تعلیم کی طاقت : قیوم راجہ

تعلیم کی طاقت : قیوم راجہ

دنیا بھر میں تندرستی کو ہزار نعمت اور علم کو سب سے بڑی طاقت تصور کیا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان بوڑھا ہو کر کمزور ہو جاتا ہے لیکن علم دوست انسان علم کی طاقت کے بل بوتے پر بہتر اور مضبوط ہوتا رہتا ہے۔ اس کی ایک مثال آج ہمیں اپنے خوبصورت گاؤں کھجورلہ کے سرکاری گرلز سکول کی صدر معلمہ محترمہ پروین بیگم کی با عزت ریٹائرمنٹ کی تقریب کے موقع پر دیکھنے کو ملی۔ محترمہ پروین بیگم اور ان کے خاوند سردار جمشید خان کے والدین 1965 کی جنگ کے دوران ریاست جموں کشمیر کے علاقہ مینڈر سے ہجرت کر کے کھوئی رٹہ کے بالائی گائوں کھجورلہ ا کر پناہ لی۔ اپنی ریاست کے ایک مقام سے دوسرے مقام میں جا کر آباد ہونے والوں کو مہاجر تو نہیں کہنا چاہیئے لیکن بر صغیر کی تقسیم نے اپنے لاکھوں اجڑے گھرانوں کے لیے یہی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کے حقوق بھی بری طرح پا مال ہوئے۔ سردار جمشید خان کا خاندان تحصل مینڈھر کا ایک بااثر خاندان تھا۔ وہاں انکے پاس زرخیز زمینیں تھیں۔ بہترین معیار زندگی تھا لیکن جموں کشمیر میں ہندوستان اور پاکستان کی جنگ نے چند لمحوں میں ان کی پوری زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ میں 1965 کی جنگ میں ایک نا بالغ بچہ تھا لیکن مجھے یاد ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی دو طرفہ گولہ باری سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے ہمارے پہاڑی علاقوں میں جب بے گھر لوگ آئے تو ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جن کے پائوں میں جوتے بھی نہ تھے۔ ان بے گھر لوگوں میں سے کچھ نے جنگلوں میں کیمپ لگائے اور بعض گھرانوں کو ہمارے مقامی لوگوں نے اپنے گھروں میں پناہ دی۔ اس دور میں ہمارے لوگوں کے مکان تو چھوٹے چھوٹے تھے لیکن دل بہت بڑے تھے جس کی وجہ سے مہمان اور میزبان ملک جل کر گزارہ کرتے رہے۔ ہمارے گھر میں جو خاندان ٹھرا تھا ان کی زینت نام کی ایک 16 سالہ لڑکی کشمیری پشم سے سلائیوں کے ساتھ سویٹر بناتے ہوئے رویا کرتی تھی۔ وہ اپنے گھر کی جدائی میں روتے ہوئے بتایا کرتی تھی کہ اس کا گھر کتنا خوبصورت اور گائوں حسین تھا۔ وہ اپنے گھر کے ارد گرد ایک ایک درخت کا زکر کیا کرتی تھی۔ ہم بہت کم عمر تھے۔ اس کا درد تو صحیح طرح سمجھنے کے قابل نہ تھے لیکن اس کے آنسو آج بھی مجھے یاد ہیں جن کر زکر کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہےکیونکہ میں خود اسی وطن کی آزادی کی خاطر 22 سال خاندان سے ہزاروں میل دور دیار غیر کی جیل میں مقید رہا۔ مجھے معلوم ہے خاندان کی جدائی کا درد کیا اور کیسا ہوتا ہے۔

سردار جمشید خان کا خاندان ہمارے گھر سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جس جگہ ا کر آباد ہوا وہ اب ڈھک کالونی کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں ان کے ذریعہ معاش کا اغاز لکڑیوں کی خرید و فروخت سے ہوا۔ یہ ایک باشعور خاندان تھا جسے تعلیم کی اہمیت کا علم تھا۔ آج اس خاندان کی تعلیمی شرح مقامی لوگوں کی تعلیمی شرح سے بہتر ہے۔ تعلیم کے بل بوتے پر تقریبا ہر سرکاری شعبے میں اس کالونی کے افراد موجود ہیں اور اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ سردار جمشید خان خود بھی ایک سرکاری معلم ہیں اور قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے والی انکی اہلیہ صدر معلمہ کی ایک بیٹی ڈاکٹر بن چکی ہیں۔ دوسری بیٹی بھی سرکاری معلمہ ہیں جبکہ دونوں بیٹے ابھی زیر تعلیم ہیں۔ والدین کی سب سے بڑی انویسٹمنٹ تعلیم یافتہ اولاد ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک باوقار اور مضبوط قابل تقلید گھرانا ہے جس نے تعلیم کے بل بوتے پر جنگ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے اپنا کھویا ہوا مقام بحال کیا ہے۔ مشکلات کے شکار ہر فرد کو ایسے لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کرنا چائیے ۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*