسی گدا گر کو کسی کا پیچھا کرتے دیکھا۔ میں نے تہران ائر پورٹ سے امام خمینی چوک جا کر ہوٹل روم کا پتہ کیا۔ جواب ملا کہ اس موسم میں اتنا رش ہے کہ بعد دوپہر دو بجے تک معلوم نہیں کہ کوئی کمرہ خالی ہو گا کہ نہیں۔ میں نے سوچا چلو پہلے طعام پھر آرام ۔ ناشتہ کر ہی رہا تھا کہ اسلام آباد سے ایرانی سفارت خانہ کے پی أر او سید رمضان موسوی صاحب نے وٹس ایپ پر پوچھا کہ آیا کمرہ ملا جس نہیں؟ میرا جواب نفی میں سن کر انکو تشویش ہوئی تو انہوں نے ایک انگریزی دان ایرانی ھومن مظفری کو مجھ سے رابطے کے لیے کہا۔ وہ اپنی گاڑی پر مجھے لینے آ گیا ہھر ڈائریکٹر جنرل شعبہ ثقافت محمد معینیان کے دفتر بھیج دیا جہاں انہوں نے دوپہر کا کھانا کھلا کر مجھے تہران شہر کے وسط میں ایک مہمان خانے میں بھجوا دیا۔ اس بار بھی مجھے ٹیکسی کا کرایہ نہ دینا پڑا۔ گو کہ میں گزارے کے لیے فارسی بول لیتا ہوں، اس مہمان خانے کے مینجر کراچی میں خانہ فرہنگ میں کئی سال خدمات دینے کی وجہ سے بہترین اردو بول لیتے تھے۔ وہاں مجھے ایک تعلیم یافتہ پاکستانی بزرگ عباس نقوی بھی ملے جو طویل عرصہ سے ایران میں رہے ہیں۔ وہ بھی کافی مدد گار ثابت ہوئے۔

دوسرے دن میں نے وزارت خارجہ کا وزٹ کیا جہاں میں نے مسلہ کشمیر اور اسکے حل پر فارسی میں ایک دستاویز کے ساتھ وزیر خارجہ کے نام انگریزی میں کورنگ لیٹر بھی دیا مگر دفتر خارجہ کے زمہ داران نے کہا کہ کورنگ لیٹر کا بھی فارسی میں ترجمہ کروائوں۔ دوسرے دن روز نامہ تہران ٹائمز کے سابق ایڈیٹر اور النور نیوز ایجنسی کے موجودہ انچارج جناب محمد قادری صاحب مجھے مہمان خانہ میں ملے جہاں عالمی صورت حال کے علاؤہ مسلہ کشمیر پر بھی انہوں نے میرا موقف لیا اور دوسرے دن النور نیوز کی انگلش سیکشن میں شائع کیا۔ تہران چونکہ دارالخلافہ ہے اس لیے وہاں کا ماحول مشہد، قم اور شیراز جیسے زیارتی مقامات اور دوسرے سیاحتی شہروں سے مختلف ہے لیکن ایران کہ جس بھی شہر میں جانا ہوا وہاں کے پارک، گلی محلے اور ادارے شیشوں کی طرح صاف ستھرے نظر آئے اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی بہت اچھی تھی۔ دفتروں میں درخواست گزاروں کی کوئی قطار اس لیے نظر نہیں آتی کہ درخواست پر فوری کاروائی ہو جاتی ہے۔

سیاحوں کو جس مسلہ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ایران پر عالمی اقتصادی پابندیوں کے باعث غیر ملکی اے ٹی ایم اور کریڑٹ کارڈز کام نہیں کرتے لیکن وہاں پر بے شمار کاروباری پاکستانی ، زائرین اور طلباء ہیں جن کے ذریعے پیسے منگوانے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکل آتا ہے لیکن میری خوش نصیب تھی کہ خانہ فرہنگ ایران متعین اسلام آباد کا مجھے ہر طرح کا تعاون حاصل تھا۔ میرے پانچ دن تہران اور دو دن قم میں گزرے۔ قم میں ایک پاکستانی سکالر ڈاکٹر عباس ہاشمی صاحب نے مجھے بہت وقت دیا اور کم وقت میں متعدد کتب خانوں، لائبریریوں اور دیگر قومی اداروں کا دورہ کروایا ۔ چونکہ میں چار سال قبل بھی ایران گیا تھا اس لیے بیت خمینی کے دورے پر میں خود چلا گیا۔ بیت خمینی وہ مقام ہے جہاں ایک طویل عرصہ رہ کر امام خمینی نے تحریر و تقریر کے ذریعے انقلاب کی راہ ہموار کی اور لاکھوں انقلابی پیدا کیے جنہوں نے ایران کا نقشہ بدل ڈالا۔ اقتصادی پابندیوں کے اثرات تو ہیں لیکن مہنگائی اس لحاظ سے کم ہے اور خورد و نوش کی اشیاء صحت مندانہ اور کپڑے معیاری ہیں البتہ ترکی، پاکستان اور ایران کے ٹیکسی ڈرائیور ایک جیسے ہیں۔ سیاحوں سے جتنا ہو سکے بٹور لیتے ہیں جبکہ پاکستان کی ڈرائیو ان جیسی ٹیکسی سروس بھی دستیاب ہے جو بہت اچھی ہے۔

ایران جانے والے چھ ہفتے تک اپنا موبائل استعمال کر سکتے ہیں جس میں ایرانی سم اور انٹرنیٹ کے لیے وی پی این انسٹال کرنا پڑتا ہے۔ پاکستانی روپیہ بھی آسانی سے چل جاتا ہے۔ ناگزیر حالات کے علاؤہ غیر ملکی زبان نہیں بولی جاتی۔ ایران کا تعلیمی نظام اس کی اپنی فخریہ تہزیب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایران نصف صدی سے جن مشکلات کا شکار ہے اس کے پیش نظر یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ہر کوئی خوش ہے لیکن حکومت ایران خود مشکلات برداشت کر کے عوام کو خوش رکھنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہی خوبی اگر پاکستانی سیاستدانوں میں بھی پیدا ہو جائے تو یہاں کے عوام کی زندگی بہت بہتر ہو سکتی یے۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*