صاحب منصب کے نام : قیوم راجہ

حضرت بہلول اور حضرت جنید بغدادی کے درمیان طعام، کلام اور آرام پر مکالمہ ہو رہا تھا۔ حضرت بہلول حضرت جنید کی طرف سے طعام ، کلام اور آرام بارے کیے گے اپنے ہر سوال کے جواب سے اختلاف کرتے ہوئے حضرت جنید سے فرمایا کہ آپ خود کو اتنی بڑی علمی شخصیت سمجھتے ہیں لیکن آپ کے سارے جواب غلط ہیں۔ انہوں نے کہا کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ کہنا کافی نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ جو کھا رہے ہو وہ حلال ہے یا نہیں۔ اسی طرح کلام کے آداب اللہ کی خوشنودی اور سوتے وقت خود سے یہ پوچھیں کہ کسی کی حق تلفی کر کے یا دل میں حسد، بغض اور دنیا کی حرص لے کر تو نہیں سو رہے۔

ریٹائرڈ اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل راجہ شہجہان خان، قیوم راجہ اور سلمان ایوب کی ایک یادگار تصویر

ہمارے خاندان اور کھوئی رٹہ کا مری تصور کیے جانے والے ابائی گائوں کھجورلہ کے ایک بزرگ ریٹائرڈ اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس راجہ شہجہان خان 18 جنوری کو اپنے گھر بیڈ روم میں آگ لگنے سے انتہائی درد ناک موت کا شکار ہوئے ۔ آگ لگنے کی اصل وجہ کا کسی کو علم نہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ بجلی کے کرنٹ سے ان کا الیکٹرک بید بلاسٹ ہوا اور کوئی کہتا ہے کہ کمبل ھیٹر پر گرا جس سے آگ بھڑک اٹھی۔ راجہ شہجہان صاحب دو سال سے فالج کا شکار تھے۔ قوت گویائی سے محروم ہو گے تھے۔ چلنے پھرنے میں بھی دشواری تھی۔ انکا اپنا بیٹا ابھی صرف دس سال کا ہے لیکن انکے بھتیجوں میں سے کوئی نہ کوئی ہر وقت ان کے کمرے میں موجود رہتا تھا۔ کبھی کسی نے دیکھ بھال میں غفلت نہیں کی لیکن تقدیر کو شکست دینا ممکن نہیں۔ علاقہ کی تاریخ میں یہ ایک ناقابل یقین درد ناک سانحہ ہے۔ پیش آنے والے سانحہ سے قبل انکا ایک نوجوان عزیز پانی کی موٹر دیکھنے گیا۔ اہلیہ انہیں کھانا کھلا کر کچن میں گئی ہی تھیں کہ اگ کے شعلوں نے کمرے کے اندر جانے کے تمام راستے بند کر دیئے ۔ فائر بریگیڈ کی گاڑی بھی وقت پر نہ پہنچ سکی ۔ کھوئی رٹہ پولیس کے ڈپٹی سپرینٹنڈنٹ سردار شہزاد سرور اور انسپکٹر سہیل یوسف بھی خبر ملتے ہی موقع پر پہنچ آئے جبکہ ایس ایس پی کوٹلی ریاض مغل نے پولیس ٹیم سمیت جنازے میں شرکت کی جہاں انہوں نے راجہ شہجہان خان کی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔

راجہ شہجہان خان کے بیڈ روم میں آگ کے شعلے جنہوں نے انکی زندگی کے لی۔

راجہ شہجہان خان کو جاننے والا ہر شخص انکی دیانتداری اور شرافت کی گواہی دیتا ہے۔ آزاد کشمیر پولیس فورس میں اگر آزاد کشمیر کے پولیس افسر پر انسپکٹر جنرل پولیس بننے کی پابندی نہ ہوتی تو راجہ شہجہان یقیننا ترقی پا کر بطور آئی جی پی ریٹائر ہوتے۔ انکی دیانتداری کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی تنخواہ سے اپنا مکان بھی نہ بنا سکے۔ ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے اپنی اہلیہ جو سرکاری معلمہ ہیں کے ساتھ مل کر بنک سے قرضہ لے کر مکان تعمیر کیا تھا۔ انکی اہلیہ بھی مظفرآباد کے ایک با اثر سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ سابق وزیر حکومت نورین عارف کے خاوند پروفیسر عارف کی حقیقی بھانجی اور ڈپٹی سپرینٹنڈنٹ پولیس راجہ فیصل شفیق کی ہمشیرہ ہیں۔ آزاد کشمیر پولیس میں اتنا بڑا عہدہ اور با اثر سیاسی خاندان سے نسبت کے باوجود انہوں نے سادہ زندگی بسر کی۔ میں ان کا رشتے دار سے زیادہ تعلقدار تھا۔ کھجورلہ میں جن چند شخصیات کے ساتھ میری بے تکلفانہ محفل ہوتی ان میں راجہ شہجہان صاحب سر فہرست تھے۔ میں ہر دفعہ ان سے ملتے وقت از راہ تفنن فارسی کاایک جملہ چی خبر کستا۔ جس کا مطلب ہے تازہ خبر کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ شہجہان خان انٹرنیٹ استعمال نہ کرنے اور زیادہ تروقت گھر میں ہی گزارنے کے باوجود علاقے اور ملکی خبریں رکھتے تھے جس کی بڑی وجہ لوگوں سے معلومات جمع کرنے کا انکا فن تھا جو شاید پولیس افسر ہونے کی وجہ سے حاصل ہوا۔

انکی موت پر ہر خاص و عام دکھی نظر آتا ہے۔ بے شک وہ بڑا بنگلہ اور بنک بیلنس چھوڑ کر نہیں گے لیکن جو دیانتدارانہ کردار چھوڑ کر گے ہیں وہ ہر فرد خاصکر صاحب منصب کے لیے قابل تقلید ہے۔ عقلمند اور خوش نصیب انسان وہی ہے جو دنیا میں کردار چھوڑ جائے اور قبر میں نیکیاں اور لوگوں کی دعائیں لے کر جائے۔ راجہ شاہجہان خان اپنے پیچھے ایک بیوہ ، دو بیٹیاں اور ایک دس سالہ بیٹا چھوڑ کر گے ہیں ۔ انکی بڑی بیٹی کی شادی انکے انتہائی نفیس اور ہمدرد بھتیجے راجہ شاہ نواز خان سے ہو چکی ہے جو ضلعی ایڈمنسٹریشن میں سرکاری ملازم ہیں۔ ان پر اب بھاری اخلاقی زمہ داریاں عائد ہو گئی ہیں۔ شہجہان صاحب کے سسرال نے بھی زندگی کے ہر موڑ پر ان کا ساتھ دیا اور یقینا سب وہ اس پر زیادہ توجہ دیں گے۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*