ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پزیر ممالک کے رہن سہن میں زمین آسمان کا فرق ہے، کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں اب ناپید ہو چکی ہیں لیکن ترقی پزیر ممالک میں ان کے بغیر زندگی آج بھی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے، ان میں سے ایک لوٹا بھی ہے!
لوٹے پاکستان میں کثرت سے پائے جاتے ہیں، ان کے بغیر زندگی ادھوری نظر آتی ہے بلکہ یوں کہیں کہ زندگی میں اگر لوٹا نہ ہو تو زندگی موت سے بھی بدتر نظر آتی ہے، لوٹے کی قدر وقیمت کا اندازہ وہی جان سکتا ہے جس کو بوقت ضرورت لوٹا میسر نہ ہو۔ لوٹے کی ایک خاص بات یہ بھی کہ اگر لوٹا وقت پر میسر نہ آئے تو پھر بعد بالٹی بھر پانی بھی مل جائے تو ایک خلش، ایک کسک سی باقی رہ جاتی ہے اور بعض اوقات انسان زندگی بھر اس ایک لمحہ کو یاد کرتا رہتا ہے جب اس کو شدید خواہش کے باوجود لوٹا میسر نہ تھا۔
لوٹا اگر وقت پر میسر آجائے تو پھر زندگی میں سکون ہی سکون ہوتا ہے، صبح صبح اگر آپ سب سے پہلے لوٹے کو دیکھ لیں تو سارا دن راوی چین ہی چین لکھتا ہے، بصورت دیگر انسان کو دنیا بھر کی دولت بھی مل جائے تو وہ چین سے نہیں بیٹھتا۔ اسٹیل یا پیتل کے لوٹے کی ضرورت عموماً کھانے سے پہلے پیش آتی ہے جبکہ لوٹا اگر پلاسٹک کا ہو تو کھانے کے بعد بھی اس کی قدر و قیمت بے مثال ہوتی ہے۔ لوٹا زمین پر بیٹھے ہوئے ایک انسان کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ باعزت طریقے سے کرسی پر بیٹھ سکے۔
اگر بات سیاست کی کی جائے تو کسی بھی سطح پر حکومت سازی کے لیئے بھی سب سے زیادہ اہمیت کے حامل لوٹے ہی ہوتے ہیں، کرسی چاہے گھر کی ہو، دفتر کی یا دکان کی ہو، یا پھر اقتدار کی اس کرسی پر بیٹھنے سے پہلے لوٹے کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔
لوٹے کی بنیاد چونکہ اتنی مضبوط نہیں ہوتی اس لیئے اگر لوٹے پر کسی بھی جانب سے دباؤ ڈالا جائے تو وہ اس جانب لڑھک جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی عزت اس کے لباس سے ہوتی ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زندگی میں سب سے اہم چیز روٹی ہے، کچھ منچلے لباس کو عزت کا علم گردانتے ہیں جبکہ میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر انسان کے پاس لوٹا نہ ہو تو وہ نہ ہی روٹی سکون سے کھا سکتا ہے اور نہ ہی نفیس لباس زیب تن کر سکتا ہے۔
ترقی پزیر ممالک کی سیاست میں بھی لوٹوں کی قدر وقیمت وہی ہے جو عام زندگی میں ہے، لوٹا اگر مہنگا اور نایاب ہو تو انتخابات سے پہلے کام میں لایا جاتا ہے اور اگر سستا اور عام بھی ہو تو انتخابات کے بعد اس کی قدر وقیمت بسا اوقات مہنگے لوٹے سے بھی بڑھ جاتی ہے۔
چاہے آپ نے محلے کا کونسلر بننا ہو یا اسپیکر قومی اسمبلی ، چیئرمین سینیٹ بننا ہو یا پھر وزیراعظم آپ لوٹے استعمال کیئے بغیر اپنے خوابوں کو حقیقت کا لباس نہیں پہنا سکتے۔ باتھ روم میں موجود لوٹا اگرچہ ٹوٹا ہی کیوں نہ ہو اس کو استعمال کرنا مجبوری ہے، سیاست میں بھی لوٹے کی قدر وقیمت عموماً ایک ہی رہتی ہے چاہے وہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو۔
یہ لوٹے عموماً اہل اقتدار جماعتوں کے پاس کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں، کیونکہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ اگر لوٹا نہ ہو تو انسان سکون سے کھا بھی نہیں سکتا اور پاکستان میں چونکہ اقتدار میں آنے والی جماعت کھانا اپنا حق سمجھتی ہے اس لیئے وہ لوٹے بھی اپنے ساتھ کثیر تعداد میں رکھتی ہے، سیاسی لوٹوں کی کوئی اپنی سیاسی جماعت نہیں ہوتی، اس لیئے یہ اس شعر کے مصداق نظر آتے ہیں کہ:
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے
مثال کے طور پر مشرف دور کے لوٹے کچھ دن بعد زرداری صاحب کے ہاتھ میں نظر آئے۔ پھر اس کے بعد نواز شریف صاحب نے بھی لوٹوں کو آنکھ کا تارہ بنا کر رکھا, پھر یہی لوٹے مختلف وزارتوں اور عہدوں کا مزہ چکھنے کے بعد عمران خان کے ساتھ نظر آئے ، خان صاحب کی حکومت کے خاتمے کے بعد اب یہ لوٹے اپنی اگلی منزل کی تلاش میں نکل چکے ہیں، اور سیاست میں جتنا گند ہو چکا ہے اس کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مستقبل قریب میں لوٹوں کی اہمیت میں کوئی کمی نظر آئے گی بلکہ ان کا مستقبل ماضی سے زیادہ تابناک ہے۔
اب اس دن کا انتظار ہے جب الیکشن کے قریب تمام سابقہ حکومتوں کے قائدین اس طرح شاعری کر رہے ہوں گے کہ:
چند روز اس کا لوٹا میرے ہاتھ میں رہا
چند روز کائنات میرے ہاتھ میں رہی!
جبکہ آنے والی حکومت کچھ اس طرح ان لوٹوں کو خراج عقیدت پیش کرے گی کہ:
ہمیں اور حکومت کی چاہت نہ ہوتی
اگر تم نہ ہوتے، اگر تم نہ ہوتے
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ جلد پاکستان کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہونے لگے نیز ہم اور ہمارے لیڈر لوٹوں کے بغیر جینا سیکھ جائیں، آمین