پاکستانی یونیورسٹیوں کو اپنے افسانوں پر تحقیقی مقالے لکھنے پرمجبور کرنے والی بھارتی رائٹر کون ہے؟
پاکستانی یونیورسٹیوں کو اپنے افسانوں پر تحقیقی مقالے لکھنے پرمجبور کرنے والی بھارتی رائٹر کون ہے؟

پاکستانی یونیورسٹیوں کو اپنے افسانوں پر تحقیقی مقالے لکھنے پرمجبور کرنے والی بھارتی رائٹر کون ہے؟

اردو زبان سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کو ان کے یوم ولادت پر دو سال سے ان کا تعارف اور کلام اپنی فیسبک وال پر لگا کر خراج عقیدت پیش کرنے والی بھارتی رائٹرسیدہ سلمیٰ صنم کون ہیں. بھارت میں رہتے ہوئے اردو زبان کے فروغ کے لیے کیوں کوشاں ہیں‌؟ اب تک کیا خدمات دے چکی ہیں ، ان سب سوالوں کا جواب لینے کے لیے ہمیں انکی زندگی پر ایک نظر دوڑانی ہوگی.

تعارف

اصل نام سیدہ سلمی بانو، قلمی نام سلمی صنم، کرناٹک کے ضلع منگلور کے ساحلی علاقے پنمبور میں 4 اگست کو پیدا ہوئیں. والد کا نام سید اکبر اور والدہ کا نام حلیمہ بی ہے۔ ان کے اجداد کا تعلق بغداد سے تھا۔ وہ سادات تھے اور ان کا شمارعالموں میں ہوتا تھا۔ پندرھویں صدی عیسوی میں وہ کرناٹک کےعادل شاہی دور حکومت میں بغداد سے ہجرت کرکے بیجاپور میں آباد ہوئے اور شاہی دربار سے وابستگی اختیار کی. سلطنت خدا کا جب قیام عمل میں آیا تو وہ ٹیپو سلطان کی دعوت پر گنجعام( سری رنگا پٹن منڈیا) چلے آئے اور سلطان کے دربار سے منسلک ہوگئے۔

دوسرا مجموعہ ہے جھڑ کے لوگ کے رسم اجراء کی تقریب میں

سلمی صنم کی پرورش ان کے ننھیال( بنگلور ) میں ہوئی جہاں انہوں نے اسلامیہ مدرسہ نسواں گرلز ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا ۔ اس کے بعد مہارانیس سائنس کالج سے بی ایس سی اور بنگلور یونیورسٹی گیان بھارتی کیمپس سے ایم ایس سی ( علم حیوانیات ) کی ڈگری حاصل کی. 1990 میں پہلا افسانہ "روشنی” کے نام سے بنگلور کے روزنامہ "سالار” کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوا مگر باقاعدگی سے 2004 سے انہوں نے لکھنا شروع کیا اور ان کے افسانے برصغیر کے مقتدر رسالوں میں شائع ہوتے رہے ۔ اس کے علاوہ لندن، نیویارک، اسپین اور نیپال سے نکلنے والے رسالوں میں ان کی تخلیقات شائع ہوچکی ہیں۔ انگریزی، پنجابی اور ہندی میں افسانوں کا ترجمہ ہوچکا ہے.

سیدہ سلمیٰ صنم یوم اردو میں بطور جج

 تصانیف  

مطبوعہ تصانیف
1۔ طور پر گیا ہواشخص 2007
کرناٹک اردو اکادمی

2۔ پت جھڑ کے لوگ 2012
کرناٹک اردو اکادمی

3۔ پانچویں سمت 2016
عرشیہ پبلی کیشنز دہلی

4۔ قطار میں کھڑے چہرے اور دیگر کہانیاں 2018
عرشیہ پبلی کیشنر دہلی

5۔ قطار میں کھڑے چہرے(پاکستانی ایڈیشن) 2019
دستاویز مطبوعات لاہور

زیر ترتیب کتابیں

1۔ تڑپتا پتھر ( افسانچوں کا مجموعہ )
2۔ سخن ساز ( جدید شعراء اور ادباء کا تعارف)
3۔ ہے یہ کیسا سفر؟ ( سفرنامہ حج)

علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انعامات و اعزازات 

انعامات

1۔ کرناٹک اردو اکادمی کا انعام ( دو مرتبہ)
کتاب "قطار میں کھڑے چہرے اور دیگر کہانیاں پر 25 ہزار کا انعام
افسانہ "ایک مہلک سچ ” پر 10 ہزار کا انعام

2. اترپردیش اردو اکادمی کا کل ہند انعام (دو مرتبہ)
کتاب "قطار میں کھڑے چہرے اور دیگر کہانیاں” پر 20 ہزار کا انعام
کتاب "پانچویں سمت "پر 10 ہزار کا انعام

کتاب قطار میں کھڑے چہرے اور دیگر کہانیاں پر کرناٹک اردو اکادمی سے 25ہزار کا انعام لیتے ہوئے

3. بہار اردو اکادمی کا کل ہند انعام
کتاب "پانچویں سمت ” پر 10 ہزار کا انعام

ایوارڈز

1. ” عالمی ایوان ادب ” یو ایے ای کی جانب سے انٹرنیشنل "خادم ریختہ ایوارڈ ” برائے ادبی خدمات
2. افسانہ” بانس کا آدمی” پر پاکستانی بنیاد عالمی فکشن کی جانب سے سند اور شیلڈ
3. افسانہ "سائے ” پر الصدا بنگلور ایوارڈ
4. افسانہ "وہ لڑکا” پر روزنامہ سیاست بنگلور کا ضیاء جعفر ایوارڈ
5. افسانچہ "صلہ” پر جے کے مراز کامراز اردو اکادمی کشمیر کی جانب سے بشیر شاہ میموریل ایوارڈ

اعزازات

1..”سلمی صنم کا افسانہ "آرگن بازار کا ترجمہ "
مقالہ برائے بی ایس(انگلش)
مقالہ نگار مریم وقار احمد
نگران : ڈاکٹر عینی کریاچن
انگلش ڈیپارٹمنٹ‌
ویمن کرسچن کالج ، چنائی ، تامل ناڈو انڈیا

2۔ "سلمی صنم کے افسانوی مجموعے "پت جھڑ کے لوگ کا تجزیاتی مطالعہ”
مقالہ برائے اردو بی ایس
مقالہ نگار: حراعثمان
نگران: ڈاکٹر نورین رزاق
لاہور کالج برائے خواتین لاہور یونیورسٹی، لاہور پاکستان

3۔ "سلمی صنم شخصیت اور فن: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ "
تحقیقی مقالہ برائے ایم فل (جاری)
مقالہ نگار: صبا مشتاق ۔
نگران: ڈاکٹر سید بابرعلی زیدی
یونیورسٹی آف نارووال، نارووال پاکستان

4. "اردو افسانے میں پاکستان اور ہندوستان کی سماجی عکاسی کا تقابلی مطالعہ "
(نسیم انجم اور سلمی صنم کے حوالے سے )
تحقیقی مقالہ برائے ایم فل
مقالہ نگار: رضوانہ اقبال
نگران: ڈاکٹر صائمہ علی
یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور پاکستان

5. روزنامہ "آئین ادب ” پشاور پاکستان نے فن اور شخصیت پر صفحہ ترتیب دیا

 علمی وادبی اداروں سے وابستگی 

1. ممبر تخلیقی ادب پینل، قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو
2. نمائندہ بنگلور کے لئے ، عالمی اردوجریدہ”ورثہ ” نیویارک
3. ممبر ایڈوائزری بورڈ : انجمن علم و ادب اور ساوتھ ایشین کلچر سوسائٹی آف شکاگو

ان کی افسانہ نگاری کے بارے میں قمر رئیس مرحوم (نئی دہلی) لکھتے ہیں ” بلاشبہ آپ کہانی کے آرٹ پر قدرت رکھتی ہیں۔ مجھے لگا کہ آپ نہ صرف تخلیقی جوہر رکھتی ہیں بلکہ انسانی رشتوں اور گرد پیش کے مسائل پر بھی تھیکی نظر رکھتی ہیں "

پاکستان سے رشید امجد مرحوم ان کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں "سلمی صنم کی کہانیوں میں جو دلچسپی اور تاثر ہے وہ ان کے موضوعات کے تنوع سے ہم آہنگ ہو کر بطور کہانی نویس ان کی پہچان کراتا ہے۔ ان کا بے باکانہ لہجہ اس میں انفرادیت کا رنگ بھرتا تجزیہ اور اشیاء کی تہہ تک پہنچنے کا رویہ ان کی کہانیوں میں معنوی دبازت پیدا کرتا ہے۔فنی طور پر انہوں نے جدید افسانے کی معنوی اظہار اور اسلوب کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے نسبتا سادہ لہجہ اختیار کیا ہے۔ اس حوالے سے وہ جدید اردو افسانے کو اکیسویں صدی میں آگےلے جانے کے سفر کی ایک اہم راہ رو ہیں"

تیسرا مجموعہ پانچویں سمت کے رسم اجراء کے موقعے پر

سوال : آپ دو سال سے ادیبوں اور شاعروں کو ان کے یوم ولادت پر ان کا تعارف اور کلام اپنی فیسبک وال پر لگا کر خراج عقیدت پیش کر رہی ہیں، یہ خیال آپکو کیسے آیا ؟

جواب : یہ مئ 2019 کی بات ہے جب میرے ایک پاکستانی (مقیم جاپان) ادبی دوست نوید امین جو شاعر ہیں نے یہ ذکر کیا کہ وہ اردو ادباء اور شعراء کا تعارف اور کلام کتابی شکل میں لانا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے مجھ سے استدعا کی کہ میں اس کام میں ان کی مدد کروں ۔ میں نے حامی بھرلی۔ مگر مصروفیات کی وجہ سے میں اس طرف دھیان نہ دے سکی۔ جب 2020 میں کووڈ اور لاک ڈاون نے گھر تک محدود کردیا تو اس کا خیال آیا۔ ان ہی دنوں بھارت کے مالیگاؤں شہر سے ایک صاحب اعجاز زیڈ ہچ شعراء کے یوم ولادت/وفات پر ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کا تعارف اور کلام کسی واٹس آپ گروپ پر پوسٹ کررہے تھے۔ اس کام نے مجھے متاثر کیا اور میں ان کی اجازت سے اس کو اپنی فیس بک وال پر شئیر کرنے لگی۔ ایک سال تک میں نے دیکھا کہ وہ عصرحاضر کے شاعروں کو برائے نام ہی کور کررہے ہیں تو میں نے سوچا اپنے فیس بک کے دوست شعراء کا تعارف اور کلام پیش کروں۔ اس طرح اپریل 2021 سے میں نے بھی یہ سلسلہ اپنے ادبی دوست پاکستانی شاعر جناب محمود احمد کاوش صاحب سے شروع کیا جو الحمدللہ اب تک جاری ہے۔ اسی اثناء میں میرے افسانہ نگار دوستوں نے صلاح دی کہ میں فکشن لکھنے والوں کو بھی اس سلسلے میں شامل کروں۔ چونکہ میری اپنی شناخت افسانہ نگار کی ہے تو میں نے حامی بھر لی اور 2022 سے سینئیر افسانہ نگار فخر الدین عارفی صاحب سے اس سلسلے کا آغاز کیا۔

سوال : آپ کا تعلق بھارت سے ہے لیکن آپ اردو زبان کو ہی فروغ کیوں دے رہی ہیں؟

جواب : میرا تعلق دکن (جنوبی ہند ) سے ہے اور میری مادری زبان اردو یے۔ ساتویں جماعت تک میں نے اردو میں ہی تعلیم حاصل کی ہے۔ میری امی اور خالہ کو ناول اور رسالے پڑھنے کا شوق تھا۔ یہ شوق ورثہ میں ملا ہے۔ اردو کے فروغ میں شمالی ہندوستان ہی نے نہیں دکن جنوبی ہند نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے

سوال : اردو پاکستان کی قومی زبان ہے ، ہندوستان میں رہتے ہوئے کیا کبھی مشکلات پیش آئیں دونوں ممالک کے کلچر کو لیکر ؟

جواب : جی ہے ! آپ کا اور ہمارا کلچر بھی ایک ہی ہے۔کوئی مشکل کبھی پیش نہیں آئی ۔جتنے بھی ادبی لوگوں سے رابطہ رہا سب کو بہت ہی پر خلوص پایا۔سادات سے ہونے کی وجہ سے ماشاءاللہ کچھ زیادہ ہی توقیر ملی ہے.

سوال : آنے والے وقت میں اردو کو کہاں دیکھتی ہیں آپ ؟ آپکو نہیں لگتا کہ ہماری نئی نسل اردو یا ہندی کی بجائے انگریزی زبان کو ترجیح دیتی ہیں ؟

جواب: یہ تشویش ناک بات ہے کہ نئی نسل اردو سے دور ہوتی جارہی ہے۔ مگر ہمیں مایوس بھی نہیں ہونا چاہیئے. اردو آپ کی قومی زبان ہے تو وہ زندہ رہے گی. آخر زبان ہی تو قوم کی پہچان ہوتی پے.

 

ادبی پروگرام میں مومینٹو حاصل کرتے ہوئے

 

  انٹرویو : رانا علی زوہیب

0Shares

تعارف: رانا علی زوہیب

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*

0Shares