مشکل دور کے ایک اور ساتھی عظمت خان : قیوم راجہ

مشکل دور کے ایک اور ساتھی عظمت خان : قیوم راجہ

گزشتہ مئی سے ہر دو ہفتے بعد سرینگر کلینک میرپور کے ڈاکٹر امجد انصاری صاحب میرے پائوں اور ٹانگوں کا اکوپنکچر کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں اب میں چھڑی کے بغیر چل سکتا ہوں ۔ ڈاکٹر امجد انصاری صاحب ، انکے اسسٹنٹ محمد شفیق صاحب اور سٹاف اپنی پیشہ وارانہ زمہ داریوں سے بڑھ کر میرا خیال رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزا خیر دے۔ علاج ابھی جاری ہے۔ سرینگر کلینک پر میں علاج مکمل ہونے کے بعد لکھوں گا۔ آج سرینگر کلینک پر ملاقات کرنے والے اپنے ایک دیرینہ تحریکی ساتھی پروفیسر عظمت خان کے بارے کچھ لکھوں گا ۔ وہ یو کے سے میرپور اپنے خاندان کو ملنے آئے جہاں سے وہ میری تیمارداری کے لیے کھوئی رٹہ آنے کا پروگرام بنا رہے تھے کہ میں نے انہیں کہا کہ میں اکوپنکچر کے سیشن کے لیے میرپور ا رہا ہوں تو وہ مجھ سے پہلے ہی سرینگر کلینک پہنچ گے۔

پروفیسر عظمت خان مجھے پہلی بار 1985 میں اس وقت ملے جب میں بھارتی سفارتکار مہاترے کیس میں برطانیہ کی فرینکلینڈ جیل میں خفیہ سزا بھگت رہا تھا۔ اس کیس میں ریاض ملک بھی خفیہ عمر قید بھگت رہا تھا جبکہ صدیق بھٹی 18 سال کی کچی سزا بھگت رہا تھا ۔ ہم تینوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھا گیا تھا۔

سزائوں کے حوالے سے سب سے پیچیدہ مسلہ ریاض ملک اور میرا تھا۔ جج نے ہم دونوں کی فائل وزیر داخلہ کے حوالے کر دی تھی جو ہماری سزائوں پر جج کے فیصلے کا اعلان نہیں کر رہا تھا۔ یہ برطانوی عدلیہ کی تاریخ کا ایک سیاہ باب تھا جہاں عدلیہ ایگزیکٹو سے آزاد تصور کی جاتی ہے مگر جج نے ہماری فائل وزیر داخلہ کے حوالے کر دی۔ لبریشن فرنٹ کے اس وقت کے چیئرمین امان اللہ خان کے ساتھ اس سوال پر میرے اختلاف ہو گے کہ اگر مہاترے کو مقبول بٹ کو پھانسی کے پھندے سے بچانے کےلیے پکڑا گیا تھا تو پھر تین دن بعد اسے کیوں قتل کروا دیا گیا اور وہ بھی ہمیں اندھیرے میں رکھ کر۔ امان اللہ خان اس سوال پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھے تو میں نے لبریشن فرنٹ کی سینٹرل کمیٹی سے باقاعدہ شکایت کر دی۔ قاتل اور مہاترے کو اغوا کرنے والے بھاگ گے تھے۔ اب سارا سیاسی اور قانونی بوجھ ریاض ملک اور مجھ پر آ پڑا تھا۔ ہمارے سامنے اب سوال تھا کہ ہم خود کو بچائیں یا جماعت اور ساتھیوں کو۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے جماعت کو بچایا مگر اب امان اللہ خان اور انکے چند خوف زدہ ساتھیوں کی کوشش تھی کہ ریاض اور قیوم کی فائل بند ہو جائے تاکہ وہ دوبارہ زیر بحث نہ ائیں۔ میرے ذاتی تجربہ کے مطابق یاسین ملک نے تو لیگل پینل کی خدمات مسترد کر کے خود اپنے ان ساتھیوں کے ہاتھ باندھ دیے ہیں جو قومی اور عالمی سطح پر انکی سیاسی، قانونی اور سفارتی مدد کرنا چاہتے ہیں ۔
یاسین ملک کے بارے عالمی سطح پر یہ تاثر قائم ہو گیا ہے کہ انہوں نے عدالت میں اپنا دفاع نہ کر کے اقبال جرم کر لیا ہے جبکہ ہمیں امان اللہ خان کہہ رہے تھے کہ اقبال جرم کر لو۔ اس طرح جج کا رویہ نرم ہو جائے گا اور وہ ہمیں کم سزا دے گا۔ صدیق بھٹی پر صرف اغوا کا الزام تھا جسکی سزا اسوقت بارہ سال تک بنتی تھی مگر امان اللہ خان کے مشورے پر اقبال جرم کرنے کے باوجود صدیق کو طویل ترین 18 سال سزا دی گئی۔ ریاض پر قتل اور مہاترے کو غیر قانونی قید رکھنے کا الزام تھا جبکہ مجھ پر چار الزامات تھے جن میں قتل بھی شامل تھا۔ امان اللہ کا مشورہ جب میں نے مسترد کیا تو انہوں نے جارج جونس نامی ایک جز وقتی مجسٹریٹ بطور وکیل میرے کیس کی پیروی کے لیے میرے پاس بھیجا۔ اس نے بھی مجھے اقبال جرم کا مشورہ دیا۔ میں نے اسے بھی بر طرف کیا تو جج نے مجھے کہا کہ آپ بار بار وکیل بر طرف نہیں کر سکتے کیونکہ آپ کے وکیل خیراتی ہیں۔ میں نے کہا اگر وکیل میرے نام پر ریاست سے خیرات لیں گے تو پھر انہیں میری ہدایات پر چلنا ہو گا۔ جج نے کہا ٹھیک ہے میں جارج جو نس کو فارغ کرتا ہوں۔ اب آپ کی پیروی کون کرے گا ۔ میں نے کہا میں خود کروں گا۔ عدالت اور حکومت کو خطرہ تھا کہ میں عدالت کو سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کروں گا جسکی وجہ سے ٹرائل شروع ہونے سے دو ہفتے قبل ایک سرکاری خط میرے سیل کے بند دروازے سے اندر پھیکا گیا تھا جس میں لکھا تھا کہ میں اپنی مرضی کا خیراتی وکیل کر سکتا ہوں۔ میں نے ائرشوں کے کیسوں میں شہرت پانے والی ایک خاتون وکیل گیرتھ پئیرس کو وکیل مقرر کیا جس نے بحث کے لیے ہائوس آف لارڈز کے ایک سخت گیر رکن بیرسٹر ٹونی گیفورڈ کیوسی کا انتخاب کیا۔ یاد رہے برطانیہ میں وکیل کیس تیار کرتا ہے اور کیوسی بحث کرتا ہے۔

سماعت کے بعد ریاض اور میری فائل جج برسٹو نے وزیر داخلہ کے حوالے کرنے کا اعلان کر کے ہمیں جیل بھیج دیا ۔ امان اللہ خان نے پریس میں اعلان کیا کہ ہماری سزائوں کے خلاف اپیل کی جائے گی مگر کیا کچھ نہیں۔ میں نے چیف جسٹس کو خط لکھا کہ سزا کا فیصلہ سنائے بغیر ہمیں جیل بھیج دینا انصاف کے منافی ہے۔ چیف جسٹس کی ہدایات پر جب ہم نے ہائی کورٹ میں رٹ کی تو کشمیری کمیونٹی کو اندازہ ہوا کہ ہمارے کیس کے حوالے سے ہماری جماعت کے کچھ مخصوص لوگ اور پاکستان ہائی کمیشن کمیونٹی کو گمراہ کرتے رہے۔

ان حالات میں لبریشن فرنٹ برطانیہ کے سنئیر اور متحرک رہنماؤں میں سے عظمت خان کے علاؤہ لبریشن فرنٹ کے کسی ایسے آدمی کا ہمارے ساتھ رابطہ نہیں تھا جس کو ہم سیاسی مہم قائم کرنے کا مشورہ دے سکیں۔ لبریشن فرنٹ کی قیادت بھی اس کام کے لیے عظمت خان کی حمایت کرنے کے لیے تیا نہ تھی مگر عظمت خان خود ہمارے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے تھے۔ لبریشن فرنٹ سے ھٹ کر جو لوگ کشمیریت اور انسانیت کی بنیاد پر میرے ساتھ مسلسل ملاقاتیں کیا کرتے تھے ان میں حاجی آفتاب انصاری صاحب، محمد یونس تریابی صاحب اور تحریک کشمیر کے اسوقت کے صدر محمد غالب صاحب تھے۔ ان تینوں کو میں نے کہا کہ لیگل محاز مجھ تک رہنے دیں اور آپ سیاسی مہم کے قیام کے لیے اجلاس بلائیں۔ ان تینوں نے برمنگھم میں اجلاس بلایا جس میں میرے وکیل مارک فلپس کے علاؤہ متعدد کشمیری پارٹیوں کے نمائندوں کے علاؤہ عظمت خان اور موجودہ جے کے ٹی وی کے شمس رحمن تھے۔ شمس رحمن کی تجویز پر مہم کا نام "فراق” رکھا گیا جو فری ریاض اینڈ قیوم کا مخفف تھا۔ میرے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنے والے یونس تریابی صاحب، حاجی آفتاب انصاری صاحب اور محمد غالب صاحب کی اعلی ظرفی دیکھیئے کہ ان میں سے خود کسی نے کو اردینیٹر بننے کے بجائے عظمت خان کو فراق کا پہلا کو ارڈینیٹر منتخب کروا دیا ۔ اگر میری یاد داشت درست ہے تو فرنٹ کے محصوم انصاری اور ناظم بھٹی بھی اجلاس میں موجود تھے۔ صحافی اسلم لون بھی غالبا اجلاس میں موجود تھے اور بعد میں تو دوست کہا کرتے تھے کہ فراق واحد خوش نصیب مہم ہے جس میں اسلم لون کبھی شامل ہوئے ہیں۔

عظمت خان نے اپنی ذاتی صلاحیتوں کے بل بوتے پر فراق مہم کو برطانوی وزارت داخلہ وخارجہ سے بھی اس لحاظ سے تسلیم کروا لیا کہ وزارت خارجہ و داخلہ اب فراق کو کشمیری کمیونٹی کی ایک ایسی طاقتور سیاسی مہم تصور کرنے لگی تھی جس کے سوالوں کو نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ عظمت خان کے پاس قلم اور ٹیکنالوجی کے بھرپور استعمال کی صلاحیت تھی جس کے نتیجے میں انسانی حقوق کے اداروں اور پارلیمنٹیرینز کو بھی فراق میں شامل کروا لیا۔ لبریشن فرنٹ کی قیادت پر دبائو بڑھنے لگا کہ وہ اپنے کارکنوں کی رہائی کے لیے کچھ کیوں نہیں کرتی تو اس نے کہا فراق کا سربراہ عظمت خان ہمارا ہی تو کارکن ہے۔ یہ دو رنگی مجھے پسند تھی نہ فراق کو۔ اس لیے میں نے فراق کو کہا کہ وہ عظمت خان سے درخواست کریں کہ کچھ عرصہ کے لیے وہ یہ زمہ داری کسی اور جماعت کے رکن کو دے دیں۔ پھر ہم دیکھتے ہیں لبریشن فرنٹ کی قیادت کہاں کھڑی ہے؟ عظمت خان نے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ زمہ داری اسلم لون صاحب کے حوالے کرنے پر اتفاق کر لیا مگر ہمارے ساتھ انکی رفاقت اور ہمدردی میں کوئی فرق نہ آیا۔ یہ اسی سچی رفاقت ، خلوص ، ہمدردی اور باہمی احترام کا نتیجہ ہے کہ چالیس سال گزر جانے کے باوجود آج بھی ہمارا تعلق اسی طرح مضبوط ہے حالانکہ وہ برطانیہ میں ہیں اور میں پچھلے سترہ برسوں سے آزاد کشمیر میں ہوں۔ فراق کی جد و جہد نے ثابت کیا تھا کہ اگر کشمیری سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر متحد ہو جائیں تو ہماری رہائی جو ایک وقت میں خواب لگتا تھا ممکن ہو سکتی ہے۔ مسلہ کشمیر کے لیے بھی اگر ہم گروہی اور خود غرضانہ سیاست چھوڑ کر اور انا کو دفن کر کے متحد ہو جائیں تو ریاست جموں کشمیر بارے قابضین جو جی چائیں قانون سازی کرتے رہیں وہ ہمیں آزادی سے نہیں روک سکتے۔ اتحاد قانون سازی سے نہیں دل جڑنے سے ہوا کرتے ہیں اور کوئی قابض یکطرفہ قانون سازی سے ریاستی عوام کے دل نہیں جیت سکتا۔ موجودہ حالات کے تناظر میں بعض تجزیہ نگار جموں کشمیر کی وحدت کی بحالی کو ایک خواب تصور کرنے لگے ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ اگر یہ خواب پورا نہ ہوا تو مسلہ کشمیر پاک-بھادت کو لے ڈوبے گا۔ برطانیہ نے یہ مسلہ اسی لیے پیدا کیا تھا کہ اس کے یہ دو نو زائیدہ بچے تاقیامت آپس میں لڑتے رہیں اور اسکا اسلحہ بکتا رہے۔ وقت ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دانشمندی کا مظاہرہ کر کے اپنی اپنی افواج جموں کشمیر سے نکال کر اپنی معیشت پر توجہ دیں۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*