تحریر قیوم راجہ
چند دن قبل میں میرپور میں پبلک ڈپلومیسی کے دفتر کے سلسلے میں مصروف تھا کہ اپنے آبائی گائوں کھجورلہ کے ایک ادمی نے فون پر بتایا کہ کوٹلی یونیورسٹی میں زیر تعلیم آصف چکی والے کی بیٹی نے گولڈ میڈل حاصل کر لیا۔ آصف بٹ چکی والا میرے پڑوسی گائوں ٹھل کا باسی ہے۔ دنیا کی نظر میں آصف بٹ غریب ہے جو گائوں میں آٹے کی چکی پر کام کر کے بچوں کی کفالت کرتا ہے لیکن میرے نزدیک آصف بٹ اس لیے بہت امیر انسان ہے کہ اس کی معمولی سی کمائی سے اس کی اولاد زیور تعلیم سے آراستہ ہو چکی ہے۔ پہلے انکے بیٹے حافظ جواد نے میٹرک میں سلور میڈل اور ایف اے میں میرپور بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کی جبکہ بڑی بیٹی عاصمہ بٹ اب ڈبل ایم اے کر رہی ہیں لیکن چھوٹی بیٹی اقرا نورین نے کوٹلی یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کر کے والدین کاسر فخر سے بلند کر دیا۔
انسان کو معاشرے کے ہر بچے اور بچی کی حوصلہ افزائی کرنی چائیے جبکہ آصف بٹ تو ہے ہی ہمارے پڑوسی گائوں کا ایک محنتی اور خود دار شخص جو شان سے ایک معمولی مکان میں جیتا ہے۔ اس مادہ پرست معاشرے میں اکثر لوگ کاروں بنگلوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے حرام کمائی کا سہارا لیتے ہیں جبکہ آصف بٹ نے آٹے کی چکی پر کام کر کے بچوں کی ایسی تربیت کی کہ وہ تعلیمی میدان میں سب کو مات دے گے۔ میں نے میرپور میں دوست سے عہد کیا تھا کہ جب گھر چلوں گا تو آصف کے گھر جا کر انہیں اور ان کی بیٹی کو مبارک باد دوں گا۔ میں کبھی آصف بٹ کے گھر نہیں گیا تھا۔ بس اتنا معلوم تھا کہ وہ میرے نھنیال ٹھل کے جنگل کے قریب رہتا ہے مگر آج جب اس کے گھر کی طرف جانے والی سڑک پر ایک دوکان کے قریب گاڑی کھڑی کر کے پوچھا کہ آصف بٹ کا گھر کونسا ہے تو اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ پہاڑی کے دامن میں یے۔ سڑک سے دور اونچائی پر مکان دیکھ کر ایک لمحہ کے لیے مجھے اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میرا دل کئی سالوں سے تین سٹنٹس پر چلتا ہے۔ سفر اور اونچائی دیکھ کر پہلے گھبراہٹ محسوس ہوئی مگر پھر عزم نے آواز دی کہ ہمت کرو تم فائٹر ہو۔ میری بیٹیاں بھی ساتھ تھیں۔ انہوں نے بھی حوصلہ دیا۔ آصف بٹ کے پڑوسیوں نے مکانوں سے بائر نکل کر مجھے سلام کیا تو آصف بٹ کا بیٹا حافظ جواد سن کر میری مدد کے لیے پہنچ آیا۔ میں نصف پیدل سفر طے کر چکا تھا مگر بارش نے باقی سفر مشکل بنا دیا لیکن عزم اورحافظ جواد کی مدد سے ہم بارش کو شکست دے کر منزل پر پہنچے تو آصف بٹ اور انکے بیٹے اور بیٹیوں نے ہماراپرتپاک استقبال کیا۔ پھولی ہوئی سانس نارمل ہوئی تو میں نے آصف بٹ سے کہا بارش ہے اور شام بھی ہونے والی ہے۔ بچوں کے تعلیمی کیرئیر کی تفصیل حاصل بتائیں۔ آصف نے اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے میڈلز میرے سامنے رکھے تو وہ خود کو دنیا کا خوش نصیب باپ تصور کر رہا تھا۔
انکے سارے بچے اور بچیاں سرکاری اداروں میں پڑھے ہیں لیکن کارکردگی کے لحاظ سے وہ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے کئی طلبا و طالبات سے بہتر ہیں۔ اس سے واضع ہوا کہ کامیابی کا اصل راز محنت ہے اور عقل کسی کی میراث نہیں۔ آصف بٹ کے بیٹے اور بیٹیاں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کا کام بھی کرتے ہیں جس سے وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتے ہیں۔ کسی بزرگ نے کہا تھا کہ پہاڑی لوگ ذھین ہوتے ہیں لیکن جب انکو ماحول اور سہولیات میسر نہیں ہوتیں تو انکی ترقی ایک مقام پر جا کر رک جاتی یے۔ میں جب آصف بٹ کے بیٹے اور بیٹیوں کے میڈلز دیکھ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ کل جب سفارش اور رشوت کے بغیر انکو نوکری نہیں ملے گی تو ان کے دل پر کیا گزرے گی۔ ہمارے تعلیم یافتہ بچے مناسب ملازمتیں نہ ملنے کے باعث مایوس ہو کر بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور 80 فی صد زندگی بیوی بچوں سے جدائی میں گزار دیتے ییں۔ ہمارے ہاں وسائل اور صلاحیت کی کمی نہیں لیکن استفادہ کے لیے معیاری اور مضبوط نظام کی ضرورت ہے جو بالآخر یہاں کے تعلیم یافتہ افراد نے ہی قائم کرنا ہے۔ اس لیے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔