اٹھارہ ذوالحج/غدیر خم کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد

اٹھارہ ذوالحج، غَدیرِ خُم کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کا انعقاد صاحبزادہ سید ضیغم عباس چیئرمین علماء و مشائخ کونسل پاکستان کی جانب سے کیا گیا۔ جس میں مختلف مکتبہ فکر کے علماء و مشائخ نے شرکت کر کے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا۔ تقریب میں شرکت کرنے والوں میں پروفیسر ڈاکٹر علی ظہیر منہاس، پیر علی رضا فضل شاہ، پیر مقدس کاظمی، حافظ کاظم رضا نقوی، علامہ مشتاق جعفری، مفتی عاشق حسین، پیر بلال فامق اور دیگر علماء و مشائخ شامل تھے۔ تمام معزز مہمانوں نے اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اپنی محبت و عقیدت کا والہانہ اظہار کیا۔
اس موقع پر صاحبزادہ سید ضیغم عباس نے کہا کہ اٹھارہ ذوالحج، دس ہجری کو حجتہ الوداع کے موقع پر سینکڑوں صحابہ کی موجودگی میں اللہ کے آخری نبی نے اللہ کے حکم سے کہ اے میرے رسول وہ پیغام پہنچا دے جو تجھ تک پہنچ چکا ہے اور اگر ایسا نہ کیا تو گویا ایسے ہی ہے کہ جیسے تو نے رسالت کا کوئی کام ہی نہ کیا، توجہ طلب بات یہ ہے کہ نماز، روزہ، حج، زکات جیسے سب امور کا تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتا دیا تھا، اب آخر یہ کون سا عمل تھا کہ جو اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ سرانجام دیتے تو اللہ کی نظر میں اب تک جو تکالیف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اٹھائیں اور جو تبلیغ کی وہ سب بے سود تھیں۔
جیسے ہی آیت نازل ہوئی، نبی ﷺنے پلانوں کا ممبر بنایا اور علی کا ہاتھ بلند کر کے فرمایا:
”من کنت مولافہازا علی مولا“
اب رسول کے اس فرمان کی روشنی میں جس حیثیت میں نبی حاکم ہیں، نبی منصف ہیں، نبی منبع رشد و ہدایت ہیں، اسی حیثیت کے حاکم بعد از نبی علی ابن ابی طالب ہیں.
روایات میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اعلان فرما دیا تو آیت نازل ہوئی کہ آج کے دن دین مکمل ہو گیا اور تم پر نعمتیں تمام ہو گئیں، یعنی جب تک دین اسلام میں خدا کی وحدانیت، رسول کی رسالت اور علی کی ولایت یکجا نہ تھیں، خالق کی نظر میں دین اسلام مکمل نہ تھا کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن کی رو سے آدم کو فرشتوں پر فضیلت علم کی وجہ سے دی اور اپنا خلیفہ منتخب کیا اور طالوت کو بھی علم اور جسمانی فوقیت کی بنا پر فضیلت دی تھی۔
علی کو نبی نے کہا کہ میں علم کا شہر اور علی اس کا دروازہ ہیں اور بدر و احد اور خندق و خیبر جس کی شجاعت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبی کا جانشین کہلانے کا مستحق غدیر خم کا دولھا ابوطالب کا لال ہی ہے۔
اس موقع پر انہوں نے ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتاب (‘السیف الجلی علیٰ منکرِ ولایتِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ’ اعلانِ غدیر) سے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سائل حضرت علی علیہ السلام کے پاس آکر کھڑا ہوا۔ آپ نماز میں حالتِ رکوع میں تھے۔ اُس نے آپ علیہ السلام کی انگوٹھی کھینچی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انگوٹھی سائل کو عطا فرما دی۔ حضرت علی، رسول اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ کو اُس کی خبر دی۔ اس موقع پر آپ پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: بے شک تمہارا (مددگار) دوست اللہ اور اُس کا رسول ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے جھکنے والے ہیں۔
آپ ﷺ نے اس آیت کو پڑھا اور فرمایا: ”جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔“
تقریب کے اختتام سے قبل حال ہی میں سویڈن میں پیش آنے والے قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات پر شدید مذمت کرتے ہوئے تمام علماء و مشائخ نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور اسلامی تنظیموں اور حکومتوں سے سخت اقدامات لینے کا مطالبہ کیا۔

تعارف: نوید اسلم ملک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*