گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کی سیاست میں بہت تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں، ملکی سیاست میں خاص طور پر عمران خان صاحب، چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور تحریک انصاف کے لیڈران کو وہ مقبولیت ملی جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹرز میں اکثریت نوجوان کالج اور یونیورسٹی کے طلباء کی دیکھنے کو ملی، یہ سچ ہے کہ ہماری آج کی نوجوان نسل فرسودہ نظام سیاست سے تنگ آ چکی ہے اور تبدیلی چاہتی ہے۔۔۔۔ لیکن کہانی کا ایک دوسرا رخ بھی ہے!
2018 کے عام انتخابات سے کچھ عرصہ قبل پاکستان کے طول و عرض میں ان گنت نوجوان کی تنظیمیں وجود میں آئیں (ان میں سے کچھ پہلے سے بھی کام کر رہی تھیں لیکن اس کچھ عرصہ میں کام کا انداز کچھ نیا نظر آنے لگا) ان تنظیموں نے بظاہر پاکستان کے مثبت پہلو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کے لیئے کام کیا اور سوشل میڈیا پر نوجوانوں کو engage کیا مختلف معاشرتی موضوعات پر فیس بک اور ٹوئٹر پر ہیش ٹیگز اور سوشل میڈیا ایکٹیویٹیز کا آغاز کیا گیا، پھر آہستہ آہستہ سوشل میڈیا سے آگے بڑھ کر پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیئے کام شروع کیا گیا ، ففتھ جنریشن وارفیئر اور اس کے اثرات سے نوجوانوں کو روشناس کروایا گیا ، کشمیر میں بھارتی ظلم و جبر کے خلاف پاکستان کے طول و عرض میں تقریباً ہر تنظیم کی جانب سے مختلف ایونٹس منعقد کیئے گئے، اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم کی دل کھول کر مذمت کی گئی.
مذکورہ ایکٹیویٹیز اور ایونٹس میں نوجوانوں کی اکثریت نے بھرپور حصہ لیا۔۔۔۔۔ لیکن اس دوران ایک بات پر کسی نے دھیان نہ دیا کہ ان تمام ایونٹس میں (خواہ وہ کسی بھی تنظیم کی جانب سے منعقد کیئے جائیں اور کسی بھی موضوع پر منعقد کیئے جائیں) مہمان مقررین یا تو صرف پاکستان تحریک انصاف کے کچھ خاص لیڈر ہوا کرتے تھے یا پھر ان میں اکثریت ان کی ہوا کرتی تھی ۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ محض اتفاق بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔ لیکن اتفاق نہیں بھی ہو سکتا. 2018 کے اوائل تک ان ایونٹس اور ایکٹیویٹیز میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا اور 2018 کے عام انتخابات کے بعد تو ان کو تقریباً حکومتی سرپرستی حاصل تھی (میرے پاس کوئی ثبوت نہیں لیکن Circumstantial Evidence ہیں) ایونٹ خواہ کسی بھی موضوع پر ہو اور کسی بھی تنظیم کی جانب سے منعقد کیا جا رہا ہو اس ایونٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے کچھ خاص لیڈر بحیثیت چیف گیسٹ یا گیسٹ سپیکر ضرور شرکت کیا کرتے.
یہ مقررین بظاہر سیاست سے بالاتر ہو کر نوجوانوں کی تعمیر و ترقی پر بات کرتے یا پھر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بات کیا کرتے، ان مقررین میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی و صوبائی وزراء علی محمد خان، شہریار خان آفریدی، سیمابیہ طاہر اور فرخ دال (سابق اسسٹنٹ اٹارنی جنرل اور چیئرمین Read Pakistan) شامل ہیں ۔۔۔۔۔ نتیجتا نوجوانوں کی ایک بہت بڑی، غیر یقینی طور پر بہت بڑی تعداد لاشعوری طور پر پاکستان تحریک انصاف ، اس کے لیڈران اور ultimately عمران خان کے عشق میں مبتلا ہو گئی۔۔۔۔ اور کہا جاتا ہے عشق اندھا ہوتا ہے، نوجوان نسل کے دلوں میں یہ نیا عشق جگانے والے جانتے تھے کہ وہ مستقبل میں اس ہی عشق کی ڈوری سے کھینچ کر اس نوجوان نسل کو جہاں لے جانا چاہیں گے لے جائیں گے۔
2018 کے عام انتخابات کے بعد جب تحریک انصاف کی حکومت کو اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ اب پاکستان کی نوجوان نسل اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان صاحب، تحریک انصاف اور اس کے دیگر لیڈران سے عشق میں مبتلا ہو چکی ہے تو پاکستان کے چند سرکاری اداروں حتی کہ President House میں ان تمام تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مختلف عہدیداران کو بلا کر مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔۔۔۔ اسی دور میں تحریک انصاف نے موقع کو غنیمت جان کر آئندہ عام انتخابات میں EVMs کی فرمائش بھی کر ڈالی، اسی دوران ان تنظیموں میں سے چند نوجوانوں کو سرکاری نوکریاں بھی فراہم کی گئیں جن کا کام بظاہر حکومت پاکستان کے سوشل میڈیا ایڈوائزر کا تھا لیکن وہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ایڈوائزر کے طور پرکام کر رہے تھے جو سب کو نظر بھی آ رہا تھا۔۔۔ پھر 2021 کے نصف میں مذکورہ ایکٹیویٹیز اور ایونٹس میں خاطر خواہ کمی دیکھنے کو ملی لیکن وہ نوجوان جو گزشتہ چند سالوں میں پاکستان اور اس کے پرچم کے عشق میں مبتلا ہو چکے تھے (در حقیقت وہ عمران خان صاحب اور پاکستان تحریک انصاف کے عشق میں مبتلا ہو چکے تھے) ان کا جنون کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا، اسی لیئے سابق وزیر اعظم اپنی وزارت عظمیٰ کے آخری چند ماہ میں کچھ نامعلوم لوگوں کو ایک نامعلوم واقعہ سے ڈراتے ہوئے بھی نظر آئے۔۔۔۔ پھر جب 2022 میں اوائل میں عمران خان صاحب کی حکومت اختتام پزیر ہوئی تو پاکستان کی تاریخ کے بڑے احتجاج دیکھنے کو ملے جن میں بظاہر تحریک انصاف کا کوئی مرکزی رہنما بھی نہ ہوتا لیکن نوجوان سیلاب کی مانند ملک کے ہر شہر میں جیسے امڈ آئے ہوں ۔۔۔۔ اب وقت آ چکا تھا سرمایہ کاری پر منافع حاصل کرنے کا، لیکن شاید عمران خان صاحب اور ان کے رفقاء نے اس منافع کے بارے میں سوچا بھی نہ ہو جو سیاسی منافع ان کو حاصل ہو رہا تھا، نئی حکومت اور ریاستی ادارے عمران خان صاحب کے سامنے بے بس نظر آ رہے تھے، جبکہ عمران خان صاحب کی مقبولیت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے کو مل رہا تھا۔۔۔ وقت گزرتا گیا اور تقریبا ایک سال بعد جب عمران خان صاحب کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطہ سے گرفتار کیا گیا تو پاکستان کی تاریخ کا سب سے شدید اور خوفناک احتجاج دیکھنے کو ملا، فوج کی وہ گاڑیاں جن کے سڑک پر آنے پر سردار راستہ چھوڑ کر گاڑی سے نیچے اتر کر سلیوٹ مارا کرتے تھے ان پر اس ہی نوجوان نسل نے پتھر برسائے جو چند ماہ پہلے تک فوج کے عشق میں مبتلا تھی، جن لوگوں کا تعلق راولپنڈی اسلام آباد سے ہے وہ جانتے ہیں کہ GHQ کے دروازے کو جھنجوڑنا یا اندر داخل ہونا تو درکنار اس کے پاس سے آپ دو مرتبہ گزر جائیں تو آپ سے تفتیش شروع ہو جاتی ہے وہاں پر کیا کچھ نہیں ہوا ، فوج کی وردی میں ملبوس سپاہیوں کو باقاعدہ دھمکیاں دی گئیں اور ان پر حملے بھی کیئے گئے، کور کمانڈر لاہور کے سرکاری گھر پر حملہ کیا گیا۔۔۔۔ لیکن یہ وہ موڑ تھا جہاں سے کہانی نے ایک نیا موڑ لیا اور عمران خان صاحب سمیت پاکستان تحریک انصاف کی لیڈرشپ کو اس بات کا اندازہ بھی ہو گیا کہ حالات اب ان کے قابو میں بھی نہیں رہے لیکن مرتے کیا نہ کرتے اپنے ریاست مخالف بیانیہ پر بظاہر قائم رہے اور ساتھ ہی ساتھ اس ہی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بھی آگئے جس کو وہ چند دن پہلے تک حکومت تسلیم نہیں کرتے تھے۔
لیکن اس سب میں عمران خان صاحب یہ بھول چکے تھے کہ ریاست کے ساتھ ٹکراؤ کی سیاست اتنی آسان نہیں اور نہ ہی کسی طور جائز ہے، اب تک عمران خان صاحب کی تند و تیز گفتگو کے جواب میں ریاستی ادارے جو تقریباً خاموش تھے انہوں نے صبر کا دامن چھوڑا اور اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ سب کے سامنے ہے ، ایک سال قبل اپنی حکومت کے خاتمے میں "امریکی سازش” کا رونا رونے والے عمران خان صاحب اب امریکی سرکاری عہدیداران کو پاکستانی اداروں اور حکومت کی شکایتیں لگا رہے ہیں اور زلمے خلیل زاد، افغان نژاد امریکی سرکاری عہدیدار باقاعدہ عمران خان صاحب کی وکالت کرتے نظر آ رہے ہیں۔۔۔۔ لیکن عاشق عمران خان صاحب کے عشق میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ وہ اس سب کو دیکھ کر بھی "میں نہ مانوں” کی رٹ لگائے ہوئے ہیں، لیکن گزشتہ چند دنوں کے واقعات کا ایک فائدہ بھی ہوا ہے اور وہ یہ کہ سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی گزشتہ ایک دہائی سے جاری تھا اس کا زور کچھ بلکہ بہت کم ہو گیا ہے، اور وہ لوگ جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ Untouchables ہیں ان کو نہ صرف touch کیا گیا بلکہ اچھا خاصہ جھنجھوڑا گیا تو ان میں سے اکثریت ہوش میں آ گئی۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ ہمارے اداروں میں موجود چند افسران، عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کی لیڈرشپ یہ سب کرنا نہیں چاہتی تھی جو ہو گیا۔۔۔ وہ تو بس اگلے عام انتخابات میں اپنی فتح کے لیئے لاؤ لشکر جمع کر رہے تھے۔۔۔ لیکن اچانک اقتدار کے جانے پر بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر انہوں نے نہ صرف اپنے مستقبل کو تاریک کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے مستقبل کو تاریک کر دیا۔ اب جو نوجوان سرکاری تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہیں اور سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے تھے ان کے مستقبل پر اتنا بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے جو کسی بھی جواب سے مٹ نہیں سکتا۔۔۔۔ اور چند ماہ قبل حقیقی آزادی کے نعرے لگانے والے نوجوان چند ماہ بعد جانیں گے کہ جس سانحہ میں ان کا مستقبل تاریک ہوا وہ حقیقی آزادی کی جد وجہد کے نتیجے میں نہیں رونما ہوا بلکہ ایک "غیر حقیقی آزادی” کا دھوکہ تھا جس کی چھری ان کی شہ رگ پر رکھ کر چلائی گئی اور جس کا خون کئی برس/عشروں تک بہتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین