جناح کا پاکستان اور آج کا پاکستان : سید فرحان الحسن

جناح کا پاکستان اور آج کا پاکستان : سید فرحان الحسن

ملک پاکستان کے قیام کو 76 برس مکمل ہونے کو ہیں، اس دوران ہم نے دنیا کی کسی بھی دوسری قوم کی طرح کئی نشیب وفراز دیکھے، علم و فنون کے میدان میں بھی خاصی ترقی کی لیکن کچھ عرصہ قبل مجھے یہ بات جان کر حیرانگی ہوئی کہ پاکستان میں جہاں آپ بہت سے علوم وفنون میں پی ایچ ڈی کر سکتے ہیں وہاں ہم بحیثیت پاکستانی اپنے بابائے قوم کی شخصیت پر پی ایچ ڈی نہیں کر سکتے، یہ جان کر مزید حیران ہوا کہ بانی پاکستان کی واحد سوانح حیات "My Brother” ان کی ہمشیرہ اور مادر ملت فاطمہ جناح نے لکھی جس کی نشر و اشاعت پر پاکستان میں پابندی ہے۔
آج آزادی کے چھہتر برس بعد ہونے والے انکشافات پر میں زیادہ حیران نہیں ہوا۔ ہم آج ترقی کرتے ہوئے وہاں تک پہنچ چکے ہیں جہاں قائداعظم کے "کام، کام اور صرف کام” اور "ایمان، اتحاد اور تنظیم” ہمیں بے کار اور من گھڑت باتیں لگتی ہیں.
1943 میں کراچی میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا:
"مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا, ایک رسولؐ، ایک کتاب اور ایک امت”۔
12 جون 1947 کو ایم ایس ایف، جالندھر کے اجلاس سے خطاب:
"مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کے طرز حکومت کا فیصلہ کرنے والا؟ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے 13 سو سال پہلے قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمدللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور تا قیامت موجود رہے گا”۔
اب اگر ہم قائداعظم کے مندرجہ بالا فرمودات کو سامنے رکھیں تو بغیر کسی بحث کے ہمیں اپنا آپ مجرم نظر آئے گا، بلکہ ہم بحیثیت قوم آج جس نہج پر پہنچ گئے ہیں خاکم بدہن لیکن ہمیں تو بابائے قوم اور دیگر بانیان پاکستان مجرم نظر آتے ہیں، ہمیں تو اپنے آباء مجرم نظر آتے ہیں۔۔۔ ہمیں اس پاکستان نے کیا دیا؟؟ یہ سوال آج ہر دوسرے پاکستانی کی زبان پر ہے لیکن کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں جو پاکستان ہر ایک پاکستانی سے پوچھ رہا ہے۔۔۔ تم نے مجھے کیا دیا؟؟ انتہا پسندی؟ میں نے تو تمہیں برداشت اور بھائی چارہ کا درس دیا تھا، بے ایمانی؟؟ تمہارے قائداعظم تو تمہیں ایمان کا درس دیتے رہے۔۔۔ جھوٹ؟؟ محمد علی جناح نے تو زندگی میں وکالت کے پیشے سے منسلک رہنے کے باوجود کبھی جھوٹا مقدمہ نہیں لڑا۔۔۔ اب سمجھ میں آیا کہ ہم کیوں اپنے بچوں کو قائد اعظم کی ذات پر پی ایچ ڈی نہیں کرنے دیتے۔۔۔ کیوں قائداعظم کی واحد مستند سوانح حیات "My Brother” کی نشر واشاعت پر پاکستان میں پابندی ہے۔۔۔ کیونکہ ہم قائداعظم سے محبت بھی محض اس لئے جتاتے ہیں کہ ان کی تصویر کرنسی نوٹ پر ہے اور پیسہ ہمارے لیے مقدس ہے۔۔۔ ہم قائداعظم کے اصولوں سے دور جا چکے ہیں شاید اسی لئے ہم آج تک یہ طے نہ کر پائے کہ ہم کون ہیں؟ پاکستانی قوم آج بھی زبان، رنگ اور نسل کی بنیادوں پر اپنے آپ کو ایک قوم نہیں سمجھتی۔۔۔۔ شاید رہنما کا بتایا ہوا رستہ ہمارے کسی کام کا نہیں کہ ہماری منزل کوئی اور ہے۔۔۔ یا شاید ہماری کوئی منزل ہی نہیں کہ جو مسافر اپنے رہنما ورہبر کو دھوکہ دیتا ہے منزل اس کا مقدر نہیں بنتی۔۔۔ پاکستان کا چھہتر واں یوم آزادی بس کچھ ہی دن دور ہے اور اس یوم آزادی کے موقع پر دعا ہے کہ ہم واقعی قائداعظم کو بابائے قوم تسلیم کر لیں اور خود کو ایک آزاد قوم تسلیم کر لیں، آمین

تعارف: سید فرحان الحسن

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*