افضل گورو: بھارتی ریاستی سازش اور کاروباری کشمیریوں کا شکار انسان

تحریر: قیوم راجہ

بھارتی مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے حریت پسند افضل گورو کو بھارت نے 9 فروری 2013 کو پھانسی دے کر تہاڑ جیل میں دفن کر دیا تھا۔ اس سے قبل جموں کشمیر تحریک کے قائد مقبول بٹ شہید کو بھی بھارت نے 11 فروری 1984 کو پھانسی دے کر جیل کے اندر دفن کر دیا تھا۔ قوم ان دونوں کے جسد خاکی کی واپسی کا مطالبہ کرتی ہے لیکن خود ساختہ لیڈرز صرف انکی برسیوں پر مطالبہ دہرا کر اگلی برسی تک مست نیند سو جاتے ہیں۔ جسد خاکی کی واپسی کے لیے ابھی تک کوئی منظم تحریک نہیں چلائی گئی۔ اسوقت یاسین ملک اور شبیر شاہ سمیت جتنے بھی کشمیری بھارت میں قید ہیں ان کی رہائی کے لیے ہم اندرون و بیرون ملک کوئی منظم مہم نہیں چلا سکے۔ مقبول بٹ کی قید کے وقت تو حریت کانفرنس کا کوئی وجود نہ تھا لیکن افضل گورو کی گرفتاری کے وقت تو حریت کانفرنس جوبن پر تھی مگر رہائی کے فرضی مطالبات کے علاؤہ وکیل تک نہ کیا گیا۔

افضل گورو پر 13 دسمبر 2001 کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ اس بارے بے شمار کہانیاں گھڑی گئیں لیکن بھارت کی انسانی حقوق کی ایک نامور وکیل ناندتا حکسار نے "The Many Faces of Kashmiri Nationalism” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔ اس کتاب میں مصنفہ افضل گورو کو بھارتی ریاستی سازش کا شکار کشمیری قرار دیتی ہے۔

ناندتا حکسار کا الزام ہے کہ جموں کشمیر کی پولیس نے افضل گورو کو کہا کہ وہ عسکریت پسندوں کے بارے معلومات دے۔ افضل گورو کسی تنظیم کا رکن نہیں تھا اور نہ ہی وہ ایک ایسا بے ضمیر اور خود غرض انسان تھا جو ذاتی مفاد کے لیے مخبری پر تیار ہو جاتا۔ ناندتا کے مطابق وہ آزاد کشمیر میں ایا تو تھا مگر اس دورے نے اسے مایوس کیا۔ یہاں ا کر اسے اندازہ ہوا کہ پاکستان کی حکومت بھی جموں کشمیر کی آزادی کے لیے مخلص نہیں ہے۔ واپس جا کر افضل گورو نے اپنی والدہ کے اصرار پر ایک فیملی مین بننے کا فیصلہ کیا۔ اس نے تبسم نامی اپنی زندہ دل خالہ زاد کے ساتھ شادی کی۔ افضل ابھی چھوٹا تھا کہ اس کے والد فوت ہو گے تھے اور وہ گھر کے کام کاج میں اپنی والدہ کی مدد کیا کرتا تھا ، یہاں تک برتن بھی دھویا کرتا تھا۔ افضل گورو نے نیو دہلی سے گریجویشن کی۔ وہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی مشاورتی کونسل کے رکن ڈاکٹر عبدالحد گورو کا بھتیجا تھا۔ ڈاکٹر گورو ایک نامور کارڈیالوجسٹ تھے جنہیں قتل کر دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انکے تین مخالفین تھے۔ بھارتی فوج، پاکستان نواز حزب المجائدین اور انکی اپنی تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے اندر حاسدوں کا ایک گروپ ۔ قاتل جو بھی تھا، ڈاکٹر گورو کا قتل ایک بہت بڑا ناقابل تلافی قومی نقصان تھا۔ مصنفہ کے مطابق افضل گورو کو جموں کشمیر کی پولیس بہت تنگ کرنے لگی ۔

افضل گورو نے گزر اوقات کے لیے سرینگر میں دوکان کھولی۔ وہ یہ سوچ کر بارہ مولہ کے ایک گاؤں سے سرینگر آیا تھا کہ شاید یہاں اسے تنگ نہ کیا جائے مگر ایک دن ارشاد محمود غدار نے پولیس کو اطلاع دی کہ افضل گورو کے عسکری تنظیموں کے ساتھ تعلقات ییں۔ پولیس اسے دوکان سے گھسیٹ کر سپیشل ٹاسک فورس کے کیمپ میں لے گئی جہاں ڈی ایس پی وجے کمار نے اس پر سخت تشدد کیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ پولیس کو افضل کی بے گناہی کا اندازہ ہو گیا تھا، اسے سپیشل ٹاسک فورس کے ایک دوسرے کیمپ ہمحانا میں لے جایا گیا جہاں ڈی ایس پی دوندر سنگھ نے اسے اقبال جرم کا حکم دیا۔ انکاری پر افضل گورو پر انتہائی غیر انسانی تشدد کیا گیا۔ وہاں اسے طارق نامی ایک قیدی ملا جس نے اس کو مشورہ دیا کہ تشدد سے بچنے کے لیے اقبال جرم کر لو۔ افضل گورو نے انکار کیا مگر اس وقت ہتھیار ڈال دیے جب اس کے چھوٹے بھائی کو گرفتار کیا گیا۔ افضل گورو نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بھائی پھی اسی ظلم کا شکار ہو جسکا وہ خود ہوا۔ ڈی ایس پی دوندر نے اسکو کو کہا کہ وہ محمد نامی کشمیری کے ساتھ دیلی جائے اور اسے ایک کمرہ کرایہ پر لے کر دے۔ افضل گورو اس وقت چوکنا ہو گیا جب اسے محسوس ہوا کہ محمد کشمیری نہیں بول سکتا۔ طارق جو افضل گورو کو تشدد سے جان بچانے کا مشورہ دے رہا تھا وہ غازی بابا اور مسعود اظہر کے ساتھ پارلیمنٹ پر حملے کی چارج شیٹ میں شامل تھا۔ مصنفہ کے مطابق بھائی کی جان بچانے کے لیے اس نے پریس کانفرنس میں جرم تو تسلیم کیا تھا لیکن عدالت میں اسے اپنے دفاع میں بیان دینے کا موقع نہ دیا گیا۔ افضل گورو کی اہلیہ نے اپنے خاوند کو بچانے کے لیے اپنا زیور اور افضل گورو کا موٹر سائیکل بھی بیچ دیا لیکن اس بے گناہ کو پھر بھی پھانسی دے دی گئی۔ تحریک کی نمائندگی کی جھوٹی دعویدار حریت کانفرنس کسی بھی مقام پر افضل گورو کی قانونی جنگ میں مدد نہ کر سکی جسکی وجہ سے اس کی اہلیہ کو اپنا زیور فروخت کرنا پڑا جو کسی بھی خاتون کے لیے ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری تحریک کو کاروباری اور نمود و نمائش کے اسیروں سے بچانے میں اس بد نصیب ریاست کے اصل محافظوں کی مدد فرمائے۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*