بیلجیم کی قومی ائر لائن میں پہلا کشمیری پائلٹ : قیوم راجہ

بیلجیم کی قومی ائر لائن میں پہلا کشمیری پائلٹ : قیوم راجہ

تحریر: قیوم راجہ

بیلجیم یورپی یونین کا ایک چھوٹا مگر ترقی یافتہ ملک ہے جہاں یورپی یونین کے مرکزی دفاتر قائم ہیں۔ یورپی ممالک کی خونریز آپسی جنگوں کے دوران بیلجیم عسکری کاروائیوں کا مرکز رہا۔ بیلجیم میں ولندیزی اور فرانسیسی زبانیں بولی جاتی ہیں مگر وہاں پر کسی قسم کی فرقہ بندی نہیں ہے۔ ایک چھوٹا ملک ہونے کی حیثیت سے بیلجئیم نے کسی بڑے پڑوسی ملک کی حاکمیت قبول کرنے کے بجائے ہالینڈ اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر مشترکہ منڈی کا تصور کیا۔ ابتدائی طور پر برطانیہ نے مخالفت کی کیونکہ برطانیہ کا رحجان امریکہ کی قیادت میں ایک نئے ورلڈ آرڈر اور ساتھ ہی اپنی ملکہ کی قیادت میں کامن ویلتھ قائم رکھنا تھا۔ مشترکہ یورپی منڈی کا نظریہ ترقی کرتے ہوئے جدید یورپی یونین کی شکل اختیار کر گیا جس کے اراکین آج 28 ممالک ہیں۔

بیلجیم نے مساوی مواقع پر مشتمل ایک بہترین تعلیمی نظام قائم کیا جس کی بدولث 1997 میں میرے گھر کھجورلہ اور ضلعی ھیڈ کوارٹر کوٹلی کے درمیان چھوٹے سے پس ماندہ گائوں منیل سے تعلق رکھنے والے معلم چوہدری محمد جمیل ملازمت سے فارغ ہو کر بیلجیم آباد ہو گے۔ اس غیر متعصبانہ تعلیمی نظام نے ہمارے اس ہموطن چوہدری جمیل صاحب کے ہونہار بیٹے حبیب جمیل کو تعلیمی میدان میں ترقی کرتے ہوئے بیلجیم کی قومی ائر لائن کا پائلٹ بنا دیا۔ گو کہ ذاتی قابلیت و صلاحیت مقابلوں کے امتحانات میں بنیادی شرط ہے لیکن ذہانت اور ماحول ساتھ ساتھ کام کرتے ہیں۔ جبیب جمیل کو جو صحت مندانہ تعلیمی نظام ملا اس سے اس نے بخوبی استفادہ کر کے اپنے والدین اور ملک و قوم کا نام روشن کیا ۔ حبیب نے اپنی پیشہ وارانہ تربیت کے آخری دو سال امریکی ریاست کیلیفورنیا میں گزارے۔ اب اس کے پاس دو ممالک کے لائسنس ہیں۔ چوہدری جمیل نے بتایا کہ کل تعلیمی اخراجات ایک لاکھ دس ہزار یورو ایا۔ انکے پاس صرف دس لاکھ یورو تھے۔ ایک لاکھ بیلجیم کی حکومت نے اس شرط پر امداد دی کہ انکا بیٹا پائلٹ بن کر اپنی تنخواہ میں سے ہر ماہ کچھ رقم بطور قسط حکومت کو واپس کرے گا۔ یورپ میں زھین بچوں کو اعلی تعلیم کے لیے قرض دے دیتی ہے۔

مجھے یہاں اپنا ایک عزیز یاد آ رہا ہے جو اپنی ہی ریاست میں میجر سے کرنل اس لیے نہیں بن سکتا کہ وہ ایک کشمیری ہے۔ پاکستانی فوجی قوانین کے مطابق جو کشمیری خونی لکیر سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر رہتا ہے وہ کرنل نہیں بن سکتا اس لیے اسے میجر کی پوسٹ کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی چالیس سال عمر سے پہلے ہی بطور میجر ریٹائر ہونا پڑتا ہے جبکہ یورپی ممالک میں کسی بھی جگہ کسی کشمیری پر یہ پابندی عائد نہیں ہے۔ ہمیں اپنی ریاست کے اندر اس تعصب کے خاتمے کے لیے بھرپور جد و جہد کرنی چاہئے بلکہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ آزاد کشمیر کو بچانے کے لیے ہر سرکاری و غیر سرکاری ریاستی باشندہ اپنا کردار ادا کرے۔ ریاست کو بچانا صرف آزادی پسندوں کا فرض نہیں بلکہ ہر ریاستی شہری کا ہے۔ سب سے زیادہ متاثر تو وہی ہونگے جو 75 سالوں سے مزے لیتے ا رہے ہیں۔ ہم آزادی پسندوں نے تو صرف قربانیاں دی ہیں اور آگے چل کر بھی ہمارے حصے میں قربانیاں ہی آئیں گی۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*