راہ ادب : خط بنام بابا جان : ردا آرزو

راہ ادب : خط بنام بابا جان : ردا آرزو

قلم کار: ردا آرزو

پتہ: عالمِ برزخ

پیارے بابا جان،

السلام علیکم!

اُمیدِ واثق ہے کہ آپ اِس دنیاٸے رنج و الم سے رِہاٸی پانے کے بعد خداوندِ کریم کے فضل و کرم سے برزخی جنت میں بخیروعافیت ہوں گے اور پروردِگارِ عالم کی عطا کردہ نعمتوں میں اپنے عزیزوں کے ساتھ خوش نہال ہوں گے۔

بابا پانچ سال ہو گٸے آپ کو ہم سے بچھڑے۔ اِس عرصے میں ہر روز، ہر پل آپکی کمی محسوس ہوتی رہی۔
آج شدّت سے آپ سے بات کرنے کو دِل چاہا تو سوچا آپ کے نام ایک خط لکھ لوں۔ جس میں آپ کو اپنے دل کا سارا احوال کہہ سناٶں۔

بابا ہمیں آپ سے ایک شکوہ ہے۔ آپ اتنی جلدی داغِ مفارقت کیوں دے گٸے ہمیں؟ ابھی تو آپ نے ہمیں زندگی کے نشیب و فراز سمجھانے تھے۔ ہماری اُنگلی پکڑ کی زندگی کی تنگ و تاریک راہیں پار کرانی تھیں۔ آپ نے اتنی جلدی کیوں کر دی بابا؟

امّی ہمیں تو آپ کی یاد میں رونے سے منع کرتی ہیں۔
پر سچ بتاٶں بابا، امّی خود بھی جب ماں کے ساتھ ساتھ باپ کے فرض اور ذمّہ داریاں نبھاتے نبھاتے تھک جاتی ہیں، تو رات کی تاریکی میں ہم سب سے چھپ کر رونے لگتی ہیں۔ میں نے کٸی بار چُپکے سے اُنھیں مصلیٰ عبادت پر آپ کی یاد میں آنسو بہاتے دیکھا ہے۔ پر ہمیں رونے پر اکثر ڈانٹ دیتی ہیں۔ کہتی ہیں، آپ کو تکلیف ہو گی۔
شاید اُن کو لگتا ہے کہ آپ کو صرف ہمارے رونے سے تکلیف ہو گی۔ بابا، ایک بار آ کے اُن کو سمجھا دیں نا کہ وہ بھی نہ رویا کریں۔ اُن کے رونے سے بھی آپ کو تکلیف ہوتی ہے۔ بس ایک بار آ جاٸیں۔

بابا، جب جب آپ کی یاد آتی ہے تو دِل تڑپ سا جاتا ہے اور آپ کے پاس، آپ کے قدموں میں بیٹھ کر اپنا ہر دکھ، ہر درد سُنانے کے لیے بیتاب ہو جاتا ہے۔
لیکن ہم بے بسی کے عالم میں شیشے کی دکانوں میں رکھے قیمتی کھلونوں کو حسرت و یاس سے تکتے کسی مفلس و لاچار بچے کی طرح پُرنم آنکھیں لیے فقط آپ کی تصویر کو ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

بابا میں نے سُنا ہے کہ ہر شبِ جمعہ کو مرحومین اپنے دنیاوی گھروں میں لوٹ کے آتے ہیں۔ میں نہیں جانتی کہ اِس بات میں کتنی صداقت ہے مگر ہر شبِ جمعہ میری نظریں گھر کے صحن میں آپ کو تلاشتی ہیں۔ میری سماعت آپ کی آواز سننے کو ترس جاتی ہے اور پھر جب شام کے ساٸے رات کی تاریکی میں ڈھلنے لگتے ہیں، اور آپ کے آنے کی ہر اُمید دم توڑنے لگتی ہے تو رات کی سیاہی مجھے اپنے مقدر پر پھیلتی نظر آتی ہے۔ تاحدِ نظر کتابِ زندگی کا ہر ورق سیاہی میں ڈوبا نظر آتا ہے۔

بابا، آپ کے جانے کے بعد بھی زندگی اپنی پوری شدّ و مد کے ساتھ رواں دواں ہے۔ اللّٰہ پاک کے فضل سے تمامِ ضروریاتِ زندگی بطورِ احسن پوری ہو رہی ہیں، پر آپ کا نہ ہونا ایک ایسا دُکھ ہے، جو ہر سُکھ پہ حاوی ہے۔
آپ بِن زندگی ہے یوں بابا
بِنا چھت کا مکان ہو جیسے

ہر خوشی کے موقع پر آپ کی کمی ہمیں رُلا دیتی ہے۔
لوگوں کے لیے خوشی کی نوید ہوا کرتی ہوں گی یہ عیدیں، پر ہمارے لیے سال کا سب سے مشکل دِن ہوتی ہیں۔
آج سے پانچ سال قبل جب آپ نے اِس دارِ فانی سے رختِ سفر باندھا تھا، وہ چودہ رمضان المبارک، جمعہ کا دِن تھا۔ عید دہلیز پہ تھی۔ تمام خلقت عید کی خوشیاں منانے میں مصروف تھی، اور ہم زندگی سے یتیمی کا تحفہ وصول کر رہے تھے۔
بابا اب جب بھی کوٸی "عید مبارک” کہتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے زندگی دور کھڑی ہم پہ قہقہے لگا کے ہنس رہی ہو۔
میرے دوست مجھ سے ناراض ہوتے ہیں کہ میں اُنھیں "عید مبارک” تک نہیں کہتی۔ پر میں کیا کروں؟
مجھے یہ الفاظ اپنی زبان سے ادا کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔ کوشش بھی کروں تو یہ الفاظ ادا ہونے سے پہلے آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔
میں دعا کرتی ہوں بابا، کسی کی بھی زندگی میں کبھی ایسی عیدیں نہ آٸیں۔ (آمین)

آپ جانتے ہیں، آپ کے جانے کے دکھ کے بعد دوسرا بڑا دکھ زندگی نے کونسا دیا ہمیں؟
اُن لوگوں کی بے رُخی، جن پہ آپ کے بعد سب سے زیادہ مان تھا۔ جن سے اُمید تھی کے چاہے ساری دنیا منہ موڑ لے، پر وہ کبھی ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ پر پتہ ہے بابا، اُنھوں نے کیا کیا؟
اُنھوں نے تو آپ کی قبر کی مٹی خشک ہونے سے پہلے ہی منہ موڑ لیا ہم سے۔ ابھی آپ کے جانے کے غم سے ہم سنبھلنے نہ پاٸے تھے کہ اُن لوگوں کی اصلیت پہاڑ بن کر ہم پہ ٹوٹی اور تب ہم نے جانا کہ باپ کا ہونا اپنے آپ میں کتنی بڑی نعمت ہوتا ہے، اور یتیمی کس شے کا نام ہے؟

بابا یہ دنیا بہت بُری ہے۔ یہ مشکل وقت میں بالکل ساتھ نہیں دیتی۔ اِس لیے میرا اِس دنیا میں رہنے کو دل نہیں کرتا۔ آپ کی دنیا کا نظام کتنا خوبصورت ہو گا نا۔ اچھے لوگ الگ، اور بُرے الگ۔ کوٸی کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا ہو گا۔
جب سے کھلی ہیں دنیا کی حقیقتیں مجھ پر
مرا اِس دنیا میں رہنے کو دِل نہیں کرتا

بابا آپ تو اللّٰہ میاں کے پاس ہی ہیں۔ اللّٰہ میاں سے کہہ کر مجھے بھی اپنی دنیا میں بُلا لیں نا۔ میں آپ کے پاس آنا چاہتی ہوں۔ اِس دنیا سے تھک گٸی ہوں۔ آپ اللّٰہ میاں سے بات کریں گے نا؟
میں آپ کی طرف سے بُلاوے کی منتظر رہوں گی۔

بابا آج اِس خط کی صورت آپ سے باتیں کر کے دل کا بوجھ کافی حد تک کم ہو گیا ہے۔ اِس لیے سوچ رہی ہوں، آپ سے خط و کتابت کا یہ سلسلہ جاری رکھوں۔ تب تک، جب تک آپ کی طرف سے بالمشافہ ملاقات کا بُلاوا نہیں آ جاتا۔
اپنا خیال رکھیے گا۔ اللّٰہ پاک نے چاہا تو جلد ہی آپ کی دنیا میں ملاقات ہو گی۔ اللّٰہ نگہبان
والسلام
آپکی بیٹی
رِداء آرزو

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*