آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

صحافت اورصحافتی تنظیمیں : قاری محمدعبدالرحیم

صحافت آج کی دنیا سے پہلے بھی دنیا میں موجود تھی،اور صحافت ایک ازلی شعور کا نام ہے،جو کسی انسان کو فطری طور پر عطاہوتا ہے،باقاعدہ پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کے وجود سے پہلے بھی فطری صحافی شاعری اور آفسانہ نویسی کی صورت میں صحافت کرتے تھے، انہیں شاعر، آفسانہ نویس،اور جگت بازبھی کہتے تھے کہ وہ لوگ جگت کے ذریعے زمانے کے حالات وواقعات لوگوں تک پہنچاتے تھے، کہتے ہیں رنجیت سنگھ والیءِ پنجاب ایک آنکھ سے کانا تھا، لیکن کوئی اس کو کا ناکہے تووہ اسے مروادیتا تھا، کسی میں یہ جرات نہیں تھی کہ اسے دربار میں کانا کہہ کر بات کرسکے، توکسی نے کسی میراثی سے کہا کہ تم بڑے جگت باز ہو ہر ایک کو جو بات اسے ناپسند ہے،وہ بھی ہنساتے ہوے کہہ دیتے ہو، تمہیں اتنا نعام دوں گا کہ تم رنجیت سنگھ کو دربار میں ایک بار کانا کہہ دواس نے کہا میں ایک بار نہیں کئی بار کہوں گا لیکن وہ برا نہیں مانے گا، انعام تیاررکھو، میراثی رنجیت سنگھ کا درباری میراثی تھا، وہ بادشاہ کو بتائے بغیر کئی دن دربار سے غیر حاضررہا، جو بذاتِ خود ایک جرم تھا، لیکن میراثی ایک دن لگے ہوے دربارمیں آن حاضرہوا،رنجیت سنگھ نے اسے غصے سے پوچھا اوئے فلاں تم اتنے دن کدھررہے ہو، تو میراثی نے کہا حضور جان کی آمان ہوتو عرض کردوں،اورروہانسا منہ بنا لیا، رنجیت سنگھ نے اور جلال سے کہا کیا بات ہے بے دریغ بتاو، کسی نے کچھ کہا ہے،یا تمہیں روکا ہے، بتاو اس نے کہا حضور میں آپ کے سسرال میں گیا ہواتھا،اورپھرخاموش ہوگیا، تو رنجیت سنگھ نے ہنستے ہوے کہا تو پھر کیا ہوا، اس نے کہا حضور آپ کی وہ سالی ہے نا، اس نے بڑی زیادتی کی ہے، رنجیت سنگھ اور خوش ہوا اور کہا”او کی کہندی سی“، تو میراثی نے کہا حضور مجھے زیب نہیں دیتا کہ میں وہ کہوں، وہ بڑی بدتمیزہے جی، رنجیت سنگھ نے کہا ”دس وی اوہ کی کہندی سی“، تو میراثی نے کہا حضورر وہ کہتی تھی،”رنجیت سنگھ کانے دا کی حال سی اوئے“، تے سرکارمیں نے اسے کہا، رنجیت سنگھ کانا نہ کہہ کاکی، وہ بولی میں سوبار کہوں گی رنجیت سنگھ کانا رنجیت سنگھ کانا۔۔۔۔ اوررنجیت سنگھ ہنسے جارہا تھا۔ اورکہتا جارہا تھا ”ہورمیری سالی کی کہندی سی“،۔لیکن وہ میراثی نہ بی اے تھا ناجرنلزم میں ایم اے تھا،لیکن وہ صحافت کا ازلی شعور رکھتا تھا۔ ہندوستان کے اندر ذات پات کا تصور بھی اسی شعوری تربیت کی بنا پر رکھا گیا لیکن انسان چونکہ شیطان کے نرغے میں ہے، تو شیطانی کنٹرول نے اس شعبائی شعور کو اونچ اورنیچ میں بدل دیا،اس طرح باشعور انسان کمی کمین بن گئے اور طاقت کے بل بوتے والے اعلی ذات وراجے مہاراجے بن گئے،اوریہ سلسلہ صدیوں ایسے ہی چلتا رہا، کہ لوگوں کے جین میں کمی اور اعلی نسلی گھس گئی،اوریہی اونچ نیچ دیوتائی روپ دھار گئی، اورشرک پھیل گیا، اسلام کی آمد کے بعد ہندوستان میں کچھ مسلم لوگوں نے ذات پات سے نکل کر انسانیت کا درس دینا شروع کیا تو اکثر کمی ذات کے لوگوں نے اسے اپنا نجات دہندہ جان کر اسلام کے دامن میں پناہ لینا شروع کردی، اسلام کے بڑھنے کے ساتھ ہندوستان کے اونچی ذات کے لوگوں میں ایک ہل چل مچ گئی، اوروہ اسلام کے خلاف صف آرا ہوگئے، اسلام کے پھیلانے میں بھی ایک صحافت نے اپناکردار ادا کیا، وہ صوفیاء کی صحافت تھی، جنہوں نے اپنا پیغام شعر شاعری کے ذریعے پہنچایا، اسلام کو ان صوفی شعراکی صحافت نے ہر انسان کے دل ودماغ تک پہنچادیا، سلسلہ چشتیہ میں قوالی بھی ایک صحافت تھی جس نے، سازوں کے ساتھ عبادت کرنے والے ہندووں کو اپنے اسلامی پیغام سے آگاہ کیا، لہذاہروہ کام جس سے انسانی شعور کو بیدار کیا جائے وہ صحافت کہلاتا ہے، لیکن ہمارے ملک یعنی پاکستان کے اندر ایک عجیب تماشہ ہے،کہ یہاں سب کچھ ہی تعلیم کی بنیاد پر چل رہا ہے جبکہ ہماری تعلیم صرف ایک لگی بندھی چیز ہے، جس کو انگریز نے اپنے ملازم بنانے کے لیے ہندوستان میں اپنے نصاب کے تحت رائج کیا تھا،۔علاوہ اس کے تعلیم کوئی بھی ہو وہ شعور کے لیے ایک آنکھ کی حیثیت رکھتی ہے جب کسی کو شعور نہ ہوتو اسے آنکھ صحیح اور غلط نہیں دکھاسکتی، لہذاجن میں فطری شعور برائی اور بھلائی نہیں انہیں کوئی تعلیم بھی نہ برائی سے بچاسکتی ہے نا بھلائی کی راہ چلاسکتی ہے۔پاکستان میں میڈیا ایک کاروبار ہے، اس کی بنیاد پر ہر پیسے والا کوئی اخبار یا ریڈیو یا ٹی وی چینل چلائے ہوے ہے، اورپھر اس کاروبار کے سائے میں کئی قسم کے کاروبار چلا رہا ہے، تعلیم کا زور ہونے کی وجہ سے بے روزگاری اور لاقانونیت کی یلغار میں لوگ جو صحیح ہیں وہ اپنی عزت بچانے کے لیے، اورجوشریر ہیں وہ اپنی بدی کو بلیک میلنگ کے ذریعے چلائے رکھنے کے لیے،کسی نہ کسی صحافتی رشتے سے جڑے ہوے ہیں، عالمی قوانین کے مطابق صحافت آزاد، بے لوث اور ملک وقوم کی بھلائی کے لیے ریاست کا چوتھا ستون کہلاتی ہے، لیکن آج ہم صحافت کے ذریعے ملک وقوم کی بھلائی کے کتنے کام کررہے ہیں، ہمارے اخبار، ہمارے آزاد ریڈیو ٹی وی، اور اس صدی کا سب سے بڑا نیٹ ورک سوشل میڈیا کیا ان میں سے کسی پربھی قومی اور ملکی مفاد کاکوئی کام ہورہا ہے،؟پہلے تورجسٹرڈ ادارے اخبارات وٹی وی وغیرہ یا ان کے اینکرز اپنے رزق روزی کے لیے اس صنعت سے وابستہ تھے، اب انگریزوں نے سوشل میڈیا پر بھی یہ سہولت دے دی ہے کہ لوگ جھوٹ وسچ جو چاہے چلائیں اوران کے فالوورز کے مطابق انہیں وہ رقم دیتے ہیں۔ اب کوئی بندہ یہ کہے کہ وہ صحافت کررہا ہے کہتا اچھا نہیں لگتا، کہ وہ تو کاروبار کررہا ہے، ہمارے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صحافت پیغمبرانہ پیشہ ہے،کہ پیغمبروں پر جو پیغام اترے انہیں صحیفے کہا جاتا ہے،لیکن کیا پیغمبروں نے پیغام پہنچانے کالوگوں سے یا کسی کمپنی سے معاوضہ لیاتھا؟ہرگزنہیں۔پاکستان جس طرح ہر معاملے میں یورپ اور امریکہ کی نقل میں لگا ہوا ہے ایسے ہی صحافت کے لیے قانون بھی انہیں ملکوں سے درآمدکئیے ہوے ہیں، لیکن جس طرح اس میں باقی قوانین کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں ایسے ہی صحافت کے قانون کی بھی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں، کہیں صحافیوں کو بدمعاش اور وڈیرے مار پیٹ رہے ہوتے ہیں، کہیں وہ کسی نامعلوم دہشت گردی کا شکار بن جاتے ہیں۔،اوربڑاالمیہ یہ ہے کہ صحافتی تنظیمیں کسی کمزور بے آسرا صحافی پرتشدد اورقتل کو مزمت تک محدود کرکے خاموش ہوجاتی ہیں اورجس کے پیچھے کوئی بڑی طاقت ہو اس کا سوگ کئی کئی ماہ مناتے رہتے ہیں،جبکہ تنظیموں کو یہ چاہیے کہ وہ علاقائی بدمعاشی اور دہشت گردی کا اس وقت تک پیچھا کریں کہ جب تک مجرم کیفرکردارکو نہ پہنچ جائیں، پھرسرکاری دباوکے خلاف صف آرا ہوں، لیکن چونکہ کاروبار کے اپنے قانون وضابطے ہوتے ہیں،جہاں کاروبار پرکساد آتا ہووہاں سرمائیہ دار پیسہ نہیں لگا تا۔ آئیے آزاد کشمیر، دنیا کاواحدملک ہے جہاں پریس فاونڈیشن ہے،نہ جانے کس وجہ سے اس ادارے کو بنایا گیا،لیکن ایک عجیب بات یہ ہے کہ ادارہ اپنے ممبربنانے کے لیے جو شرائط رکھتا ہے وہ قابلِ غور ہیں،تعلیم کم از کم بی اے، عمرکی حد پنتالیس سال،صحافتی تجربہ کم ازکم تین سال، صحافت کے علاوہ صحافی کاکوئی اور ذریعہ آمدن نہ ہو، اب آپ ہی بتائیں کہ یہ کوئی فرم ہے، یا صحافیوں کی فلاح وبہبود کا ادارہ؟۔اورپھر اصل صحافی تو خبریا تجزیہ لکھنے والے ہوتے ہیں نا کہ اخباروں کے مالک، اورہمارے اس ادارے کے ممبران اکثر آزاد کشمیرکے اخباروں کے مالک ہیں، یعنی پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں شعور کی سرپرستی کی توفیق دے کاروبار کی نہیں۔وماعلی الالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*