لاہور: ادارہ برائے سماجی انصاف نے "سیاسی جماعتوں کی ترجیحات اور اقلیتوں کے حقوق” کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس میں حقوق اور آزادیوں کی مساوات کے نفاذ کے لیے بامعنی وعدے کرنے اور ٹھوس منصوبے بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ سیمینار میں سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔ پیٹر جیکب ، تنویر جہاں، سروپ اعجاز ، عرفان مفتی اور اجمل جامی نے انسانی حقوق کے مسائل کو حل کرنے کے لیے موثر اقدامات کے لیے تجاویز دیں۔ جبکہ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں بشمول بیرسٹر عامر حسن (پی پی پی) اور مہندر پال سنگھ (پی ٹی آئی) نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے متعلقہ سیاسی پارٹی کی پالیسی اور اقدامات پر روشنی ڈالی جبکہ کاشف بلوچ نے نظامت کے فرائض سر انجام دئیے۔
اس موقع پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے کیے گئے وعدوں، اقدامات اور کارکردگی کے تجزیے پر مبنی ادارہ "وفاوں کا تقاضہ ہے جاری کی گئی۔ Promises to Keep & Miles to Go برائے سماجی انصاف کی رپورٹ بعنوان” تحقیقی جائزے کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے وعدوں پر مکمل عمل درآمد نہیں کر سکی۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2018 کے انتخابی منشور میں کیے گئے پانچ وعدوں میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا، حالانکہ اس نے دو وعدوں پر جزوی پیش رفت کی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن دس میں سے نو وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے آٹھ میں سے ایک وعدے پر جزوی طور پر عمل کیا۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ تین انتخابی سالوں یعنی 2008، 2013، 2018 کے دوران پارٹیوں کے منشور میں ایک تہائی وعدے مشترک تھے جن میں متروکہ وقف املاک بورڈ میں اقلیتوں کی نمائندگی، اقلیتی کمیشن کا قیام، جبری تبدیلی مذہب کو جرم قرار دینا، نصاب کا جائزہ لینا، ملازمتوں کے کوٹے پر عمل درآمد اور امتیازی قوانین کا جائزہ لینا شامل تھا تاہم ان پر عمل درآمد ہونا ابھی باقی ہے۔
تحقیقی جا ئزہ میں بتایا گیاکہ 2008 اور 2022 کے دوران پنجاب حکومت نے11 پالیسی اقدامات متعارف کروائے جبکہ وفاقی حکومت نے 9 ، بلوچستان حکومت نے 8، خیبر پختونخوا حکومت نے 7 اور سندھ حکومت نے 6 اقدامات اٹھائے۔ پالیسی اقدامات میں مضبوط قانونی بنیاد اورعمل درآمد کا فقدان تھا جو ہمارے انتظامی نظام کی سنجیدگی سے دوبارہ جانچ کی ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔ پالیسی اقدامات نوٹیفیکیشن جاری کرنے پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، جو کہ انتظامی اختیارات کا آسان استعمال ہے جبکہ حکومت کو واضح طور پر مختلف اقدامات میں قانون سازی اور طریقہ کار کے قواعد کی تشکیل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسکالرشپ، عبادت گاہوں، ہنر وغیرہ کے لیے مختص فنڈز کے استعمال کے بارے میں ٹھوس معلومات کو عام نہیں کیا گیا تھا یا نوٹیفیکیشن کی عدم موجودگی کی وجہ سے عمل درآمد میں کمی تھی جس سے پالیسی اقدامات کا مقصد پورا نہیں ہوا۔
ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق شعبہ جاتی نہیں بلکہ پاکستان کی سیاست کا مرکزی مسئلہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں خصوصا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک، عدم رواداری اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات اُٹھائیں۔ لیکن وہ مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے ٹھوس اقدامات متعارف کرانے میں ناکام رہیں، جیسا کہ اقلیتوں کے لیے قومی کمیشن کے قیام،جبری تبدیلی کو جرم قرار دینا کے حوالے سے مسودہ قانون کے معاملہ میں واضح ہوا جنہیں مذہبی قوتوں کے دباؤ کی وجہ سے قومی، پنجاب اور سندھ اسمبلیوں نے نظر انداز کر دیا۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ قابل اعتماد افرادشماری کے انعقاد اور آزادانہ، منصفانہ و شفاف عام انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی قوانین میں اصلاحات کے لیے اتفاق رائے پیدا کریں۔
سروپ اعجاز ایڈووکیٹ نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق پر عمل درآمد کے لیے اقلیتوں کے مسائل کوسیاسی ایجنڈے میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ ادارہ برائے سماجی انصاف کی رپورٹ سیاسی جماعتوں کے منشور کے وعدوں کا بروقت اور جامع تجزیہ ہےجو سیاسی رہنماؤں کو باور کرواتی ہے کہ محروم طبقات کی فیصلہ سازی میں شمولیت اور مذہبی و سماجی رواداری کو فروغ دینا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔
تنویر جہاں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں سیاسی معاملات میں مذہب کا استعمال کر رہی ہیں۔ عوام کے سامنے ایک رجعت پسند ماڈل پیش کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اقلیتوں کے نام پر بنا تھا پھر ہم اپنے وجود کی اصل وجہ کیوں بھول گئے؟ مہندر پال نے کہا کہ پی ٹی آئی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی، پالیسی اور انتظامی اقدامات کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اقلیتوں کو درپیش رکاوٹوں اور چیلنجوں کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے اراکین پارلیمان کو مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے، اور انہیں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بامعنی اقدامات کو متعارف کرانے اور ان کی حمایت کرنی چاہیے۔
بیرسٹر عامر حسن نے کہا کہ ووٹرز کو ایسے سیاستدانوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے جو مذہب کی بنیاد پر انتہا پسندی کی حمایت یا پھیلانے میں ملوث ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قرارداد مقاصد کو دستورِ پاکستان سے خارج کیا جائےاور قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تقریر کو آئین میں شامل کیا جائے۔
عرفان مفتی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو سیاست اور جمہوری نظام میں خواتین، اقلیتوں اور معاشرے کے دیگر کمزور طبقات کی موثر شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ان کی سیاست پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور عوام میں ان کی سیاسی حمایت میں اضافہ ہوگا۔
اجمل جامی نے کہا کہ میڈیا گروپس کو اقلیتی اراکین پارلیمان کو اقلیتوں کے قومی دن یا اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی صورت میں مدعو کرنے کے بجائے سیاسی امور پر باقاعدہ مباحثوں میں بھی شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
ادارہ برائے سماجی انصاف کی رپورٹ کے نتائج درج ذیل ہیں:
الف) حکومت اور اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں بڑی حد تک ناکام رہیں، اور انہوں نے اسلامیات کے متبادل کے طور پر دینی علوم کو شامل کرنے پر جزوی پیش رفت کی۔
ب) منشوروں میں کچھ "منفرد وعدے” بھی شامل تھے مثلاً تعلیمی اداروں میں اقلیتی طلبا کے لیے کوٹہ مختص کرنا،تکفیرکےقوانین کے بداستعمال کو روکنا، قانون ساز اسمبلیوں میں اقلیتی خواتین کی نمائندگی اور آئینی اصلاحات متعارف کروانا۔ ان "منفرد وعدوں” سے واضح ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں خواب دیکھنے کی ہمت بھی کرتی ہیں۔
ج) وعدوں میں ایسے ایشوز بھی شامل ہو گئے جو حقیقی مسائل نہیں متصورہ تھے اور انکا حل غیرمنطقی اورغیرمعقول تھا مثلاً مخصوص نشستوں پربراہ راست انتخابات اور اقلیت کی اصطلاح کو”غیر مسلم” سے تبدیل کرنا۔ غالباً اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں مذہبی آزادی اورشہریوں کے مساوی حقوق سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
د) اگرچہ سیاسی جماعتیں اقلیتوں کو درپیش مسائل سے قدرے آگاہ تو ہیں، وعدے بھی کئے مگر عمل درآمد میں ناکام رہیں۔ من جملہ منشوروں میں کئے گئے وعدے مذہبی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا گہرائی سے احاطہ نہیں کرتے۔
و) گزشتہ تین انتخابی منشوروں میں سماجی و اقتصادی ترقی پر توجہ کم ہوئی ہےاور خیراتی اقدامات پر زیادہ۔
ہ)سیاسی جماعتوں کا انتخابات کے بعد وعدے فراموش کردینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے انتخابی وعدوں کو اہمیت نہیں دیتیں۔ یہ بھی ہوا کہ اقتدار میں آنے والی جماعتوں نے پرانے وعدے وفا کئے بغیرنئے انتخابی منشور میں نئے وعدے شامل کر لئے۔ جویہ ظاہر کرتا ہے کہ مسائل کا سنجیدگی سے جائزہ ہی نہیں لیا گیا۔
ی) سال 2008تا 2022 کے دوران متعارف کروائے گئے پالیسی اقدامات سے ظاہرہوتا ہے کہ حکومت نے قانون سازی کی بجائے انتظامی حکم نامے (نوٹیفیکیشن) جاری کرنے پر زیادہ انحصار کیا۔ لہٰذا پالیسی اقدامات میں نفاذ کے طریقہ کاراورمضبوط قانونی بنیاد کا فقدان تھا۔ اقلیتوں کے لئے ملازمتوں میں کوٹہ کی پالیسی کی ناکامی میں یہ عنصرغالب رہا۔