نظم : شمسہ خضر
مخملی پیرہن اس کا چھو چھو کے میں
زرد ہونے لگی
خواب غفلت میں تھی
کب میں عجلت میں تھی
ایک دستک ہوئی
موج_ دریا مرے گھر کے آگے رکی
چند نادیدہ چہروں کی آمد ہوئی
مجھ سے کہنے لگے
کس سے بھاگی ہوئی ہو بتاو ہمیں
کب سے جاگی ہوئی ہو بتاو ہمیں
آنکھ کھلنے لگی
نظم ہونے لگی
میں فلک پہ جزیرے سے اکتا گئی
میں نے سیڑھی رکھی
اور زمیں رک گئ
پاوں چلنے لگے
اپنے اندر کہیں میں اترنے لگی
ٹیس اٹھتی رہی
درد ہوتا رہا
کوئی روتا رہا