آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

کچھ بھی نہ کہا کچھ کہہ بھی گئے : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

صحافت اور شاعری پرانے زمانے سے جاری ہے، بادشاہوں والیانِ ریاست نوابوں اور امیروں کے دروازے شعراء اور قصیدہ خوانوں،علماء اور دانشوروں  کے لیے کھلے رہتے تھے۔ہر بیان باز جگت باز اور میراثی کسی نہ کسی دربار،راجدھانی،حویلی سے منصوب ہوتا تھا،بڑے بڑے شعراء فردوسی اور مرزا غالب جیسے درباروں سے وظیفے لیتے تھے،ہر راجے کا ایک اپنا ”را“یعنی  میراثی ہوتا تھا جو اس کے شجرہ نسب کو سنبھالتا تھا،اور اس کا ترجمان بھی ہوتا تھا۔راجوں مہاراجوں نے اپنے اپنے شعراء اور میراثی اس لیے رکھے ہوتے تھے کہ وہ کسی  نہ کسی طرح اپنی شاعری،جگت بازی، قصیدہ گوئی سے راجہ یا مہاراجہ کی دانش، فراست،انتظامی صلاحیت، رعب ودبدبہ، شجاعت وبہادری، عوامی فلاح وبہبود اور رعیت سے انصاف و احسان کا بیان کرکے عوام کو اس راجے کے تابع رکھیں۔ یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس دور کا سوشل اور سرکاری میڈیا یہی  لوگ ہوتے تھے۔زمانہ بدلہ جمہوریت آگئی جوبقولِ علامہ اقبال ”ہے وہ سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام،جس کے پردوں میں نہیں غیراز نوائے قیصری۔دیوِ استبداد جمہوری قبامیں ہے پائے کوب،توسمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری“ اب جمہوریت سے وہی راجے چوہدری نواب امیر بلکہ کچھ اس سے بھی آگے کے میراثی، بھنگی  بازی گر بھی دولت کے بل بوتے پر عوام کے سر چڑھنے لگے۔جولوگ خاندانی راجے مہاراجے یا امیرنواب تھے ان کے لہجوں رویوں میں پھر کچھ نہ کچھ نرمی اور حلاوت تھی چلو عوام کے لیے نہ سہی، البتہ اپنے درباریوں کے لیے، شاعروں،دانشوروں کے لیے، میراثیوں اور قصیدہ گووں کے لیے توکچھ احساس ہوتا تھا۔ لیکن آج کی جمہوریت کی پیداوار لیڈر شپ میں یہ بھی نہیں بقول ایک انڈین شاعرہ کے،”جوخاندانی رئیس ہیں وہ مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا، تمہارا لہجہ بتا رہا ہے، تمہاری دولت نئی نئی ہے۔ ذرا سا قدرت نے کیا نوازا کہ آکے بیٹھے ہو پہلی صف میں،ابھی سے اڑنے لگے ہوامیں، ابھی تو شہرت نئی نئی ہے۔“تویہ حشراتِ جمہوریت کادور آیا ہر ماجھا گاما، ہردولت مندہر برادری،علاقے کے سر پر لیڈراور ریاست کے مقتدر بننے والے لوگوں کے زمانے میں شعراء اور دانشور، میراثی اور قصیدہ گووں کو بھی پر لگ گئے، پرانے زمانے میں جب تک راج نیتی قائم رہتی یہ لوگ اپنے  راجے سے جڑے رہتے، اور اگر خدانخواستہ کہیں راجہ کو شکست ہوجاتی، ریاست تاراج ہوجاتی،توملازمین ریاست اور یہ شعراء اور دانشور میراثی اور قصیدہ گو، ریاست کے نئے حکمران وراجے کے دامن میں پناہ لے لیتے، لیکن اپنے پہلے راجے یا نواب کے زندہ ہوتے ایسا ہر گز نہ کر سکتے تھے، اسی لیے میر جعفر کو نواب سے جان چھڑانے کے لیے اس سے غداری کرنا پڑی۔البتہ جس طرح اس دور میں مال ودولت، برادری اور طاقت کے بل بوتے کچھ لوگ لیڈر اور حکمران بن رہے ہیں ایسے ہی شاعر ودانشور، میراثی اور جگت باز بھی، مال ودولت انگلش تعلیم،خاندانی جاہ وجلال کے بل بوتے پر، میڈیا پرسن سپوک پرسن صحافی اوردانشور بن رہے ہیں،اوروہ سمجھنے لگے ہیں کہ اب جمہوریت ہے، جوجو چاہے کہہ لے اس کاعلم ودانش  رائے وتجزیہ وہ شاید لیڈروں اور سیاست دانوں،مقتدروں کے لیے راہنمائی بنے گا۔ لیکن ایسا ہرگزنہیں، زمانہ بادشاہت ہو یا جمہوریت ہو، طاقت فرعونیت سے لبریز رہتی ہے،کہ مولینا روم نے کہا ہے۔ نفسِ ماکم از فرعون نیست،اورا عون است مارا عون نیست۔یعنی ہمارانفس بھی فرعون سے کم نہیں ہاں اس کے پاس طاقت تھی ہمارے پاس طاقت نہیں،یعنی جب طاقت ملی فرعونیت در آئی،ملک میں پارٹیاں جب بنتی ہیں اس وقت لیڈروں کی جو حالت ہوتی ہے اگر وہی حالت حکومت کے دوران بھی رہے تو ملک وقوم کا یہ حال نہ ہو جو آج کل پاکستان کا ہے۔الیکشن آتا ہے ہر پارٹی عوام کے حقوق، انسانی آزادیوں، اور زندگی کی سہولتوں کے فقدان کارونا روکر عوام سے ووٹ لیتی ہے۔اور جیسے ہی حکومت میں آتی ہے تو فرعونیت ان میں عود کر آتی ہے، اب انہیں وہی  عوام جو کل تک مہنگائی،بے انصافی،لاقانونیت میں پستی نظر آرہی تھی آج وہی عوام مجرم، قانون شکن،مرفہ حال دکھنے لگتی ہے،اورپھر ملک کوبچانے کے لیے  اسی قوم کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے، مہنگائی، قانونی پابندیاں، جبروتشدد سے اسے قابو کرکے ملک کو بچانے کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے جو اصل میں ملک نہیں اشرافیہ کی عیاشیاں بچانے کے لیے، ان کے کاروبار چلانے کے لیے، ان کی تنخواہوں اور مراعات کو افزوں تر کرنے کے لیے،عالمی اداروں سے قرضے لے کر عوام کی آئندہ آنے والی نسل کو بھی گروی رکھا جاتاہے،کوئی کہتا ہے کہ عوام دوروٹیوں کے بجایئے ایک روٹی کھائیں، قوموں پر ایسے مشکل وقت آتے رہتے ہیں،کوئی کہتا ہے کہ چائے کی دوپیالیوں کے بجائے ایک پیالی پئیں،تو اتنا بجٹ بچ سکتا ہے،لیکن خود کوئی بھی نہیں جو اس ملک وقوم کے لیے صرف اپنے کپڑوں پر استری ہی نہ کرائے یا اپنا میک اپ ہی کرانا چھوڑدے۔کیو ں اس لیے کہ یہ سارے تو نہ اس ملک کے ہیں نہ اس قوم کے۔کیونکہ ان میں سے کوئی تو یہودیوں عیسائیوں کا  پیدائشی یار ہے اور کوئی ان کے کاروبار کا حصے دار ہے۔لہذان کے سارے مشکل فیصلے اور مشکل وقت  صرف اس قوم کے لیے ہی ہوتے ہیں،خود یہ کسی مشکل فیصلے یا مشکل وقت کے اثر سے ہر صورت باہر ہی رہتے ہیں،جس مشکل وقت میں قوم کی روٹی اور چاہے آدھی کی جارہی ہے،اسی وقت میں ان کے کتے حلوے اوردودھ ملائیاں کھا رہے ہوتے ہیں،اورپھر ہمارے دانشور جو نہ اس قوم سے اورنہ ہی ان فرعونوں سے متفق ہیں وہ اپنی ہی ایک الگ گیتا سنا رہے ہوتے ہیں، ہے وہ بھی عالمی استعمار ہی کے ایجنڈے کا ایک حصہ ہوتا ہے،وہ کسی کی  خوشامدبھی کر رہے ہوتے ہیں، کسی کی خامیاں بھی بتا رہے ہوتے ہیں،تو گو کہ آپ کسی کو کہیں کہ وہ اگر یہ خامیاں نہ کرتا تو اس وقت عالمی لیڈر تو وہی ہے، لیکن عالمی لیڈر کو بھی پتا ہے کہ خامیاں بیان کرنے کے بعد جو مجھے عالمی لیڈر کہتا ہے یہ صرف ”گانگلوواں توں مٹی جھاڑدا اے پیا“تو فرعونیت کب برداشت کرتی ہے کہ اس کی کوئی خامی بتائے، توپھر وہی ہوتا ہے۔ جو پچھلے دنوں  ایازمیر سے ہوا۔ لہذااس طبقہ دانشوراں جن کی دانش رزق کا ذریعہ ہے، ان کے لیے  پرانے زمانے کے دانشور میراثیوں کی تقلید ہی باعثِ عزت وتحفظ ہے،کہ وہ کسی ایک ان داتا،راجا، مہاراجا،  سیاست دان،جاگیردار کاپلا تھام لیں اور اس کے برے بھلے کو بھلا ہی بنا کر دکھائیں جیسے پی ٹی آئی کے چند  دانشور ہیں۔ اب ان کے ساتھ کوئی عین غین ہواتو سب کو پتا ہے  کہ مخالف حکومت ہی کرے گی، عوام کو یہ متضاد خبروں کے مخمصے میں تو نہ پڑنا پڑے گا کہ کسی نیوٹرل نے کیا ہے کسی حکومت نے کیاہے،یا پھر تنقید کا جواب نہ دے سکنے والوں کی کارستانی ہے۔لہذااگر دانشورانِ قوم  خود کو سلامت رکھنا چاہتے ہیں اور قوم کو مخمصے سے نکالنا چاہتے ہیں توایک ایک پارٹی جائن کرلیں، اور پھر کسی کی خامیاں بتائیں، کسی کوراہنمائی کریں، اپنی پارٹی کی اصلاح کریں، یا ان پرتنقید کریں، شاید آپ کی یہ کاوش قوم کے لیے بھی کچھ فائدہ مند ہوسکے، یا نہ بھی ہوتو کم ازکم آپ خود تو بقول میاں محمد بخش ”آکھ بلیٰ بلا سہیڑی انسانے نادانے“اس بلا سے بچے رہیں گے نا،  ورنہ  بقول کسے ”کچھ بھی نہ کہا اورکچھ کہہ بھی گئے،اورکچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے“ یہی کچھ ہوگا۔ وما علی الاالبلاغ۔  

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*