مئیر آف بولٹن راجہ محمد ایوب کی آبائی گھر کھوئی رٹہ آمد پر خوش امدید : قیوم راجہ

چند ہفتے قبل مئیر آف بولٹن منتخب ہونے والے راجہ محمد ایوب سعودی عرب میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد آج ہمراہ اپنے فرزند کونسلر ندیم اور بھانجے کونسلر حامد عملی خرم ایڈووکیٹ اپنے آبائی شہر کھوئی رٹہ پہنچ رہے ہیں۔ میری زندگی کی پہلی ترجیع تحریک آزادی کشمیر ہے جس کے سلسلے میں آج کسی سفارتی سفر پر ہونے کی وجہ سے استقبال میں شامل نہ ہو سکا۔

کم گو راجہ محمد ایوب کی برطانیہ میں سیاسی زندگی کا آغاز ہماری رہائی کے لیے قائم فراق مہم میں شرکت کے آغاز سے ہوا۔ وہ فہم و فراست کے مالک ایک مستقل مزاج نوجوان تھے۔ میری شدید خوائش تھی کہ ان جیسے نوجوان پاکستان اور آزاد کشمیر کی غیر صحت مندانہ سیاست امپورٹ کرنے کے بجائے برطانیہ کی مقامی سیاست میں حصہ لے کر برطانوی کشمیری کمیونٹی کو متحد کر کے تحریک آزادی کے لیے سفارتی جد و جہد کریں۔ پھر وہ لیبر پارٹی میں متحرک ہوئے اور جلد ہی برطانیہ کے جمہوری طور پر پاسخگو Responsive معاشرے میں لیبر پارٹی نے انہیں ٹکٹ دیا اور وہ کونسلر منتخب ہو گے۔ تیسری یا چوتھی بار مسلسل کونسلر منتخب ہونے کے بعد وہ اس سال مئیر منتخب ہو گے۔ ایسا ہونا ہی تھا کہ غیر ریاستی سیاست نے انہیں اپنے حصار میں لے کر اس راستے سے ہی ہٹا دیا جس کا خواب ہم نے دیکھا تھا۔ سابق لارڈ نزیر احمد صاحب کو بھی برطانیہ میں کشمیریوں نے پروموٹ کیا ۔ وہ کونسلر سے لارڈ بنے۔ پھر کسی نے انہیں جاٹ بنا دیا اور کسی نے ن لیگی اور پی پی پی کا حامی مگر کشمیریوں کے لیے انکا سب سے دکھ بھرا وہ بیان تھا جس میں انہوں نے کہا کہ "اگر کشمیر خودمختار ہو گیا تو میں دو کمروں کا مکان لے کر راولپنڈی رہ لوں گا!” پاکستانی اور انتخابی کشمیری پارٹیوں کی سیاست نے انہیں اتنا خراب کیا کہ ایک موقع پر عمران خان کی حکومت نے انہیں اسلام آباد ائر پورٹ پر روک لیا۔ داخلہ سے انکار پر ایک دوست نے مجھ سے رابطہ کیا تو میں نے کہا لارڈ نزیر صاحب کو پیغام دیں کہ وہ پاکستانی حکام کو کہیں کہ وہ کشمیری درجہ اول ہیں۔ بحث مباحثے کے بعد انہیں پاکستان میں داخلہ ملا۔ پھر سیاسی وجوہات کی بنا پر ہی برطانیہ میں ان کے خلاف ایک اور سازش تیار ہوئی جس نے انہیں برطانوی جیل پہنچا دیا۔ اس کا ہم سب کو دکھ اور افسوس ہے۔ کشمیریوں کو دکھ دینے کے باوجود شاید آج بھی ان کے لیے اتنا کوئی اور نہیں سوچتا ہو گا جتنا ہم کشمیری سوچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انکی مشکلات آسان فرمائے۔
ہم راجہ محمد ایوب صاحب کے لیے بھی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں اور انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی بنیاد کو یاد رکھیں۔ حلف برداری کی تقریب میں اسلام اور کشمیر کو پروموٹ کرنے کا جو انہوں نے بیان دیا وہ لائق تحسین ہے لیکن اس کے لیے امپورٹڈ سیاست سے نجات حاصل کرنی ہو گی جو جوڑتی نہیں توڑتی ہے۔ اسی امپورٹڈ سیاست کی وجہ سے برطانیہ میں پاکستانیوں اور کشمیریوں کی سیاسی نمائندگی کا تناسب کم ہے۔ برطانیہ میں راجہ محمد ایوب کو انگریزوں کے علاؤہ مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے لوگوں نے ووٹ دیے ۔ اس لیے ان کے استقبال کو فیملی یا ایک مخصوص پارٹی کی طرف سے استقبال کے بجائے ایک غیر جماعتی کمیٹی بنا کر وادی بناہ کی طرف سے استقبال ہونا چائیے تھا لیکن ہماری باتیں قبل از وقت ہیں کہ جس قومی سوچ کی ہم بات کرتے ہیں اسے پروان چڑھنے میں ابھی وقت لگے گا۔ یعنی ابھی دلی دور است۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*