معاشرتی اصلاح اور احتساب بیورو کا دورہ : قیوم راجہ

معاشرتی اصلاح اور احتساب بیورو کا دورہ : قیوم راجہ

تحریر: قیوم راجہ

ہمارے معاشرے کا ہر فرد بہترین تعلیمی، صحت اور عدل و انصاف کا نظام چاہتا ہے لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں جو نظام کو بدلنے کے لیے پہلے خود بدلنا چاہتے ہوں۔ یہی طرز عمل ہمارے اداروں کی اصلاحات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہماری دنیا بدل جائے مگر ہم نے بدلیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے اداروں کے اندر کام کرنے والے سرکاری و غیر سرکاری لوگ جنہیں ہم صبح شام کوستے رہتے ہیں وہ آسمانی فرشتے نہیں ہیں بلکہ ہمارے گھروں اور تعلیمی اداروں کا پروڈکٹ ہیں جن سے ہمارے گھروں کا اخلاقی اور تعلیمی اداروں کا نصابی نظام ظاہر ہوتا ہے۔

 

تجربات کی روشنی میں کہتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ اس برطانوی جیل سے بھی بد تر ہے جو سیاسی تعصب کی بنا پر میری جوانی کے 22 سال کھا گیا۔ جب میں برطانیہ میں 1984 میں بھارتی سفارتکار مہاترے قتل کیس میں ملوث ہونے کے شبہ میں گرفتار ہوا تو جیل کے اندر مسلمان قیدیوں کے لیے نماز، روزے، اخبارات، اسلامی کتب کی دستیابی اور ملتی جلتی سہولیات نہیں تھیں لیکن تھوڑی سی جد و جہد کے نتیجے میں یہ ساری سہولیات ہم نے حاصل کر لیں ۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ جیل گورنر نے اپنے سٹاف کی تربیت کے لیے میرا ہفتہ وار لیکچر رکھا جس میں ایتھنی سٹی اور مختلف معاشروں کی باڈی لینگویج تک کا درس ہوتا تھا کیونکہ جیل کے اندر مختلف معاشروں کے قیدیوں اور سٹاف کے درمیان بادی لینگویج کی غلط فہمیوں کی وجہ سے جھگڑے ہو جایا کرتے تھے۔ جب میں نے نفسیات میں ڈگری مکمل کی تو مجھے ڈیپریشن کے شکار قیدیوں کا کونسلر مقرر کر دیا گیا۔ ہم نے دو مرتبہ جیل کے اندر کانفرنس کی۔ ایک کانفرنس کا موضوع تھا ذہنی صحت اور دوسری کا مزاھب میں ہم آہنگی۔ برطانوی اور بھارتی حکومتوں کی سیاسی ملی بھگت کے باعث جیل انتظامیہ میری زندگی کے بارے سیاسی فیصلوں کو تو نہ بدل سکی لیکن جیل کے اندر میری کسی بھی مثبت کاوش میں رکاوٹ بھی نہ بنی بلکہ تعلیم یافتہ قیدیوں کی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھایا ۔

یورپی انسانی حقوق کی عدالت میں جب میں 22 سال بعد برطانوی حکومت کے خلاف کیس جیت گیا تو مجھے برطانیہ میں قیام کے لیے اپیل کا حق دیا گیا لیکن میں نے سوچا کہ وطن کی جس آزادی کے لیے میں نے اپنی جوانی جیل کی نزر کر دی اسکے لیے مجھے وطن واپس جانا چاہیے۔ یہاں ا کر میں نے دیکھا کہ آزاد کشمیر کے سرکاری اداروں کی حالت بہت بری ہے۔ میرا تعلق چونکہ ضلع کوٹلی سے ہے اس لیے اسوقت کے ڈپٹی کمشنر بشیر مغل صاحب سے باقاعدہ اجازت لے کر میں نے سرکاری اداروں کی اصلاحات کے لیے تحقیقی کام شروع کیا۔ رپورٹ مرتب کر کے حکومت کو پیش کی لیکن زبانی کلامی تعریف کے علاؤہ اس ہر کوئی عمل نہ کیا گیا بلکہ اداروں کے اندر کچھ لوگ اصلاحات کی کوششوں کو مداخلت تصور کرنے لگے۔ میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے اداروں کے اندر صحت مندانہ سوچ کے ملازم کم اور مجرمانہ سوچ کے مالک زیادہ ہیں۔ میرا موقف ہے کہ اصلاحات کے لئے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان میں دیانتدار اقلیتی افسران کی حوصلہ افزائی اصلاح کاروں کا اخلاقی فرض ہے۔ اسی جزبے کے تحت گزشتہ دنوں میں جب راولپنڈی ہسپتال میں گیا تو درمیان سے جو فالتو وقت ملا اس سے استفادہ کرتے ہوئے میں اپنے ایک عزیز قیصر ایوب کے ساتھ احتساب بیورو کے چیئرمین جناب نعیم شیراز صاحب اور ڈائریکٹر انویسٹیگیشن عابد میر صاحب سے ملنے مظفرآباد چلا گیا۔ میرپور سے ایک دوست چوہدری محفوظ ایڈووکیٹ نے فون پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ میں نے بیماری کی اس حالت اتنا طویل سفر کیوں کیا لیکن کیا کریں اندرونی قوتیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتیں۔ نعیم شیراز کی نیک نامی سے میں بڑے عرصہ سے باخبر تھا جبکہ سنئیر پولیس افسر عابد میر صاحب کو میں کئی حوالوں سے بڑے قریب سے جانتا ہوں۔ وہ پولیس فورس میں ایک سمارٹ، باصلاحیت اور دیانتدار افسر تصور کیے جاتے ہیں لیکن ایسے افسران کے لیے اس سیاست زدہ نظام میں بڑی مشکلات ہیں۔ میں جب احتساب بیورو پہنچا تو وہاں اسمبلی ہو رہی تھی جس میں سٹاف کو اسلامی اور اخلاقی حوالوں سے تربیت دی جاتی ہے۔ یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی۔ اداروں کے افسران کے اندر اگر خدا خوفی پیدا ہو جائے تو اداروں کی اصلاح صرف آسان ہی نہیں ہو جاتی بلکہ ان افسران کی بقاء کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ نعیم شیراز بطور چیئرمین احتساب بیورو کہاں تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں اس کا دارومدار اس حقیقت پر ہے کہ انکے افسران کو اللہ تعالیٰ کس حد تک خود احتسابی کی توفیق دیتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ انہیں اگر عابد میر جیسے باصلاحیت اور دیانتدار افسران اور سول سوسائٹی کا تعاون حاصل رہا تو کافی حد تک بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ جب تک دنیا قائم ہے نیکی اور بدی کا مقابلہ جاری رہے گا۔ یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام ہے کہ ہم نیکو کاروں میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں یا بد اور غلط کاروں میں۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*