ناول: اذیت
مصنف: زارون علی
قسط نمبر: 06
دو دن تک ذیشان صاحب کو بتانے نہ بتانے کی کشمکش میں پھنسے رہنے کے بعد فیضان نے ایک بہتر فیصلہ کرتے زارون کے کمرے کا رخ کیا۔
”پڑھائی ہو رہی ہے؟“ دروازہ کھلا دیکھ کر بغیر اجازت ہی اندر داخل ہوتے فیضان نے اُسے لیپ ٹاپ میں مصروف دیکھ کر مخاطب کیا۔
”جی بس پیپرز قریب ہیں نا اسی لیے۔ آپ آئیں بیٹھیں۔“ اُسے اپنے کمرے میں دیکھ کر زارون نے اپنا لیپ ٹاپ سائیڈ پہ کیا اور مکمل طور پر اُس کی جانب متوجہ ہوا۔
”کب ہیں پیپر؟ اور میرے خیال سے ابھی کچھ دن پہلے ہی پیپر ہوئے تھے تمہارے؟“ لہجے کو عام سا رکھتے فیضان نے اصل بات پہ آنے کے بجائے ادھر اُدھر کی باتیں کرتے مقابل کے موڈ کو جانچنے کی کوشش کی۔
”جی سیمسٹر میں پیپرز ہوتے ہی رہتے ہیں۔ آپ بتائیں کوئی کام ہے تو میں کردوں گا۔“ اُس کی اتنی تحقیق پہ زارون کو لگا کہ شاید اُسے کوئی کام ہے تب ہی اُس کی بات کا جواب دیتے اُس نے نرمی سے پیشکش کی۔
”نہیں،نہیں کوئی کام نہیں تھا وہ بس دماغ میں پچھلے دنوں سے ایک بات گھوم رہی تھی۔۔۔ اسی لیے سوچا تم سے پوچھ لوں۔“ اُس کے پاس ہی صوفے پہ بیٹھتے فیضان نے لفظوں کو ترتیب دیتے چہرے پہ مسکراہٹ سجائی۔
”کیسی بات؟“ دماغ نے فٹ سے کسی خطرے کا الارم بجایا تو زارون نے حتی المکان اپنے لہجے کو پرسکون رکھا۔
”وہ۔۔ میں رات کو واش روم جانے کے لیے اُٹھا تو باہر سے نورعین کی آواز آرہی تھی۔۔ شاید وہ تم سے کچھ کہہ رہی تھی؟ کوئی مسئلہ ہے تم دونوں کے بیچ؟“ کمرے والی بات کو فی الوقت پس پشت ڈالتے فیضان نے مناسب طریقے سے دو دن پہلے ہوئے واقعے کا ذکر کیا۔
”کس رات؟ آپ پیر والے دن کی بات کررہے ہیں؟“ تاثرات میں آئی پریشانی کو چھپاتے زارون نے بتانے کے ساتھ ہی تصدیق چاہی۔
”ہاں، میں شک نہیں کر رہا مگر مجھے تمہارا انداز کچھ اچھا نہیں لگا مطلب تم اتنی رات میں اُس کے ساتھ کیا کر رہے تھے؟“ نظروں میں الجھن لیے فیضان نے اُسے جانچنے کے لیے بات میں مزید اضافہ کیا۔
”پاگل ہے وہ، میں تو نیند نہ آنے کی وجہ سے چھت پہ گیا تھا مگر شاید میری قسمت خراب تھی جو وہ بھی وہاں ٹپک پڑی۔ میں نے اُسے نیچے آنے کا بولا تو مجھ سے بدتمیزی کرنے لگی کہ یہ اُس کا بھی گھر ہے اسی لیے مجھے اُس کی ہٹ دھرمی دیکھ کر اُسے زبردستی نیچے لانا پڑا کیونکہ اتنی رات کو میں اُسے اکیلا چھت پہ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ پتا نہیں کیا چلتا ہے اُس کے دماغ میں اور میرے ساتھ تو پتا نہیں کون سی دشمنی ہے اُسے۔“ اُس کے سوال سے اُس کی معلومات کا اندازہ لگاتے زارون نے گھبرانے کے بجائے اعتمادکے ساتھ اُس کی بات کا جواب دیا۔
”اچھا، اچھا ٹھیک ہے۔ مجھے بس اتنی رات کو تم دونوں کو ساتھ دیکھ کر عجیب لگا اسی لیے پوچھ لیا۔“ اُس کی وضاحت پہ شرمندہ ہوتے فیضان نے صفائی پیش کی۔
”نہیں، کوئی بات نہیں اور آپ نے اچھا کیا جو مجھ سے پوچھ کر بات کلیئر کر لی ورنہ بدگمانی میں انسان کے دل و دماغ میں بہت سے شک پیدا ہو جاتے ہیں۔“ فیضان کی شرمندگی پہ زارون نے نرمی سے کہتے اُس کی پشیمانی کو دور کیا۔
”ہاں ایسا ہی ہے خیر تم اس بات کو چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ تم نے ڈاکٹر سے ابو کے بارے میں بات کی یا نہیں؟“ بھائی کی زبان سے اصل بات جاننے کے بعد فیضان نے چند دنوں سے اپنے دماغ میں چلتی الٹی سیدھی سوچوں کو جھٹکا اور زارون سے ایک اہم کام کے متعلق پوچھنے لگا۔
”جی میں نے کی ہے بات پر وہ چیک اپ کے بعد ہی اس بارے میں کچھ بتائیں گے اس لیے پلیز آپ ابو کو منائیں کہ وہ ایک بار میرے ساتھ چل کے ڈاکٹر کو دکھا لیں۔“ باپ کے ذکر پہ سنجیدہ ہوتے زارون نے اب کی بار تفصیل سے مقابل کو آگاہ کیا۔
”ہاں ٹھیک ہے، میں کہتا ہوں بس تم کوشش کر کہ آج کل میں ڈاکٹر سے ٹائم لے لو تا کہ اس معاملے میں مزید تاخیر نہ ہو۔“ اس ہفتے میں متعدد بار ذیشان صاحب کو سینے کے دردمیں مبتلا ہوتے دیکھ کر فیضان نے چھوٹے بھائی کو تاکید کی تو اُس نے اثبات میں سر ہلاتے مقابل کو مطمئن کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یار کیا ہوا ہے؟ اس بار تو تم لوگوں کی ناراضی کچھ زیادہ ہی لمبی نہیں ہو گئی ہے؟“ آج بھی اسکول میں وہ دونوں ایک دوسرے سے منہ موڑے بیٹھے رہے تو بلاآخر عائزہ نے نورعین کو مخاطب کرتے وجہ جاننے کی کوشش کی جو پچھلے دو دن سے اُسے کچھ بھی بتانے سے انکاری تھی۔
”کیسی ناراضی؟ اور کس سے؟“ اذلان کومکمل طورپہ نظر انداز کرتے وہ اسکول میں موجود اپنی واحد دوست کے سامنے انجان بنی۔
”اذلان سے یار، زیادہ بنو نہیں، میں جانتی ہوں کہ تم دونوں ایک دوسرے سے ناراض ہو۔“ اُس کی بات کاجواب دیتے عائزہ نے اپنی معلومات اُس تک پہنچائی۔
”میں کسی سے ناراض نہیں ہوں کیونکہ ناراض اُن سے ہوا جاتا ہے جن کے ساتھ آپ کا کوئی رشتہ ہو مگر اس گدھے کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے۔“ ایک کھا جانے والی نظر کچھ فاصلے پہ لاپروائی سے بیٹھے اذلان پہ ڈالتے نورعین نے دانت پیسے۔
”کیوں رشتہ نہیں ہے؟ وہ تمہارا کزن ہے اور بقول تمہارے۔۔۔ تمہارا کرائم پارٹنر بھی۔“ نورعین کی زبان سے گدھا کا لفظ سنتے عائزہ نے بامشکل اپنی ہنسی کو کنٹرول کیا۔
”تھا۔۔مگر اب یہ میرا کچھ نہیں لگتا۔“مقابل کی حرکت پہ اُسے گھورتے نورعین نے لہجے میں بے نیازی لیے اپنی بات پہ زور دیا۔
”کیوں؟ یار کیاہوا ہے؟ دو دن پہلے تو تم لوگ اچھے بھلے تھے پھر ایک دم سے سارے رشتے ناتے کیسے ختم ہو گئے؟“ اُس کے جواب پہ سنجیدہ ہوتے عائزہ نے ایک بار پھرسے وجہ جاننے کی کوشش کی۔
”یار کیا ہے بتاؤ نا؟ کہیں کس وغیرہ تو نہیں کردی اس نے تمہیں؟“ نورعین کی خاموشی پہ نظروں میں حیرت لیے عائزہ نے اُس کے قریب جھکتے راز داری سے پوچھا۔
”فضول بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یار تمہیں ایسی باتیں سکھاتا کون ہے؟ مطلب اذلان مجھے کس کیوں کرے گا۔“ مقابل کی بات پہ اُسے جھٹکے سے پیچھے کرتے نورعین نے نظروں میں خفگی لیے اُس کی طرف دیکھا۔
”اس میں کیا فضول ہے؟ میں نے خود مووی میں دیکھا کہ لڑکا لڑکی پہلے کرائم پارٹنر ہوتے ہیں مگر پھر اُن میں محبت ہوجاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کو کس بھی کرتے۔“ اپنی بات کادفاع کرتے عائزہ نے مووی میں دیکھا ہوا سین نورعین کو سنایا۔
”ہاں تو وہ انگریز ہوتے یہاں پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا اور تم ایسی فضول چیزیں نہ دیکھا کرو اللہ پاک گناہ دیتے ہیں۔“ ناراضی والی بات کو سائیڈ پہ رکھتے نورعین نے ہر بار کی طرح اس بار بھی اُسے سمجھایا۔
”ہونہہ اس میں گناہ والی کیا بات ہے، مطلب میں نے تو صرف دیکھا اُس کی جگہ جاکر کس نہیں کی اور تم ایسی باتیں کر کے میرا دھیان مت بٹاؤ بلکہ یہ بتاؤ کہ تم لوگ کیوں ناراض ہو۔“ اپنی عمر اور سمجھ کے مطابق جواب دیتے عائزہ نے اُس کا دھیان ایک بار پھر سے اصل موضوع کی طرف کروایا تو نورعین نے اُسے وہیں اٹکا دیکھ کر ہار مانی اور تفصیل کے ساتھ اپنی اور اذلان کی ناراضی کی وجہ بتانے لگی۔
”ہائے۔۔ یہ تو فلموں والا سین ہو گیا اور تمہیں پسٹل سے ڈر نہیں لگا؟ مطلب ایسے کیسے وہ تمہیں اس طرح ڈرا سکتے ہیں۔“ عائزہ پہ اعتماد ہونے کی وجہ سے نورعین نے تصویر کے ساتھ ساتھ زارون کے کمرے میں رہنے والی بات بھی اُسے بتائی تو اُس نے کچھ سیکنڈز پرجوش رہنے کے بعد پسٹل کا ذکر سنتے ہی جھرجھری لی۔
”ڈر لگا تھا مگر اُس وقت میں کیا کرسکتی تھی۔ ویسے بھی میرا تو مسٹر پونے بارہ کی شکل دیکھتے ہی دماغ بند ہوجاتا ہے اور دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔“ زارون کے سامنے آنے پہ اپنی کیفیت کا بتاتے نورعین نے بے بسی سے مقابل کی طرف دیکھا۔
”کیوں؟ ایسے تو اُن لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے جو کسی کو پسند کرتی ہوں اور میرے خیال سے اُس کزن کے ساتھ تو تمہارا ایسا کوئی تعلق نہیں۔“ اپنی دانشوری کا مظاہرہ کرتے عائزہ نے ایک بار پھر سے تفتیش شروع کی۔
”شرم کرو بھائی ہیں میرے اور مجھ سے کافی بڑے ہیں۔“ عائزہ سے زیادہ اپنے آپ کو اس بات کا یقین دلاتے نورعین نے اُسے گھورکر دیکھا۔
”ہاں تو پہلے سب بھائی ہی ہوتے اور میں نے کہانیوں میں پڑھا ہے جو بڑی عمر کے لڑکے ہوتے نا مطلب تمہارے کزن ٹائپ روڈ سے وہ ہمیشہ چھوٹی عمر کی لڑکیوں سے ہی محبت کرتے ہیں اور ہوسکتا ہے زارون بھائی کو بھی تم سے محبت ہو۔ مطلب تمہیں ایسے خفیہ طور پہ اپنے کمرے سے نکالنا، تمہارے قریب آنا اور گھر میں کسی کو بھی بتانے سے منع کرنا صاف صاف اُن کی فکر کو ظاہر کرتا ہے۔“ اپنی بات کی پختگی کے لیے مثال دیتے عائزہ نے اُسے یقین دلانے کی کوشش کی۔
”نہیں، مجھے نہیں لگتا مطلب وہ تو ہر وقت مجھ پہ غصہ کرتے ہیں اور کبھی بھی سیدھے منہ مجھ سے بات نہیں کرتے۔“ اُس کے لفظوں کے جال میں پھنستے نورعین نے ایک بار پھر سے انکار کیا۔
”ہاں تو سب کہانیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ غصے والے ہیرو کبھی بھی اتنی جلدی اپنی محبت ظاہرنہیں کرتے مگر جب شادی ہو جاتی ہے تو وہ لڑکی کا بہت خیال رکھتے ہیں بالکل کسی پرنسز کی طرح۔“ تاثرات میں جوش لیے عائزہ نے اپنی عقل کے مطابق خواب سی کیفیت میں کہتے مقابل کی طرف دیکھا جس کے چہرے پہ اب شرمیلی سی مسکراہٹ سج چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”نہیں، مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا۔ تم لوگ تو ایسے ہی چھوٹی سی بات کو لے کر پریشان ہو جاتے ہو۔“ گاہگوں کو فارغ کرتے فیضان نے ذیشان صاحب کو منانے کی کوشش کی جو ہر بار ہی اپنے ٹھیک ہونے کا یقین دلاتے اُسے ٹال دیتے تھے۔
”یہ چھوٹی بات نہیں ہے اور اس بار پلیز آپ کوئی ضد مت کرئیے گا کیونکہ زارون ڈاکٹر سے ٹائم لے چکا ہے۔“ اُنہیں پھر سے ٹال مٹول سے کام لیتے دیکھ کر فیضان نے چھوٹے بھائی کا ذکر کرتے بتایا۔
”کیوں لیا ٹائم؟ جب میں تم لوگوں سے بول رہا ہوں کہ میں ٹھیک ہوں تو پھر کیوں بے کار کی ضد میں پڑے ہو۔“ بیٹے کی بات پہ غصہ کرتے ذیشان صاحب نے تھان لپیٹ کر واپس ریک میں لگائے۔
”ضد میں نہیں آپ کر رہے ہیں۔ جب آپ کو پتا ہے کہ ہمارے خاندان میں دل کا مسئلہ نسلوں سے چلا آرہا ہے تو کیوں لاپروائی کر رہے ہیں۔ خدا نخواستہ میں کوئی بری امید نہیں رکھ رہا مگر پلیز آپ ایک بار چیک اپ کروا لیں تاکہ شک دور ہو جائے۔“ اُنہیں پھر سے موڈ خراب کرتا دیکھ کر فیضان نے اس بار تھوڑے سخت الفاظ کا استعمال کرتے اُن کے بھلے کے لیے اُن کو سمجھانے کی کوشش کی۔
”ضروری نہیں کہ جس وجہ سے ماں باپ کا انتقال ہوا ہو بچے بھی اُسی وجہ سے مریں اور تم لوگ اپنی پڑھائی اپنے پاس رکھو۔ میں اچھے سے جانتا ہوں کہ مجھے کب اور کس وقت کون سا کام کرنا ہے۔“ اپنی بات پہ اٹل ذیشان صاحب نے فیضان کو خاموش کروایا تو وہ بے بسی سے اُن کو دیکھتے سائیڈ پہ رکھے کھانے کے برتن سمیٹنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”امی ہم خالہ کی طرف کس دن جائیں گے؟“ کالج سے آتے ہی اُن کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹاتے عائشہ نے کچھ یاد آنے پہ سوال کیا۔
”جمعے کو جانا ہے کیوں خیریت ہے؟“ بیٹی کی بات کا جواب دیتے عالیہ بیگم نے نرمی سے اُس کی طرف دیکھا۔
”جی جی خیریت ہی ہے وہ آپ بتا رہی تھیں نا کہ اس بار فیضان بھائی کی شادی کی تاریخ فائنل کرنی ہے تو اسی لیے پوچھا۔“ کٹا ہوا دھنیا دھو کر اُن کے قریب رکھتے عائشہ نے پرجوشی سے کہا۔
”ہاں، ارادہ تو یہی ہے باقی جو اللہ کی مرضی۔“ بیٹی کی خوشی دیکھ کر عالیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے اُس کی بات کی تصدیق کی۔
”پھر تو بہت مزہ آئے گا۔ امی میں آپ کو بتا رہی ہوں میں بھائی کی شادی پہ سارے کپڑے اپنی پسند سے لوں گی اور آپ میرا جیسا سوٹ نورعین کو بالکل نہیں لے کر دیں گی۔“ ماں کی بات سنتے ہی فرمائشی پروگرام شروع کرتے عائشہ نے ساتھ ہی اُنہیں تاکید کی۔
”ٹھیک ہے لے لینا اور نورعین کو کون سا میں لے کر دیتی ہوں، وہ تو خود ہی تمہاری چیز دیکھ کر اڑ جاتی ہے کہ اُسے بھی وہی چاہیے۔“ بیٹی کے ذہن میں ابھرتی سوچ سے انجان عالیہ بیگم نے عام سے انداز میں اپنی بات کہی۔
”تو اس بار آپ ایسا مت کیجیے گا پلیز۔ آپ اُس کے کپڑے مجھ سے پہلے ہی بنا دیجیے گا تاکہ وہ میرے جیسے کپڑے پہن کر مجھ سے زیادہ اچھی نہ لگے۔“ الجھے سے انداز میں ماں کو اپنی رنگت کا احساس دلاتے عائشہ نے کہا تو عالیہ بیگم نے افسردگی سے اُس کی طرف دیکھا۔
”میں نے تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ اپنے آپ کو کم تر مت سمجھا کرو اور رنگ و روپ دیکھ کہ صرف چیزوں کی خوبصورتی کے فیصلے کیے جاسکتے مگرقسمت کے نہیں۔ اس لیے اپنے آپ کو اس ناشکری سے نکالو اور اللہ سے اپنے اچھے نصیب کی دعا کیا کرو۔“ بیٹی کی سوچ کا اندازہ ہوتے ہی عالیہ بیگم نے ایک اچھی ماں ہونے کا ثبوت دیتے اُسے پیار سے سمجھایا تو عائشہ نے مزید کچھ کہنے کے بجائے اثبات میں سرہلایا اور سنک پہ پڑے برتنوں کی جانب متوجہ ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اُٹھو یہاں سے۔ تم میرے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔“ اسکول سے واپسی پہ بس میں سوار ہوتے ہی اذلان نے اُس کے ساتھ والی سیٹ سنبھالی تو نورعین نے غصے سے اُسے گھورا۔
”کیوں؟ یہاں تمہارا نام لکھا ہے یا یہ سیٹ میرے بیٹھنے پہ رونے لگ جاتی ہے۔“ بیگ گود میں رکھتے اذلان نے بھی اُسی کے لہجے میں جواب دیا اور بے نیازی سے سیدھا ہوکر بیٹھا۔
”روئے یا ہنسے تمہیں اس سے کوئی مطلب نہیں۔ تم اُٹھو یہاں سے اور کہیں اور جا کر مرو۔“ مقابل کی ہٹ دھرمی دیکھ کر نورعین نے برہم ہوتے اپنی نفرت کا اظہار کیا تو اذلان نے ادھر اُدھر نظر دوڑاتے احتیاط سے اپنے بیگ سے کچھ نکالا۔
”یہ میں تمہارے لیے لایا تھا۔“ اُس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اُس نے ایک چھوٹا سا سفید رنگ کا ٹیڈی بیئر اور کارڈ اُس کی گود میں رکھا۔
”مجھے نہیں چاہیے۔“ بے مروتی سے ہاتھ مارتے نورعین نے اُن دونوں چیزوں کو اپنی گود سے جھٹکتے فٹ سے نظریں پھیریں۔
”یار مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے اور یہ میں نے اپنی جمع کی ہوئی پاکٹ منی سے تمہارے لیے خریدا ہے۔“ اُس کی ناراضی کی وجہ سے اذلان کو ہر جگہ پہ بوریت کا احساس ہوا تو اُس نے نورعین کومنانے کا فیصلہ کیا مگر اب اُس کا رویہ دیکھ کر اُس نے دکھ سے اُن چیزوں کو زمین سے اُٹھایا۔
”تو؟ میں کیا کروں؟ میں نے تمہیں نہیں بولا تھا کہ میرے لیے یہ سب خریدو۔“ مقابل کے جذبات سمجھے بغیر ہی لہجے میں کڑواہٹ لیے اُس نے دو ٹوک انداز میں کہا تو اذلان نے اثبات میں سر ہلاتے وہ دونوں چیزیں واپس اپنے بیگ میں ڈالیں اورخاموشی سے اُٹھ کر اگلی سیٹ پہ جا بیٹھا۔
”ہونہہ ہے ہی بدتمیز، نہیں بات کروں گی میں اس سے۔“ اذلان کا یوں اُٹھ کر جانا نورعین کو بُرا لگا تب ہی منہ میں بڑبڑاتے اُس نے الجھے سے انداز میں باہر دیکھا جہاں لوگ اپنے اپنے کاموں میں مگن تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”زارون رکو۔“ اُسے گیٹ کی جانب بڑھتا دیکھ کر ہانیہ نے اُسے پیچھے سے پکارا اور تیزی سے قدم اُٹھاتے اُس کی جانب آئی۔
”یہ تمہارے نوٹس، بہت شکریہ جوتم نے مجھے انہیں کاپی کروانے دیا۔“ ایک رجسٹر اُس کی جانب بڑھاتے ہانیہ نے اپنے گال پہ پڑتے خوبصورت سے ڈمپل کی نمائش کی۔
”کوئی بات نہیں، تمہارے فادر کی طبعیت اب کیسی ہے؟“ رجسٹر تھامتے زارون نے اُس کا شکریہ قبول کرتے نرمی سے پوچھا۔
”اب بہتر ہیں مگر ابھی ڈاکٹرز نے ڈسچارج نہیں کیا۔“ ہوا سے بار بار چہرے پہ آتی لٹوں کو کان کے پیچھے کرتے اُس نے مقابل کی بات کا جواب دیا۔
”اللہ پاک صحت دے بس تم لوگ جلدی نہ کرنا کیونکہ ڈاکٹرز زیادہ اچھے طریقے سے سمجھتے ہیں کہ پیشنٹ کو کس وقت کس طرح کے ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے۔“ اُس کا جواب سنتے ہی زارون نے دعا دیتے اُسے سمجھانے کے انداز میں کہا۔
”جی، ہم نے کیوں جلدی کرنی ہے۔ ہم تو پہلے ہی کافی پریشانی اُٹھا چکے ہیں۔“ باپ کی حالت کا سوچتے ہی اُس کی آنکھوں کے کنارے نم ہوئے تو اُس نے نامحسوس طریقے سے اُنہیں صاف کیا۔
”حوصلہ رکھو، اللہ پاک سب بہتر کرے گا اور انکل بہت جلد ٹھیک ہوجائیں گے۔“ اُس پرُ اعتماد لڑکی کو آج پہلی بار اپنے سامنے افسردہ اور پریشان دیکھ کر زارون نے نرمی سے سمجھایا تو اُس نے بامشکل خود پہ ضبط کرتے اثبات میں سر ہلایا اور ہلکی سی مسکراہٹ اچھالتے خاموشی سے واپس پلٹی۔
”اُففف۔۔۔ اس لڑکی میں پتا نہیں ایسی کون سی کشش ہے جو مجھے بار بار اس کی جانب متوجہ کرتی ہے۔“ زارون کی نظروں نے لاشعوری طور پر دور تک اُس کا تعاقب کیا تو اُس نے ہوش میں آتے ہی خود کو ملامت کیا اور سر جھٹکتے دوبارہ گیٹ کی جانب بڑھا جہاں اُس کا دوست اُس کا انتطار کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ابو پلیز ضد نہ کریں۔ میں نے ڈاکٹر سے بڑی مشکل سے ٹائم لیا ہے۔“ دکان پہ پہنچتے زارون نے فیضان کی زبانی ساری بات سننے کے بعد خود ذیشان صاحب کی منت کی۔
”یار کیوں تم دونوں میرے پیچھے پڑے ہو۔ میں نے بولا ہے نا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔“ فیضان کی ناراضی کی وجہ سے اب کی بار ذیشان صاحب نے ٹھنڈے پڑتے چھوٹے بیٹے کو تحمل سے سمجھایا۔
”جی ہم کون سا بول رہے ہیں کہ آپ بیمار ہیں بس یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک بار چیک اپ کروا لیں تاکہ خدانخواستہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو فوری طور پہ علاج ہوسکے۔“ ان کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے زارون نے اُنہیں نرمی سے سمجھاتے اپنی بات سے قائل کرنے کی کوشش کی۔
”ٹھیک ہے۔ جو دل کرتا ہے کرو مگر میں بتا رہا ہوں کہ میں روز روز ان طبیبوں کی دکانوں کے چکر نہیں لگاؤں گا۔“ اُن دونوں کو اپنی بات پہ قائم دیکھ کر ذیشان صاحب نے ہار مانتے ہامی بھری تو زارون نے مسکرا تے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور اُن کا ہاتھ پکڑتے اُنہیں کرسی سے اُٹھانے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”آپ ابھی بھی مجھ سے خفا ہیں؟“ عالیہ بیگم نے آج بھی چپ چاپ کھانا لا کر اُس کے سامنے رکھا تو نورعین نے ہمت کرتے اُنہیں مخاطب کیا۔
”نہیں۔“ یک لفظی جواب دیتے اُنہوں نے واپس اپنا رخ کچن کی جانب کیا تو نورعین نے مایوسی سے اُن کی پشت کو دیکھا۔
”اب میں کیسے مناؤں ممانی کو؟ عائشہ آپی بھی مجھ سے سیدھے منہ بات نہیں کر رہی ہیں ورنہ میں اُن سے ہی مدد لے لیتی۔“ عالیہ بیگم کا موڈ ہنوز خراب دیکھ کر نورعین نے پریشانی سے سوچا۔
”یہ سب اُس اذلان کی وجہ سے ہورہا ہے۔ نہ وہ تصویر جلاتا اور نہ ہی مجھے ماموں کو اُس کی شکایت لگانی پڑتی۔ گدھا کہیں کا۔ خود تو ہنسی خوشی سب سے بات کر رہا ہے اور میں بلاوجہ ہی سب کے غصے کا نشانہ بنی ہوئی ہوں۔ عائزہ ٹھیک کہتی ہے۔ اپنے والدین اپنے ہی ہوتے۔ یہاں میری امی ہوتیں تو وہ بھی میری سائیڈ لیتیں اور کبھی بھی مجھ سے یوں خفا نہ ہوتیں۔“ عالیہ بیگم کے رویے پہ ایک بار پھر سے نورعین کے دماغ میں احساس کمتری نے جنم لیا تو اُس نے اپنی سہیلی کی بات کا اثر لیتے دکھ سے خود کلامی کی اور کھانا کھائے بغیر ہی اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ مطلب ابو کو ایسی کوئی بھی سنگین علامت نہیں ہیں جس سے وال بند ہونے کا اندیشہ ہو۔“ ڈاکٹر کی بات سنتے ہی زارون نے بے یقینی کے ساتھ اُن کی طرف دیکھا۔
”جی علامات تو سنگین نہیں ہیں مگر جو وہ بتا رہے ہیں اُس سے مجھے اسی بات کا خدشہ ہے اس لیے بہتر ہے کہ آپ ان کے ٹیسٹ کروا لیں تاکہ کسی قسم کا کوئی شک باقی نہ رہے۔“پیپر پہ چند ضروری ٹیسٹ لکھتے ڈاکٹر نے اپنی سمجھ اور تجربے کے مطابق مقابل کو آگاہ کیا۔
”جی ٹھیک ہے میں کروا لوں گا۔“ ایک نظر پیپر پہ ڈالتے زارون نے فکر مندی سے اثبات میں سر ہلایا۔
”یہ میں نے فی الحال کچھ میڈیسنز بھی لکھ دی ہیں مگر بہتر یہی ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو آپ ٹیسٹ کروا لیں تاکہ تشخیص کی صورت میں اُس کے مطابق علاج شروع کیا جاسکے۔“ پیپر اُس کی جانب بڑھاتے ڈاکٹر نے ایک بار پھر سے اُسے تاکید کی اور ساتھ ہی ذیشان صاحب کے آرام اور خوراک کے بارے میں کچھ ہدایات دینے لگا۔
جاری ہے….