کھیل اپنا /اپنا اور مقدر اپنا/اپنا : قیوم راجہ

کھیل اپنا /اپنا اور مقدر اپنا/اپنا : قیوم راجہ

تحریر: قیوم راجہ

1997 میں آج کے دن ہمارے سب سے بڑے بھائی نزیر راجہ صاحب اس عارضی دنیا سے 54 سال کی عمر میں چل بسے تھے۔ میں اس وقت جیل میں تھا۔ ان دنوں میرے ملاقاتی میرے ساتھ جیل میں تصویر نہیں بنوا سکتے تھے۔ والدہ اور بھائی جب مجھے ملنے گے تو برطانیہ کے ایڈنمبرا شہر میں مقیم ڈاکٹر شبیر حسین انکے میزبان تھے۔ ڈاکٹر شبیر حسین کا آبائی تعلق تحصیل ڈڈیال کے شہر رٹہ سے ہے۔ وہ بچپن میں ہی برطانیہ چلے گے تھے جہاں وہ ڈینٹل سرجن کے طور پر پریکٹس کرتے تھے۔ میں انہیں نہیں جانتا تھا۔ صرف حب الوطنی کے جذبے کے تحت انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا تھا جو اج بھی قائم ہے۔ رٹہ انتہائی خوبصورت ٹائون ہے۔ حال ہی میں ڈاکٹر شبیر حسین صاحب نے یہ تصویر مجھے بھیجی جو مجھے پہلی بار دیکھنے کا موقع ملا تو سوچا یہ تصویر اور بھائی اور والدہ کے ساتھ اس ملاقات سے جڑی چند یادیں آج بھائی صاحب کے یوم وفات کے موقع پر قارئین کے ساتھ شئیر کر دوں۔

برطانوی جیلوں میں قیدیوں پر ایسے ایسے تجربات کیے جاتے ہیں جنہیں عام آدمی آسانی سے سمجھ ہی نہیں سکتا۔ ترقی یافتہ ممالک کے ماہرین نفسیات اور سوشیالوجسٹ گائے بگائے انسانوں پر تجربات کرتے رہتے ہیں۔ بعض تجربات سبجیکٹ کے لیے تکلیف دہ ہوتے ہیں جسکی وجہ سے آزاد دنیا میں لوگ ان میں حصہ نہیں لیتے اسلیے محققین کے لیے جیل جیسی کنٹرولڈ دنیا تحقیق کے لیے آئیڈیل ہوتی ہے۔ ماہرین نفسیات جب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس عمل سے انسان کا کیا رد عمل ہو گا تو وہ مختلف ماحول اور انداز میں اسے آزمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس انسان کے اندر سیلف کنٹرول کی قوت زیادہ پائی جاتی ہو اسے جیل میں غصہ دلانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ وہ کس ماحول میں کہاں تک جا سکتا ہے۔ دوسرا اس کے پاس دفاع اور مزاحمت کے کتنے اور کیسے وسائل اور مددگار موجود ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ صبر کی قوت کا شکر گزار ہوں اس لیے جیل کی دنیا میں میرے صبر کا امتحان بھی بہت ازیت ناک ہوا کرتا تھا۔ صبر کے امتحان میں اکثر جیت میری ہوا کرتی تھی جسکی وجہ سے ناکامی کی صورت میں جیل انتظامیہ مجھے اور میرے صبر کو آزمانے کے نت نئے طریقے ایجاد کرتے رہتے تھے۔ امتحانات اور تجربات کی فہرست بہت طویل ہے لیکن میں صرف والدہ صاحبہ اور بھائی صاحب کی ملاقات کے حوالے سے کھیلے جانے والے کھیل اور نفسیاتی جنگ کا تزکرہ کروں گا۔

جیل گورنر گیاراں بجے کے قریب وارڈز کا چکر لگایا کرتا تھا۔ سیکورٹی اس کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔ میرے خطوط سنسر ہوا کرتے تھے۔ گورنر کو معلوم تھا میری والدہ ملاقات کے لیے آ رہی ہیں۔ گیاراں بجے ہماری نصف گھنٹہ جہل قدمی کا بھی وقت ہوا کرتا تھا۔ گورنر نے میرے پاس سے گزرتے ہوئے کہا ” آپ ایک ماڈل قیدی ہیں۔ آپ نے کبھی مجھ سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ کاش میں آپ کے لیے کچھ کر سکوں۔” میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا آپ ایک کام تو ضرور کر سکتے ہیں۔ گورنر نے پوچھا وہ کیا تو میں نے کہا میری والدہ کشمیر سے ملاقات کے لیے تشریف لا رہی ہیں۔ گورنر نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ” او یہ تو بہت اچھی خوش خبری ہے ” میں نے کہا جی ہاں لیکن کتنا اچھا ہو گا اگر آپ مجھے لوٹن یا برمنگھم کی کسی جیل میں منتقل کر دیں جہاں میرے دوست میری والدہ کو آسانی سے ملاقات کے لیے لاسکتے ہیں۔ والدہ ضعیف ہیں وہ لوٹن اپنے رشہ داروں کے پاس قیام کریں گی۔ لوٹن سے ہر روز ملاقات کے لیے چار گھنٹے آنے اور چار گھنٹے واپسی کا سفر پھر دو گھنٹے ملاقات اور جیل سیکورٹی کے عمل سے گزرنا بہت تکلیف دہ ہے۔ اس لیے اگر میں لوٹن کے قریب چلا گیا تو والدہ اس ازیت سے بچ جائیں گی۔ گورنر نے کہا یہ تو کوئی مسلہ ہی نہیں۔ جب آپکی والدہ اسلام آباد سے فلائی کرنے والی ہوں گی تو مجھے بتا دینا میں آپکو ادھر بھیج دوں گا البتہ آپ درخواست ابھی دے دیں اور اس میں والدہ کی آمد کا شیڈول لکھ دیں۔ میں نے درخواست دے دی جب والدہ کی سیٹ ہو گئی تو میں نے گورنر کو اس کا وعدہ یاد دلایا۔ والدہ لوٹن بھی پہنچ آئیں مگر مجھے کوئی جواب نہ ملا۔ جب میں نے پیچھا کیا ہوا تو ہوم آفس کی طرف سے ایک یک فقرہ خط ملا جس میں لکھا تھا:
"It is not operationally possible to move you .”

یہ ایک اشتعال انگیز جواب تھا۔ اس کی وجہ والدہ کے ساتھ میری ملاقات کی خوشی کو ازیت میں بدلنا اور غصہ دلانے کے علاؤہ کچھ نہ تھا۔ کیٹیگری اے قیدی کی حیثیت سے مجھ پر اضافی سیکورٹی تھی۔ میں نے گتے کا ایک بیج بنا کر اپنی چھاتی پر لگا دیا جس پر لکھا تھا: "No communication with kidnappers.” مقامی انگلش ٹی وی چینل کو میں نے ایک خط بھی سمگل کر دیا جس میں لکھا کہ میں قیدی نہیں یرغمال ہوں۔ میری مدد کریں۔ ٹی وی چینل نے گورنر سے رابطہ کیا تو وہ ہانپتا کانپتا میرے پاس آیا اور کہا یہ کیا ہو رہا ہے؟ میں نے اسے بھی مزکورہ بھیج دکھایا تو اس نے کہا "Come on Raj, let’s talk ” جیل سٹاف جب مشکل میں ہوتے تو مجھے لاڈ سے راج پکارا کرتے تھے۔ آخر میں میں نے گورنر کو کہا: "You play your games, I play my games.” گفت و شنید کے بعد گورنر نے کہا کہ آپ کی والدہ کی ملاقات کے لیے ہم خصوصی انتظامات کریں گے اور یہ کھیل ختم کر دو۔ گورنر کو یہ بھی خطرہ تھا کہ باقی قیدی بھی جو بعض اوقات مطالبات پیش کرتے رہتے تھے وہ بھی میرے احتجاج کی نقل نہ شروع کر دیں ۔ خصوصی انتظامات کی تفصیل بتاتے ہوئے گورنر نے کہا کہ قیدیوں کے ملاقاتی ہال سے الگ مجھے ایک پرائیویٹ کمرہ دیا جائے گا جسکا دروازہ کھلا رہے گا جہاں سیکورٹی افسران ہماری نگرانی کریں گے لیکن والدہ اور بھائی پورا دن ملاقات کر سکتے ہیں۔ والدہ کی عمر کو پیش نظر رکھتے ہوئے انکو آرام دہ کرسی بھی دی جائے گی۔ ڈینٹل سرجن ڈاکٹر شبیر حسین اور کیمیکل اینجنئیر ڈاکٹر مقصود احمد غوری بھی اللہ کی طرف سے دو فرشتے بن کر نازل ہوئے جنہوں نے والدہ اور بھائی کی رہائش کے انتظامات کر دیے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری یادگار ملاقاتیں ہوئیں ۔

یہ فرینکلینڈ جیل ڈرہم تھی جہاں سات سال بعد میری درخواست پر مجھے گارٹری جیل منتقل کیا گیا تھا مگر چونکہ میرے دوسرے دو ساتھی ریاض اور صدیق بھی وہاں تھے مجھے چھ ہفتے بعد لانگ لارٹن جیل بھیج دیا گیا جو برمنگھم سے کوئی تیس کلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔ اس وقت میں نفسیات میں ایم اے کر رہا تھا۔ تعلیم کی اجازت کے لیے بھی مجھے ہائی کورٹ میں رٹ کرنا پڑی تھی۔ لانگ لارٹن جیل میں قیدیوں کی بحالی کے کورس کے ساتھ ساتھ مینٹل ہیلتھ پر بھی ایک ٹیم کام کر رہی تھی۔ سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ میرا اچھا تعلق قائم ہو گیا تھا۔ جیل کے اندر مینٹل ہیلتھ کانفرنس کی تجویز پیش ہوئی مگر سوال تھا کہ کمیونٹی ماہرین اور قیدیوں کو کون قائل کرے گا کیونکہ اکثر قیدیوں کو شبہ تھا کہ انکی زہنی بیماریوں کی تشخیص کر کے انہیں مینٹل ہسپتال نہ بھیج دیں۔ یہ زمہ داری میں نے لی جس کے لیے سٹاف-انمیٹ ریس ریلیشنز گروپ قائم کیا گیا۔ اس کا انچارج بھی مجھے بنایا گیا۔ ستمبر 1994 میں یہ مینٹل ہیلتھ کا نفرنس ہوئی۔ صبح پہلے سیشن کی صدارت کے لیے ہم نے برمنگھم سے سوشل ڈیپارٹمنٹ کی ایک افرو کریبین خاتون کو دعوت دی اور دوسرے سیشن کے لیے لندن میں مقیم انسانی حقوق کی تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر نزیر گیلانی صاحب تھے۔ برطانیہ کے مختلف شہروں سے مسلم غیر مسلم اور انگریز و غیر انگریز مائدین کو مینٹل ہیلتھ پر لیکچر کے لیے دعوت دی گئی۔ کانفرنس تو مثالی تھی لیکن سیکورٹی کے ایک حلقے نے میرے خلاف یہ مہم شروع کر دی کہ کسی قیدی کا جیل کے اندر اتنا با اثر ہو جانا سیکورٹی رسک ہے۔ کانفرنس میں کچھ بھارتی بھی مدعو تھے جنہیں اپنے سفارتکار مہاترے قتل کیس میں سزا کاٹنے والے قیوم راجہ کو دیکھنے کا شوق تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ میرے بارے انکا رویہ بہت منفی تھا تو میں نے ان کے آتے ہی ان کے پاس جا کر کہا کہ یہاں کھانے کا بھی انتظام ہے۔ کیا آپ گوشت کھائیں گے یا سبزی؟ میری سفارکاری نے حسب توقع خوب کام کیا۔ ھندو مہمان بہت ریلیکس ہو گے اور مینٹل ہیلتھ کے سرکاری ڈیپارٹمنٹ کی ایک ھندو خاتون نے میرا جیل کا نمبر مانگتے ہوئے کہا کہ وہ مینٹل ہیلتھ کے حوالے سے میرے ساتھ رابطے میں رہنا چاہتی ہے۔ مجھ سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ میں نے ہوم آفس کو اپنی تقریر میں کچھ زیادہ ہی لتاڑ دیا جسے جیل کے اندر میرے مخالف جیل عملہ نے میرے خلاف پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا۔ نفسیات و اعصاب کی یہ جنگ جاری تھی کہ ایک سیکورٹی افسر آیا اور مجھے ونگ آفس میں لے گیا۔ آگے گورنر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے فون کا ریسیور مجھے دیا تو دوسری طرف سے لسٹر ہسپتال لندن سے میرے بھتیجے عارف کی آواز سنائی دی جس نے کہا کہ اس کے والد اور میرے بڑے بھائی نزیر راجہ اس دنیا میں چند دن کے مہمان ہیں۔ عارف مجھے حوصلہ دیتا رہا مگر مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا سن رہا ہوں۔ اس فون کال کے بعد جیل کی ڈاکٹر الیکس نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور لسٹر ہسپتال کے ڈاکٹر کے ساتھ بات کروائی ۔ ان دونوں نے مجھے کہا کہ میرے بھائی کی شدید خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے وہ مجھے ایک بار دیکھ لیں۔ انکی یہ خواہش پوری ہو گئی۔ در اصل انہی دنوں شہزادی ڈیانا کی موت واقع ہوئی تھی۔ پوری بڑش قوم سوگ میں تھی۔ جیل سٹاف کے دل نرم ہو چکے تھے تو انہوں نے مجھے بھائی کے ساتھ ملاقات کی اجازت دے دی۔ تین گھنٹے کا سفر طے کر کے سیکورٹی کاروان جب لسٹر ہسپتال پہنچا تو آگے میرے کچھ رشتہ دار تھے۔ ہسپتال کو مقامی پولیس نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ مجھے ہسپتال بھائی کے ساتھ ملاقات کے لیے لے جایا جا رہا ہے۔ بھائی صاحب کے کمرے میں دو سیکورٹی افسران داخل ہوئے ۔ ساتھ میں تھا۔ مجھے اچانک دیکھتے ہی بھائی صاحب نے شہادت کی انگلی اوپر کرتے ہوئے کہا : "اللہ اکبر۔ کشمیر زندہ باد ” مجھے ملاقات کے لیے آدھ گھنٹہ دیا گیا تھا۔ اس دوران گفتگو کے علاؤہ میں نے بھائی صاحب کو موت و زندگی کے حوالے سے اس کتاب سے چند احادیث سنائیں جو میں اپنے جیل کے سیل سے خصوصی طور پر ساتھ لے گیا تھا۔ مجھے ملاقات کے لیے آدھا گھنٹہ دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے مجھے بتا دیا تھا کہ میرے بھائی بمشکل اگلے سوموار تک زندہ رہ سکیں گے۔ سیکورٹی نے جب واپس چلنے کے لیے کہا تو میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا اور دل میں کہا اس چہرے کو میں آخری بار دیکھ رہا ہوں۔ میں بھائی صاحب کو خدا حافظ کہہ کر جب سیکورٹی کی طرف مڑا تو دیکھا کہ میرے ساتھ سیکورٹی کی جو ایک خاتون تھی وہ رو رہی تھی۔ میں نے پھر بھی اپنے بھائی کی خاطر ضبط رکھا۔ صبر دینے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ غم سے نڈھال ہو کر میں سیکیورٹی کار میں سو گیا تھا کہ کسی جگہ اس خاتون نے مجھے جگایا۔ اس کے ہاتھ میں قوفی کا کپ تھا جو اس ہوٹل سے اس نے لایا تھا جس کے سامنے کانوائے روکا گیا تھا۔ خاتون نے کہا مجھے معلوم ہے تم قوفی شوق سے پیتے ہوئے ۔ یہ خاتون جیل میں نفسیات کی پہلی ڈگری کر رہی تھی۔ وہ بعض اوقات اپنے اسائنمنٹ مجھ سے چیک کروایا کرتی تھی اور اسے معلوم تھا کہ میں اکثر قوفی پیتا ہوں۔ جس طرح ڈاکٹر نے کہا تھا اس طرح چند دن بعد میرے بھائی فوت ہو گے۔ مجھے جنازے پر جانے کی بھی اجازت دی گئی۔ اس بار پہلے کی نسبت بھی سیکورٹی زیادہ تھی۔ میرے بھائی ھالینڈ میں رہتے تھے مگر فوت انگلینڈ ہوئے تھے ۔ لوٹن کمیونٹی مسجد میں جنازہ ہوا۔ برطانیہ بھر اور یورپ سے بھی بے شمار لوگ جنازے پر آئے تھے۔ مولانا عزیز چشتی صاحب نے جنازہ پڑھایا تھا۔ والدہ صاحبہ اور بھابی اور بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے میں نے مختصر تقریر کی۔ رسول پاک کی اولاد نرینہ کا زکر کیا۔ میں اتنا تھک چکا تھا کہ جیل واپس پہنچتے ہی میں کپڑے بدل کر بے ہوشی کی حالت میں سو گیا۔ دوسری صبح جاگا تو میرے کمرے سے بہت ہی اچھی خوشبو ا رہی تھی۔ روٹین کے طور پر جیل افسران کمرے میں آئے تو انہوں نے بھی پوچھا میں نے اتنی خوشبو کہاں سے لائی۔ کچھ سمجھ نہیں ا رہی تھی۔ راز تب کھلا جب میں نے کمرے کے ایک کونے میں پڑے ان کپڑوں کو ہاتھ لگایا جو میں جنازے پر پہن کر گیا تھا اور واپس آتے ہی اتار پھینکے تھے۔ جنازے میں بے شمار خواتین بھی تھیں جو اتنی جزباتی ہو گئی تھیں کہ کسی نے مجھے بہن کی طرح اور کسی نے ماں کی طرح گلے لگایا۔ پیار کیا اور حوصلہ دیا۔ انکے کپڑوں سے پرفیوم میرے کپڑوں میں داخل ہو گیا۔ میں اتنا جزباتی ہو گیا کہ جب تک ان کپڑوں سے خوشبو ہوا میں تحلیل نہ ہوئی میں نے انکو دھویا نہیں۔ اس سوچ نے میرے جزبات کو کنٹرول کرنے میں مدد دی کہ آخر میری ماں بھی تو ہے جسکا جیون ساتھی بھی کئی سال پہلے فوت ہو گیا تھا۔ اب ایک بیٹا جیل میں اور دوسرے کی دیار غیر سے جب میت سامنے رکھی جائے گی تو اس ماں کو بھی تو صبر کرنا ہو گا۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*