کب تماشہ ختم ہو گا۔۔۔۔! سید فرحان الحسن

اللہ اللہ کرکے سپریم کورٹ Review of Judgments & Orders Bill 2023 کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی توثیق کے بعد باقاعدہ قانون کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل دائر نہیں کی جا سکتی تھی، لیکن اب اس قانون کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف آرٹیکل 184 کے تحت اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔
اس قانون کے پاس ہوتے ہی News Channels اور سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ شاید یہ قانون نواز شریف، جہانگیر ترین اور ان سیاست دانوں کی پارلیمانی سیاست میں واپسی کی راہیں ہموار کرے گا جو سپریم کورٹ کے فیصلوں کے نتیجے میں نا اہل ہو چکے ہیں اور عملی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے، عین ممکن ہے کہ حقیقت یہ ہی ہو لیکن کیا اس قانون کا فائدہ صرف نواز شریف اور جہانگیر ترین کو ہی ہوگا یا پھر کوئی اور بھی اس قانون کے پاس ہونے پر اتنا ہی خوش ہے جتنا خوش موجودہ نا اہل سیاست دان ہیں؟
اگر ہم گزشتہ چند روز کی کارروائیوں پر نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ کچھ ایسا بھی ہے جس کو ابھی نہ ہی سیاست دان موضوع گفتگو بنا رہے ہیں اور نہ ہی صحافی حضرات۔ مذکورہ قانون کی تشکیل کے بعد پارلیمان نے جب قانون کو حتمی منظوری کے لیئے صدر مملکت کے پاس بھجوایا گیا تو انہوں نے مسودہ پر چند اعتراضات اٹھا کر پارلیمان کو واپس بھجوا دیا، اسی دوران عدالت عظمی نے بھی اس قانون کو اپنے خلاف استعمال ہونے والا ہتھیار جان کر اس کو آڑھے ہاتھوں لیا۔ پھر چند ہی دنوں بعد جب پارلیمان نے مذکورہ قانون کا مسودہ صدر مملکت کے پاس بھجوایا تو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی صاحب نے غیر یقینی طور پر فوری طور پر اس مسودہ پر اپنے دستخط کر دیئے اور یہ اس قانون کو قانونی تحفظ حاصل ہو گیا، ساتھ ہی اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تو وہ اپیل بھی مسترد کر دی گئی۔
9 مئی کے بعد حالات نے ایک ایسا موڑ لیا جس کے بارے میں کوئی اس سے پہلے سوچ بھی نہیں سکتا تھا، ایک سال تک مستعفی وزیراعظم عمران خان صاحب فرنٹ فٹ پر کھیلتے رہے اور ان کے سامنے سب بے بس نظر آ رہے تھے، وہ جب چاہتے عدلیہ کو کھری کھری سنا دیتے اور جب چاہتے اپنی توپوں کا رخ اپنی ہی فوج کی جانب کر دیتے، افسروں کے نام لے کر ان پر الزامات لگاتے (ایک نہایت حساس ادارے کے اعلی ترین فوجی افسر پر تو انہوں نے اپنے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام بھی عائد کیا اور اس پر آج تک قائم ہیں)، لیکن 9 مئی 2023 کو عمران خان صاحب کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطہ سے گرفتاری کے بعد حالات کشیدہ ہوئے اور تحریک انصاف کی صف اول کی قیادت کو بھی وہ سب دیکھنا پڑا جو ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین ماضی میں دیکھ چکے تھے۔ گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں، وفاداریاں تبدیل ہوئیں، کچھ مضبوط اعصاب کے لوگ اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں جبکہ کچھ گرفتاری کے خوف سے ابھی بھی دیوار کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں۔ ان واقعات کے بعد فوج نے چپ کا روزہ توڑا اور واضح الفاظ میں بتایا کہ 9 مئی 2023 کے واقعات کے ذمہ داران کے خلاف فوجی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی اور مجرمان کو ہر صورت نشان عبرت بنایا جائے گا۔ اب عمران خان صاحب کو حالات کی نزاکت کا احساس ہوا اور نا اہلی کی تلوار اپنی گردن پر بھی محسوس ہونے لگی، عمران خان صاحب نے تو اپنی گرفتاری کی صورت میں پارٹی معاملات شاہ محمود قریشی صاحب کے حوالے کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ اسی دوران جب Supreme Court Review of Judgments & Orders Bill 2023 جب عارف علوی صاحب کے پاس پہنچا تو انہوں نے معاملہ کی نزاکت اور سنگینی کو بھانپتے ہوئے فوری طور پر مذکورہ قانون کو پاس کر دیا تاکہ مستقبل میں عمران خان صاحب کی نا اہلی کی صورت میں اس قانون کی مدد حاصل کی جا سکے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگلے چند ماہ میں کچھ ایسی تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے والی ہیں جن کے بعد بہت کچھ تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال صاحب کے ہوتے ہوئے کوئی عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کا بال بھی بیکا نہ کر سکے لیکن چند ماہ بعد ہی چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے بارے میں عمران خان صاحب اور پاکستان تحریک انصاف کا نہ صرف گمان بلکہ یقین ہے کہ وہ ان کا سر ہی صاف کر دیں گے، کیونکہ اپنے دور حکومت میں جو کچھ عمران خان صاحب اور ان کی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے خاندان کے ساتھ کیا وہ اتنی آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا، اور پھر عمران خان صاحب نے خود بھی ایک انٹرویو میں کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنا ان کی ایک غلطی تھی، لیکن عمران خان صاحب کے ٹائیگرز آج بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو گناہگار مانتے ہیں اور عمران خان صاحب کے اعتراف جرم کو ان کا حسن ظن گردانتے ہیں ۔
خیر SC Review of Judgments & Orders Act 2023 ایک نہایت احسن اقدام بھی ثابت ہو سکتا ہے اور اس کے ذریعے مستقبل میں بہت سے ایسے بے گناہوں کو انصاف مل سکتا ہے جن کے کیسز میں انصاف کے تقاضے پورے نہ ہو سکے، لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ آنے والے چند ماہ میں جب یہ تماشہ ختم ہوگا تو ہمیں سمجھ آئے گا کہ کہانی آپ اُلجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے اور شاید۔۔۔۔۔۔۔
تماشہ کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشہ ختم ہوگا ۔

تعارف: سید فرحان الحسن

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*