ناول: اذیت ، مصنف : زارون علی ، قسط نمبر:02

ناول: اذیت ، مصنف : زارون علی ، قسط نمبر:02

”یار نہیں، زارون بھائی ہماری جان لے لیں گے۔ اُن کا تو ابھی پہلا غصہ ہی ختم نہیں ہوا۔“ چپس سے انصاف کرنے کے بعد نورعین نے تسلی سے اُسے اپنے منصوبے سے آگاہ کیا تو اذلان نے اُس کی پوری بات سننے کے بعد باقاعدہ کرسی سے اچھلتے نفی میں سر ہلایا۔
”مطلب تم میری بات نہیں مانو گے؟ ٹھیک ہے ویسے بھی مجھے تمہاری مدد کی کوئی ضرورت نہیں۔“ اذلان کے انکار پہ منہ پھلاتے نورعین نے لاپروائی سے کندھے اچکائے۔
”نہیں یار ایسی بات نہیں ہے بس مجھے زارون بھائی کے غصے سے ڈر لگتا ہے۔“ مقابل کو خفا دیکھ کر اذلان نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”ٹھیک ہے تم ڈرتے رہو مگر میں نے جو سوچا ہے وہ کر کے ہی دم لوں گی۔“ نظروں میں بے خوفی لیے نورعین نے اٹل انداز میں اُسے اپنا فیصلہ سنایا۔
”یار ایسا نہ کرو، مطلب اپنے بدلے کے لیے کچھ اور سوچ لو نا۔“ کمزور سی مذاحمت کرتے اذلان نے اُسے منانے کی کوشش کی۔
”نہیں، میں نے جو سوچ لیا ہے وہ کافی ہے اس لیے اگر تمہیں میرا ساتھ دینا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ بلال کے ساتھ سگریٹ پینے والی بات تو تمہیں یاد ہی ہو گی۔“ ذو معنی انداز میں کہتے نورعین نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے جوس کا سپ لیا۔
”میں نے نہیں پی تھی، میں نے بس بلال کے کہنے پہ ویسے ہی سگریٹ ہاتھ میں پکڑی تھی اور یہ تم پچھلی باتیں بتا بتا کر مجھے دھمکیاں مت دیا کرو۔“ اُس کی مکاری پہ دانت پیستے اذلان نے وضاحت دی تو نورعین نے لاپروائی سے کندھے اچکائے۔
”ٹھیک ہے جب تم فیصلہ کر ہی چکی ہو تو میں بھی قربانی کا بکرا بننے کے لیے تیار ہوں مگر میں بتا رہا ہوں اگر اس دفعہ کوئی گڑبڑ ہوئی تو میں سارا الزام تمہارے سر لگا دوں گا۔“ اُس کا منہ بند رکھنے کے لیے ہامی بھرتے اذلان نے دل ہی دل میں اس بار اُس سے ان دھمکیوں کا بدلہ لینے کی ٹھانی تو نورعین نے اُس کے ارادے سے بے خبر چہرے پہ ایک فاتحانہ مسکراہٹ سجاتے اُسے اپنے اگلے لائحہ عمل سے آگاہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”یہ بے ایمانی ہے۔ تم نے کہا تھا کہ ڈراما ختم ہوتے ہی ریموٹ مجھے دو گی۔“ نورعین نے اُس کے تقاضے پہ جلدی سے ریموٹ پاس بیٹھی عائشہ کے ہاتھ میں تھمایا تو اذلان نے اپنی جگہ سے اُٹھتے احتجاج کیا۔
”میں نے کب کہا؟ میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔“ اپنے وعدے سے صاف مکرتے نورعین نے چہرے پہ معصومیت طاری کی۔
”عائشہ آپی یہ جھوٹ بول رہی ہے نا؟ اس نے ابھی کچھ دیر پہلے ہی آپ کے سامنے مجھے ریموٹ دینے کی بات کی تھی نا؟“ نورعین کی چالاکی پہ زچ ہوتے اذلان نے جلدی سے بہن کو مخاطب کیا۔
”کون سی بات؟ مجھے تو ایسا کچھ یاد نہیں۔“ بھائی کا ساتھ دینے کے بجائے عائشہ نے لاعلمی ظاہر کرتے اذلان سے اپنا ماسک خراب کرنے کا بدلہ لیا۔
”میں جانتا ہوں آپ دونوں ملی ہوئی ہیں۔ آپی پلیز ایسا نہ کریں، پہلے ہی اس چھپکلی کی وجہ سے میرا آدھا میچ گزر چکا ہے۔“ نورعین کے چہرے پہ مسکراہٹ دیکھ کر اذلان نے دل ہی دل میں کڑھتے عائشہ کی منت کی۔
”چھپکلے ہو گے تم اور آپی اب آپ نے اسے بالکل بھی ریموٹ نہیں دینا۔“ اپنی شان میں اُس سے قصیدہ آرائی سنتے نورعین نے بھی میدان میں آتے اُس کی خبر لی۔
”بھئی میرا دماغ خراب مت کرو اور تم لوگوں کا جو بھی معاملہ ہے اُسے اسکرین کے سامنے سے ہٹ کر حل کرو۔“ اُن کی باتوں میں دلچسپی لینے کے بجائے عائشہ نے ماتھے پہ بل لیے اپنا مدعا بیان کیا تو اذلان نے کھا جانے والی نظروں سے بہن کو گھورا اور جھپٹ کر غصے سے پاس کھڑی نورعین کے بال کھینچے۔
” میں تمہارا منہ توڑ دوں گی۔ تمہاری جرأت کیسے ہوئی میرے بال کھینچنے کی؟“ مقابل کی حرکت پہ چیختے نورعین نے اُسے مارنے کے لیے اپنی چپل اُٹھائی تو اذلان نے اُسے موقع دیے بغیر ہی باہر کی جانب دوڑ لگائی۔
”امی پلیز! مجھے اس چڑیل سے بچا لیں۔“ اپنے بچاؤ کے لیے کچن میں پہنچتے اذلان نے عالیہ بیگم کا سہارا لیتے خود کو اُن کے پیچھے چھپایا۔
”ممانی پلیز آپ ہٹ جائیں، اس نے میرے بال کھینچیے ہیں، وہ بھی اتنی زور سے۔“ عالیہ بیگم کو کچھ بولنے یا سمجھنے کا موقع دیے بغیر نورعین نے بھی کچن میں پہنچتے اذلان پہ چھپٹنے کی کوشش کی تو وہ ماں کو سامنے کرتے خود اُن کے پیچھے چھپ گیا۔
”کیا مصیبت پڑگئی ہے تم دونوں کو؟ ابھی کچھ دیر پہلے تو اچھے بھلے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے تھے۔“ ایک دم سے آئی آفت پہ بوکھلاتے عالیہ بیگم نے نورعین کا ہاتھ پکڑا جو ان قریب ہی اذلان تک پہنچنے والا تھا۔
”ممانی اس نے بلاوجہ میرے بال کھینچے ہیں اور مجھے تھپڑ بھی مارا ہے۔“ اپنی ناکامی پہ کھلتے اُس نے پاؤں پٹختے عالیہ بیگم سے شکایت کی۔
”امی یہ جھوٹ بول رہی ہے۔ میں نے صرف بال کھینچے تھے تھپڑ نہیں مارا۔“ نورعین کے الزام پہ اذلان نے جلدی سے صفائی دی۔
”تو کیوں کھینچے؟ میں نے تمہیں کتنی بار منع کیاہے کہ ہاتھ مت چلایا کرو۔ اذلان اب تم چھوٹے نہیں ہو جو ہر وقت یوں بچوں کی طرح لڑتے ہو۔“ نورعین کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر عالیہ بیگم نے بیٹے کو کان سے پکڑتے اپنے سامنے کیا۔
”میں نے جان بوجھ کر نہیں کھینچے، اس سے پوچھیں کیسے اس نے پہلے مجھے بھائی بھائی بول کر ڈراما دیکھنے کے لیے ریموٹ لیا اور پھر مجھے دینے کے بجائے عائشہ آپی کو دے دیا۔“ اپنے دفاع میں آواز اُٹھاتے اذلان نے بھی اُس کی شکایت کی۔
”ممانی یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ میں نے اس سے ریموٹ نہیں لیا۔“ دکھ کی شدت سے آواز نورعین کے گلے میں اٹکی تو اُس نے اپنی بات ادھوری چھوڑتے عالیہ بیگم کے ساتھ لگتے رونا شروع کردیا۔
”اذلان تم بہت بدتمیز ہو، آلینے دو ذرا تمہارے ابو کو۔“ بھانجی کے رونے پہ پریشان ہوتے عالیہ بیگم نے بیٹے کی کلاس لی۔
”جی میں ہی اس گھر میں بُرا اور بدتمیز ہوں، جسے دیکھو ہر وقت مجھے ہی ڈانٹتا رہتا ہے۔“ ماں کو نورعین کی سائیڈ لیتا دیکھ کر اذلان کا دل ٹوٹا تو اُس نے منہ پھلاتے غصے سے عالیہ بیگم کی بات کی تصدیق کی اور تیزی سے قدم اُٹھاتے کچن سے نکلا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”بس کر دو، اتنا بھی کوئی ظلم نہیں کیا اذلان نے تم پہ۔“ پچھلے دس منٹ سے اُسے مسلسل آنسو بہاتا دیکھ کر عالیہ بیگم نے تھک ہار کر تھوڑا غصہ دکھایا۔
"اُس نے بہت زور سے میرے بال کھینچے تھے۔“ عالیہ بیگم کی بات سنتے ہی نورعین نے دکھ سے ہچکی لی۔
”اچھا کوئی بات نہیں۔ بھائی ہے تمہارا اور تم اُس کی ہم عمر ہو نا اس لیے تمہیں تنگ کرتا رہتا ہے۔ یہ لو پانی پیو اور چپ ہو جاؤ۔ تمہارے ماموں آنے والے ہیں۔“ ٹیبل سے گلاس اُٹھا کر اُس کے لبوں سے لگاتے عالیہ بیگم نے اس بار اُسے نرمی سے سمجھایا۔
”اچھا ہے آجائیں، میں اُن کے آتے ہی اُن سے اذلان کی شکایت کروں گی اور یہ بھی بتاؤں گی کہ آج اُس کے ٹیسٹ میں دو نمبر آئے ہیں۔“ چند گھونٹ پانی کے بھر کے اُس نے آنسوؤں کے بیچ اٹکتے ہوئے بامشکل اپنی بات مکمل کی۔
”دو نمبر؟ کون سے ٹیسٹ میں؟“ گلاس واپس ٹیبل پہ رکھتے عالیہ بیگم نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا۔
”میتھس کے ٹیسٹ میں پچاس میں سے دو نمبر آئے ہیں۔ میم نے پوری کلاس کے سامنے کھڑا کر کے بے عزتی کی اور بولا کے پورا ہفتہ وہ اُن کے پیریڈ میں کھڑا رہے گا۔“ اُن کا سوال سنتے ہی انکشاف کرتے نورعین نے اسٹالر سے اپنی ناک رگڑی۔
” اچھا اچھا کوئی بات نہیں، پڑھائی میں اونچ نیچ ہو ہی جاتی ہے۔ بس میرا بیٹا اب تم اپنے ماموں کو یہ بات مت بتانا کیونکہ زارون آج پہلے ہی تم دونوں کی شکایت لگانے کی ٹھان کے بیٹھا ہوا ہے۔“ انگلیوں کی پوروں سے اُس کے آنسو صاف کرتے عالیہ بیگم نے اُس سے درخواست کی۔
”ٹھیک ہے آپ کہہ رہی ہیں تو نہیں بتاؤں گی پر آپ وعدہ کریں کہ آپ بھی مجھے اذلان کے بال کھینچنے دیں گی۔“ اُن کی بات ماننے کے لیے شرط رکھتے نورعین نے سوالیہ نظروں سے اُن کی طرف دیکھا۔
”اچھا ٹھیک ہے جو دل ہوا کرلینا پر ابھی کے لیے اُٹھو اور جا کر اپنا منہ دھو۔“ اُس کے سرخ چہرے اور روئی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر عالیہ بیگم نے فی الوقت بیٹے کو بچانے کے لیے اُس کی بات مانی تو نورعین نے اثبات میں سر ہلایا اور اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
”توبہ ان دونوں نے تو مل کر میری ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ مجال ہے جو ایک دن بھی سکون سے گزار لیں۔“ نورعین کے جاتے ہی خود کلامی کرتے عالیہ بیگم نے سر جھٹکا اور کلاک کی طرف دیکھتے عائشہ کو آواز لگائی تاکہ اُسے ٹیبل پہ برتن سیٹ کرنے کا کہہ سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”ابو مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔“ ذیشان صاحب کی آمد کے بعد سب لوگ کھانے کی میز پہ اکٹھے ہوئے تو زارون نے ایک نظر اذلان اور نورعین پہ ڈالتے باپ کو مخاطب کیا۔
”ہاں بولو۔“ اپنی پلیٹ میں سالن نکالتے ذیشان صاحب نے سرسری سے انداز میں گویا ہوتے اجازت دی۔
”کچھ نہیں بولنا، چپ کر کے کھانے پہ دھیان دو۔“گرم روٹی نکال کر ذیشان صاحب کی پلیٹ میں رکھتے عالیہ بیگم نے زارون کے کچھ بولنے سے پہلے ہی بات کاٹی۔
”کیوں نہیں بولنا؟ امی آپ کی ان طرف داریوں کی وجہ سے بگڑے ہیں یہ دونوں۔“ ماں کی حمایت پہ ماتھے پہ بل لیے زارون نے سنجیدہ سے انداز میں ہاتھ میں پکڑا نوالہ پلیٹ میں رکھا۔
"کون دونوں؟ لگتا ہے آج پھر اذلان اور نورعین نے کوئی شرارت کی ہے؟“ ایک نظر بیوی کی جانب دیکھتے ذیشان صاحب نے تصدیق کے لیے اپنا دھیان مکمل طور زارون پہ مرکوز کیا۔
”شرارت نہیں بدتمیزی، ابو یہ دونوں آج سلیم صاحب کے درخت سے شہتوت چوری کر رہے تھے۔ یہ صاحب درخت کے اوپر چڑھے شہتوت توڑنے میں مگن تھے اور یہ میڈم اپنا اسٹالر زمین پہ بچھائے ننگے سر بیٹھی تھیں۔“ ماں کی نظروں کی پروا کیے بغیر زارون نے باری باری اُن دونوں کی طرف اشارہ کرتے اُن کے کارنامے کا ذکر کیا۔
”بات شرارت کی نہیں ہے بلکہ عزت کی ہے۔ کیا انہیں گھر میں کچھ کھانے کو نہیں ملتا جو یہ اس طرح بغیر پوچھے کسی کے گھر سے پھل چوری کر رہے تھے۔ ابو ان دونوں کا دماغ دن بدن بہت خراب ہوتا جا رہا ہے اس لیے بہتر ہے کہ آپ میٹرک مکمل ہوتے ہی اذلان کو ہاسٹل بھیجیں اور امی پلیز آپ بھی نورعین کو تھوڑے لڑکیوں والے طور طریقے سکھائیں۔“ باپ کو مشورہ دیتے اُس نے ساتھ ہی ماں کو تاکید کی۔
”میرا بیٹا کہیں نہیں جائے گا اور اگر تم لوگوں نے دوبارہ اسے ہاسٹل بھیجنے کی بات کی تو میں بتا رہی ہوں کہ میں اپنے بچے کو لے کر احمد کی طرف چلی جاؤں گی۔“ ذیشان صاحب کے کچھ بولنے سے پہلے ہی عالیہ بیگم نے جذباتی سے انداز میں اپنے بھائی کے گھر جانے کی دھمکی دی۔
”بس بس زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں اور بچوں کے سامنے اُن کی سائیڈ لے کر اُنہیں شہ مت دیا کرو۔“ بیوی کی بات سنتے ہی ذیشان صاحب نے نظروں میں سختی لیے اُنہیں دیکھا تو عالیہ بیگم نے خاموشی اختیار کی۔
”تم دونوں کھانا ختم کر کے میرے کمرے میں آؤ۔“ چند منٹ خاموشی کے بعد ذیشان صاحب کھانا ختم کر کے اُٹھے تو نورعین اور اذلان نے ایک ساتھ اُن کی طرف دیکھا جو حکم سنا کر وہاں سے جا چکے تھے۔
”بچو آج تو تم لوگوں کی خیر نہیں۔“ ذیشان صاحب کے جاتے ہی ٹیبل پہ سب سے پہلی آواز فیضان کی ابھری تو عائشہ نے بھی مسکراہٹ چھپاتے اُن دونوں کو چھیڑا۔
”بس زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں، چپ کر کے کھانا کھاؤ اور جا کر اپنے اپنے کمروں میں سو جاؤ۔“ زارون کا غصہ فیضان اور عائشہ پہ نکالتے عالیہ بیگم نے کھانا ختم کیے بغیر ہی اپنی پلیٹ اُٹھائی اور اُٹھ کر کچن میں چلی گئیں۔
”یہ سب اس کھڑوس کی وجہ سے ہوا ہے، بدتمیز، سڑیل کہیں کا۔“ ساری کارروائی مکمل کرتے زارون نے اپنی توجہ کھانے کی طرف مرکوز کی تو نورعین نے ایک کھا جانے والی نظر اُس پہ ڈالی اور تاثرات میں پریشانی لیے اذلان کی طرف دیکھا جو خفگی ظاہر کرنے کے لیے اُسے نظر انداز کر کے اپنا سر جھکا چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”آجاؤ۔“ کچھ دیر بعد دروازے پہ دستک ہوئی تو ذیشان صاحب نے اجازت دیتے نظر اُٹھا کر آنے والوں کی طرف دیکھا۔
”بیٹھ جاؤ۔“ ہاتھ میں پکڑا موبائل سائیڈ پہ رکھتے ذیشان صاحب نے اُن کے جھکے سر دیکھ کر سامنے موجود صوفے کی طرف اشارہ کیا۔
”ماموں سوری، ہم دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گے۔“ اُن کے غصے سے خائف نورعین نے بیٹھنے کے بجائے آنکھوں میں نمی لیے اُن سے معذرت کی۔
”اچھا ٹھیک ہے۔ بیٹھو پھر بات کرتے ہیں۔“ اُس کے آنسوؤں سے جذباتی ہونے کے بجائے ذیشان صاحب نے پھر سے اُنہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
”نہیں، مجھے پتا ہے آپ ناراض ہیں۔ ماموں، زارون بھائی جان بوجھ کر بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تاکہ ہمیں ڈانٹ پڑے اور اذلان کا کوئی قصور نہیں تھا میں نے ہی اسے شہتوت توڑنے کا کہا تھا۔“ صوفے پہ بیٹھنے کے بجائے اُن کے سامنے بیڈ پہ بیٹھتے نورعین نے اپنے پارٹنر کو بچانے کے لیے سارا الزام اپنے سر لیا۔
”ہمم، بیٹا زارون تم دونوں کی بہتری کی بات ہی کرتا ہے، تم خود بتاؤ ایسے کسی کے گھر سے بغیر پوچھے کچھ توڑنا اچھی بات ہے؟“ اُسے خود ہی اپنی غلطی تسلیم کرتا دیکھ کر ذیشان صاحب نے بھی سختی کرنے کے بجائے نرمی سے پوچھا تو نورعین نے شرمندگی سے نفی میں سر ہلایا۔
”سوری ابو، ہم دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گے۔“ ذیشان صاحب کی بات سے اذلان کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اُس نے بھی باپ سے معذرت کی۔
”ٹھیک ہے اب جب تم دونوں کو خود ہی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو اس بار میں تمہیں معاف کر دیتا ہوں لیکن اگلی دفعہ اگر ایسا کچھ ہوا تو سزا ملے گی۔“ بھانجی کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر مزید کچھ کہنے یا ڈانٹنے کے بجائے ذیشان صاحب نے ٹھنڈے پڑتے اذلان کی بھی جان بخشی کی اور نورعین کو اپنے ساتھ لگایا جو اُنہیں اپنے بچوں سے بھی زیادہ عزیز تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”کہاں مصروف تھے؟ میں کب سے کال کر رہی ہوں تمہیں۔“ دوسری طرف سے ہیلو کی آواز ابھری تو سائرہ نے سلام و دعا کے بغیر ہی خفگی سے کہا۔
”کہیں نہیں وہ گھر کا کچھ سامان ختم تھا تو کھانا کھانے کے بعد وہی لینے چلا گیا اور موبائل کمرے میں ہی پڑا تھا۔“ سائرہ کے طنز کا اثر لیے بغیر فیضان نے تفصیل کے ساتھ اُسے دیر سے کال اُٹھانے کی وجہ بتائی۔
”اچھا ٹھیک ہے مجھے لگا شاید آج مجھ سے بات کیے بغیر ہی سو گئے ہو۔“ اُس کی وضاحت پہ سائرہ نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
”نہیں، میری یہ مجال کہ میں تم سے بات کیے بغیر سوؤں۔“ اُس کے شکوے پہ مسکراتے فیضان نے جان بوجھ کر اُسے چھیڑا۔
”ہونہہ اتنے بھی تم میرے فرمانبردار نہیں جتنا ظاہر کرتے ہو۔“دوسری طرف سے فیضان کی تابعداری کا سنتے سائرہ نے آنکھیں سکیڑیں۔
”تابعدار ہی ہوں تب ہی آج تک تمہیں کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ خیر چھوڑو ان باتوں کو اور گھر والوں کا بتاؤ۔ کیسے ہیں سب؟“ موضوع بدلتے فیضان نے بیڈ کی بیک کے ساتھ ٹیک لگاتے استفسار کیا تو سائرہ بھی فضول کی بحث میں پڑنے کے بجائے آہستگی سے اُس کی باتوں کا جواب دینے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اُففف اس پراجیکٹ نے تو میرا دماغ خراب کر دیاہے۔“ آنکھوں میں درد کی وجہ سے زارون نے باقی کام کل پہ چھوڑتے اپنا لیپ ٹاپ بند کیا اور کلاک پہ بارہ بجتے دیکھ کرسی سے اُٹھا۔
”بس کل ہر صورت میں اسے مکمل کر کے جمع کروا دوں گا۔“ پورے ایک ہفتے کی محنت کو ان قریب ہی مکمل ہوتا دیکھ کر زارون نے دل ہی دل میں ارادہ کیا اور ایک بھرپور انگڑائی لیتے بیڈ پہ پہنچا۔
”چار بجے کا الارم لگا لیتا ہوں تاکہ جلدی اُٹھ کر باقی کام بھی مکمل کر سکوں۔“ موبائل اُٹھاتے ہی زارون نے خوشی اور جوش کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ خود کلامی کی اور الارم سیٹ کرتے موبائل اپنے قریب ہی تکیہ کے ساتھ رکھا اور پرسکون سے انداز میں آنکھیں بند کرتے سونے کی کوشش کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”ہائے اللہ! تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔“ رات دو بجے کے قریب وہ اپنے ارادے کی تکمیل کے لیے دبے پاؤں کمرے سے نکلی تو اذلان جو کافی دیر سے اُسی کے انتظار میں کھڑا تھا ایک دم سے اُس کے سامنے آیا۔
”مجھ سے بات نہ کرو، میں صرف تمہارا احسان اُتارنے کے لیے آیا ہوں۔“ نورعین نے گہری سانس لیتے خود کو پر سکون کیا تو اذلان نے خفگی ظاہر کرتے جتلایا۔
”ہونہہ میں بھی ناراض ہی ہوں اس لیے زیادہ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔“ مقابل کی بات سنتے ہی نورعین نے بھی اکڑ دکھانا ضروری سمجھا۔
”ٹھیک ہے رہو، میں بھی تم سے صلح کرنے کے لیے مرا نہیں جارہا۔“ اُس کی ہٹ دھرمی دیکھ کر اذلان نے نظریں پھیریں تو نورعین نے بھی منہ بسورتے اپنے قدم سیڑھیوں کی جانب بڑھائے۔
”ایک بار پھر سے سوچ لو، مطلب زارون بھائی نے اُس پراجیکٹ پہ کافی محنت کی ہے۔“ اُس کے پیچھے ہی دبے پاؤں سیڑھیاں چڑتے اذلان نے اُسے سمجھانے کی آڑ میں مزید اُکسایا۔
”کیوں سوچوں؟ اُنہوں نے ہماری شکایت کرتے ہوئے کچھ سوچا؟ وہ ہر بار ہماری ایسے ہی بے عزتی کرواتے ہیں۔“ اُس کی بات پہ پلٹتے نورعین نے لہجے میں پختگی لیے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”ہمم ٹھیک ہے چلو پر میں بتا رہا ہوں اس بار کوئی بھی مسئلہ ہوا تو میں جائے وقوعہ سے اپنی جان بچا کر فرار ہو جاؤں گا۔“ اپنی جیت پہ خوش اذلان نے بس دکھاوے کے لیے اُسے خبردار کیا۔
”ہونہہ تم بڑی قتل کی واردات کر رہے ہو نا۔“ اُس کے پیشہ وارانہ انداز پہ نورعین نے طنز کرتے خود کو ہوشیار رکھنے کے لیے ادھر اُدھر دیکھا۔
”واردات قتل کی نہیں پر اس کارروائی کے بعد مجھے اپنی موت صاف صاف دکھائی دے رہی ہے اسی لیے بار بار تم سے بول رہا ہوں کہ ایک دفعہ ٹھنڈے دماغ سے سوچ لو۔“ تاثرات میں سنجیدگی سموتے اذلان نے اُسے ایک ہمدردانہ مشورہ دیا۔
”میں تمہاری طرح بزدل نہیں ہوں جو فیصلہ کرنے کے بعد بار بار اُس پہ نظر ثانی کروں۔ نورعین کی زبان اٹل ہے، ارادے پختہ اور عمل یقینی ہے اس لیے اگر تمہیں زیادہ ڈر لگ رہا ہے تو یہیں سے واپس چلے جاؤ۔“ کچھ دیر پہلے ہی ڈرامے میں سنا ہوا ڈائیلاگ بولتے اُس نے مقابل کے سامنے خود کو بہادر اور مضبوط ظاہر کرنے کے لیے پلٹ کر قدم آگے بڑھائے تو اذلان نے تیر نشانے پہ لگا دیکھ کر اپنی مسکراہٹ چھپائی اور خود بھی بغیر آہٹ کیے اُس کے پیچھے چل پڑا۔
”پاسورڈ بتاؤ؟“ کمرے میں پہنچتے ہی زارون کے سوئے ہونے کی تسلی کرنے کے بعد نورعین نے احتیاط سے ٹیبل سے لیپ ٹاپ اُٹھایا اور بیڈ کی اوٹ میں چھپ کر اُسے آن کرنے لگی۔
”مجھے تو نہیں پتا۔“ مقابل کے سوال پہ لاعلمی ظاہر کرتے اذلان نے نفی میں سر ہلایا۔
”تویہاں کرنے کیا آئے ہو؟ میں نے تم سے بولا بھی تھا کہ پاسورڈ معلوم کر لینا۔“ لفظوں کو چباتے نورعین نے اُس کی بے وقوفی پہ اسکرین سے نظر ہٹا کر اُسے گھورا۔
”میں کوئی آئی ٹی ایکسپرٹ نہیں ہوں اور نہ ہی میری آنکھوں میں لینز کی جگہ کیمرے نسب ہیں جو میں چند گھنٹوں میں تمہیں کسی کے بھی لیپ ٹاپ کا پاسورڈ معلوم کر کے بتا سکوں۔“ اپنی بے عزتی کااحساس ہوتے ہی اذلان نے منہ بسورا۔
”اچھا اب فضول کی بحث نہ کرو اور اس کا کچھ کرو۔“ لیپ ٹاپ کی اسکرین اُس کی جانب کرتے نورعین نے مزید وقت ضائع کیے بغیر اُس کے کان میں سرگوشی کی۔
”میں کیا کروں؟ ہمم میرے موبائل میں زارون بھائی کے لیپ ٹاپ کے پچھلے کچھ پاسورڈ سیو ہیں۔ وہ ٹرائی کرتا ہوں۔“ مقابل کی آنکھوں میں غصہ دیکھ کر اذلان نے کچھ سوچتے ہوئے ایک حل نکالا۔
”ٹھیک ہے لگاؤ پر جلدی کرو۔“ اُس کی بات سے مطمئن ہوتے نورعین نے تاثرات میں پریشانی لیے ایک نظر زارون پہ ڈالی۔
”اب کیا ہوا؟“ اُسے اپنی جیبیں ٹٹولتا دیکھ کر نورعین نے سوال کیا تو اذلان نے جواب دینے کے بجائے اپنی بتیسی کی نمائش کی۔
”اب یہ مت کہنا کہ تم موبائل نہیں لائے؟“ اُس کے انداز سے نتیجہ اخذ کرتے نورعین نے نفی میں سر ہلاتے خدشہ ظاہر کیا۔
”میں بس دو منٹ میں لاتا ہوں۔ تم یہیں رکو۔“ اپنی غلطی تسلیم کرتے اذلان نے اُسے تسلی دی اور اُسے کچھ بھی بولنے یا روکنے کا موقع دیے بغیر ہی دبے پاؤں دروازے کی جانب بڑھا۔
”اب آئے گا مزہ۔“ کمرے سے نکلتے ہی اُس نے چہرے پہ ایک پراسرار سی مسکراہٹ لیے جیب سے چابی نکال کر دروازے کو باہر سے لاک کیا۔
”میں بھی دیکھتا ہوں کہ اب تم مجھے دوبارہ کیسے بلیک میل کرتی ہو۔“ اپنے ارادے کی کامیابی پہ سرشاری کے ساتھ اُس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور پر سکون سے انداز میں بے آواز سیٹی بجاتے سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔ (جاری ہے)

تعارف: (زارون علی) Zaroon Ali

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*