آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

الارض للہ! قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

علامہ اقبال نے  اپنے مجموعہ ”بالِ جبریل“  میں درجِ بالاعنوان سے ایک نظم لکھی ہے۔جس کا پس منظر شاید مزارعت ہے،کہ علامہ نے اس کے مقطع میں فرمایاہے۔ ”دہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں،تیرے آباکی نہیں تیری نہیں میری نہیں “ دہ خدا،نمبردار، ضلع دار یا جاگیردار یا زمین کے مالک کو کہتے ہیں۔اسلام میں زمین ساری اللہ کی ہے،اور اسلامی خلافت یاا سلامی حکومت اس کی نگران ہے،لیکن کوئی بھی فرد جو اس زمین یا علاقے کا ہو وہ اس پر تصرف کا حق رکھتا ہے،جو اسے رہائش، یا کھیتی باڑی کے لیے درکار ہو، حکومتِ وقت اگر اسلامی ہوتووہ اس سے خراج تو لے سکتی ہے لیکن کسی بھی ضرورت مند کووہ زمین جو اس کے تصرف میں ہو، کسی لازمی عوامی مفاد کے علاوہ صرف اس وجہ سے لے نہیں سکتی کہ وہ زمین سرکار کی ہے، کیونکہ سرکار بھی جب ہے جب عوام ہیں جب عوام نہیں توکوئی سرکار نہیں۔لہذاسرکاری زمینوں کی جتنی مالک سرکار ہے عوام بھی اتنے ہی مالک ہیں۔لہذا ہرضرورتمند کو کاشت کے لیے جتنی زمین کہ اس کی ضروریاتِ زندگی کے لیے کافی ہواتنی دینا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے،یا جس کے پاس رہائش نہیں اسے چھت کے لیئے رہائشی علاقہ میں جگہ دینا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا، اور اس میں قوانین عالمی چل رہے ہیں لیکن سابقہ کئی سالوں سے اس ملک میں عالمی قوانین کی بھی اختیارات کے ذریعے دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔عالمی قوانین کے اندر بھی یہ موجود تھا کہ کوئی بندہ کسی جگہ پر چھٹ ڈال لے تو اسے کوئی نہیں گرا سکتا تھا، کیونکہ مکان بن جانے کے بعد اس کا گرانا  غیرمسلموں کے نزدیک بھی قومی نقصان تھا۔ موجودہ  عدلیہ اور انتظامیہ جو سارے کا سارے انہیں عالمی قوانین کے تحت ملازم ہیں اور انہیں قوانین کے محافظ اور مختار ہیں، انہوں نے ملکِ پاکستان کو پچھلے چند سالوں سے اپنے قانونی اختیار سے ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے،حتیٰ کہ مساجد ومدارس تک کو مہندم کیا جارہا ہے،تجاوزات کے نام پر ہر غریب اور مخالف کی کٹیا سے لے کر کوٹھیوں اور پلازوں تک کو مہندم کیا گیا، کسی صاحبِ اختیارنے نہیں سوچا کہ تجاوزات ہی سہی لیکن کیا اس کو گرانے سے ملک کی اکانومی کانقصان نہیں ہوگا؟یہ ہزاروں سے لے کر اربوں روپے تک کے اخراجات پاکستانی ہی لوگوں کے تھے،توکیا ان کا نقصان پاکستان کا نقصان نہیں؟اورکیا وہ لوگ جب اس نقصان کے بعد غربت کی لکیر کے نیچے جائیں گے تو کیا پاکستان کی معیشت کا نقصان نہیں ہوگا؟ پاکستان جو پہلے ہی کرپٹ نظام میں پھنساہواہے،جہاں سیاسی لیڈرکرپٹ ہیں، سرکاری ملازم کرپٹ ہیں،اورجو کرپٹ نہیں وہ بطورِ تحفظِ ادارہ کرپشن کو تحفظ دے رہے ہیں۔پاکستان میں بننے والاہرقانون چاہے وہ اسلامی ہی کیوں نہ ہوکرپٹ ملازم اوراشرافیہ اسے اپنی کرپشن کے لیے استعمال کرلیتے ہیں، کہ عوام کو یہ حق ہی نہیں کہ وہ کسی سرکاری اہل کار کوقانون کا حوالہ دے سکے، کیونکہ ایک ماورائی قانو ن ”کارِ سرکار میں مداخلت“کا حوالہ دے کرقانون کے بارے میں پوچھنے والاانتظامیہ کی چھترول کا مستحق ہوجاتا ہے، اور پھر انتظامیہ کے ہاتھوں ذلیل ہونے کے بعدتوکسی کو کسی سرکاری اہل کار کو یہ کہنا بھی ”سرکاراللہ سے ڈریں“کارِ سرکارمیں مداخلت ہی لگتا ہے۔

ہمارے یہاں ایک شہرمیں کارِ سرکار میں مصروف ایک صاحب ایک ریڑھی والے کو جس کا باٹ لوہے کانہیں بلکہ اس نے ایک پتھر کو گھڑکر بنایا ہواتھا، اوروہ تھا پورا، لیکن چونکہ عالمی معیار کا نہیں تھا،تو صاحب اسے ایک ہزار روپے جرمانہ کرنے لگے، کسی تاجرتنظیم کے ممبر نے کہا جناب اس بیچارے کی دن بھرکی کمائی پانچ سوروپے نہیں ہوتی آپ اسے سودوسو جرمانہ کردیں، صاحب نے  اس ہمدرد کو کچھ غیر پارلیمانی سا جواب دیا جس کے بعد توتکار ہوگئی،اور پرچہ کٹ گیا کہ کارِ سرکار میں مداخلت کی گئی ہے،اورپھر تاجر تنظیم نے بڑے احتجاج کے بعد کارِ سرکار کی مداخلت کا پرچہ ختم کرایا۔ لہذایسے  مقدس قوانین کے ہوتے جب ایک جج صاحب ایک مبہم آرڈر کرتے ہیں، کہ سرکاری زمینوں پرسے تجاوزات کو ختم کیا جائے،توان غریب اور بے نوالوگوں کے جنہوں نے کسی سے اشٹام پرشاملات خریدی ہوئی ہوں،ان کے مکانات گرائے جاتے ہیں جبکہ بیچنے والے جو کسی سرکاری اہل کارکی ملی بھگت،اور علاقائی بدمعاشی کے بل بوتے پرسرکاری یا شاملات زمینوں کو اپنے قبضے کی بنیاد پرفروخت کرتے ہیں،ان سے کبھی کسی عدالت یا انتظامیہ نے نہیں پوچھا کیوں؟اس لیے کہ بیچنے والوں کو بھی نشاندہی وہی سرکاری اہلکارہی دیتے ہیں کہ یہ رقبہ شاملاتِ دہ ہے، یہ تمہاری چراہ گاہ ہے، یہ تمہارااڑاک ہے، کیوں؟ اس لیے کہ ہم مسلمان تو ہیں لیکن ہم اسلام کے نام پر دھبہ ہیں۔کہ ہم  میں سے ملازم افسر کو دیکھ کر اللہ کی تعریف کرتے ہیں،، اور عوام کو دیکھ کر جس کے خون پسینے کی کمائی سے ہم اپنی نسل کو پال رہے ہیں، ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں،کہ یہ لوگ؟ اگر ہم نہ ہوں تو اس ملک اور قوم کوکب کے تلپٹ کرچکے ہوں۔”اوئے کھڑے ہوکر بات کرو،نیچے بیٹھو،اٹھوتم کرسی پربیٹھتے ہو، اورپھر اگر سائل غریب بھی ہوتو خداکی پناہ، اس کو کہا جاتاہے اوئے ہم تمہیں فارغ بیٹھے نظر آتے ہیں، ہمیں صرف تمہاری بات ہی نہیں سننی بلکہ اپنے زیر آرڈر پورے حلقے کا حدود اربعہ بتایا جاتاہے،وہاں تک کے لوگوں پر ہماری ڈیوٹی ہے“۔یہ کچھ سرکاری مجبوریاں سن کرشاید وہ غریب کسی نقصان ومجبوری میں کسی عدالت کسی انتظامیہ کے پاس جاتا ہی نہیں،کہ جوتوں پر جوتے کھانے کی کیا ضرورت ہے ادھر ہی بدمعاشوں کے جوتے کھا کر اللہ کی تقدیر پرراضی ہوکر بیٹھ جاتا ہے،لیکن سالانہ رپورٹ میں لکھا جاتا ہے کہ فلاں انتظامی افسر کے دور میں حالات بہت پرسکون رہے، انہیں بہترکارکردگی کا ایوارڈ دیا جارہا ہے۔  لہذاعزت مآب ججز سے گذارش ہے کہ وہ مبہم آرڈر دے کر کہ سرکاری زمینوں اور مفاد عامہ کی جگہوں پر سے قبضے واگزارنہ کرائیں۔کیونکہ ملک میں صرف خالصہ سرکار،اور خالصہ سرکار مفادِ عامہ ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ شاملاتِ دہ مفادِ عامہ بھی ہیں،جو اہلِ دہ کی ملکیت ہوتی ہیں،اوران میں تصرف کا حق بھی اہل دہ کوحاصل ہوتا ہے، جس کی کئی مثالیں موجود ہیں اورکئی عدالتی فیصلے بھی ان کے حق میں ہیں۔ایسے مقامات پر بھی انتظامیہ اور مال کے ملازمین،لوگوں کو ہراساں کرکے مال بنانے میں لگ جاتے ہیں،جو بروزِ قیامت ججز کے کھاتے میں ہی جائے گا، چلو اس دنیا میں تو ججزکو شاید کوئی نہیں پوچھ سکتا، لیکن اللہ کی بارگاہ میں تو ہرایک کا حساب ہونا ہے، لہذااس حساب کو مدِ نظررکھیں، میرے نبی ﷺنے فرمایاہے جو کوئی کسی زیادتی کی بنیادرکھتا ہے، تاروزِ قیامت اس پرعمل کرنے والوں کا ساراگناہ بھی اس پہلے موجد کے کھاتے میں پڑتا رہتا ہے، العیاذباللہ،وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*