قلم کار: رضوان الحق زین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے جگر کے ٹکڑے
السلام علیکم
جان و دل سے بہت قریب ، پلکوں کا سرمایہ کل ، جگر کے تپش کا محور ، امید واثق ہیکہ یہ خط آپ کو ہشاش بشاش ، ہنستا مسکراتا اور پورے جوبن پر جوانی میں خیر و خیریت کیساتھ پائے گی۔اس خط کو ہاتھوں میں لینے کے بعد آپ کو تازگی میسر آئے گی۔یہ خط میری جگہ تمھاری ماتھے کو چومنے کیلئے تگ ودو کرے گی۔خدا کرے کہ تمھارے دید کے خاطر خط کو آنکھیں لگ جائے۔بے ساختہ خط میں جان آکر وہ آپ کو مجھ جیسا پیار کرنے کیلئے آپ کے ہاتھوں سے گالوں پر جھپٹ پڑے۔ایسا مبہوت کن منظر ہوکہ موسم بہار کا بارشوں کے بعد بننے والا اجلا منظر بھی شرما جائے۔جان من ، جان بہار تمھاری خط نے کل بہت مصروفیت کے باوجود مجھے آلیا تھا۔ڈاکیا خط تھمانے کیلئے میری تلاش میں ہمارے پسماندہ گاٶں کی گلیاں چھانتے ہوئے کئی بار جوہڑ میں گرے تھے۔کئی بار گاٶں کے آوارہ کتوں کا شکار ہوتے ہوتے بچے تھے۔ایک جگہ راستے میں تو گوبر کے ڈھیر پر ایسا گرے تھے کہ کچھ وقت کیلئے وہاں پر موجود لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہوئے تھے کہ آیا یہ انسان ہے یا گوبر سے بنی ہوئی کوئی ان دیکھی بلا ہے۔ دوسری جگہ کیچڑ میں ایسا گرے تھے کہ "ہوتے ہیں سینکڑوں کے سر نیچے پاٶں اوپر” مصرعے کے مصداق مٹی سے لت پت تھے۔جب میں پن چکی سے بیس دڑی آٹے کی بوری لیکر گھر جارہا تھا تو ایک ایسی بلا نظر آئی کہ جو صرف چلتی نظر آجاتی تھی۔نہ سر کا پتہ چلتا تھا اور نہ پیروں کا۔میں اس عجیب و غریب شے کو دیکھ بوری وہی چھوڑ کر بھاگنے والا تھا کہ اس آفت نے آواز دی کہ آپ کے جگر گوشے ، دل کا سکون ، دماغ کی ٹھنڈک اور آپ کے سب سے غیر معمولی طور پر ذیادہ چہیتے بیٹے افضل خان افضل کی طرف سے آنے والی خط آپ کو دینے آیا ہوں۔یقین جانیے کہ آپ کا نام سن کر میں خوشی کے مارے ساکن ہوگیا۔دو تین منٹ تو مجھے اپنے قریب و جوار کا ہوش نہیں تھا لیکن جب ڈاکیا قریب آیا۔اور گوبر کی ڈھیر پر گرنے کی وجہ سے لگ جانے والی گندگی کی ڈھیر کی خوشبو اوہ معذرت میرا مطلب بد بو نے دماغ کو معطر کیا تو تب ہوش آیا اور آپ کی طرف سے آوارد ہونے والی خط اس سے لیکر وہی بیٹھا اور پڑھنا شروع کیا۔یہ بات بھول کرکہ آٹا لیکر گھرجانا ہے۔وہاں گھر والوں نے اسے پکاکر کھانا بھی ہے۔لیکن جب پڑھنے کے غرض سے نیچے بیٹھا تو خط پر نظر پڑتے ہی اندازہ ہوا کہ میں تو بنا عینک کے پڑھنے سے تو رہا۔ اب عینک نکالنے کیلئے جیب ٹٹولا تو یاد آیا کہ وہ صبح ہی چھوٹے بچے کی شرارتوں کی نظر ہوکر دنیا سے رخصت ہوچکی ہے۔افسوس سے ہاتھ ملنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ جب خط کا سن کر بیہوش ہوا تھا۔تب ڈاکیا نے نہایت چالاکی سے ہاتھ میں پہنی گھڑی کو اپنے ہاتھ کی زینت بنالیا ہے۔مزید افسوس سے بچنے کیلئے ان باتوں کو بھول کر بوری اٹھایا اور گھر کی جانب چلا۔گھر کے قریب جاکر پتہ چلا کہ جس بوری کو لیکر آیا ہے۔وہ کسی اور کی ہے اور اس میں مکئی کا آٹا ہے۔خود کو اور پن چکی والے کو کوستے ہوئے وہی سے وہ 20 دڑی والی بوری لیکر واپس ہوا۔خط پڑھنے کی پریشانی میں وہ 30 منٹ کا راستہ 50 منٹ میں طے کرکے جب پن چکی پہنچا اور وہاں موجود بندے پر برس پڑا۔جس نے اپنی غلطی تسلیم کرنے سے انکار کیا اور یوں دونوں نے ایک دوسرے کو اٹھا اٹھاکر پھینکنا شروع کیا۔بڑی مشکل سے جب تھک ہارے تو پھر اپنی بوری لیکر جلدی گھر پہنچے اور خط پڑھوانے کیلئے اپنی پڑوسی سلیم کے گھر کی طرف گئے۔ جب وہاں پہنچا تو معلوم پڑا کہ وہ جنگل لکڑیاں لینے گیا ہے۔وہاں اس کا انتظار کرتے کرتے تھک گیا تو تھوڑا دور واقع ایک رشتہ دار کے پاس جانے کا خیال آیا۔کہ جاکر اس سے خط پڑھوائی جائے۔جب اس کے گھر کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ وہ لوگ کھیتوں میں ہل چلارہے ہیں۔وہاں پہنچ کر انہوں نے سلام دعا کے بنا ہل ہاتھ میں تھمایا اور چلانے کا کہا۔مرتا کیا نہ کرتا کےمصداق مسلسل دو گھنٹے ہل چلانے کے بعد جب وہ تھک ہار کر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا۔لیٹتے ہی اسے نیند آگئی۔قریب کچھ شور سن کر جاگا تو مجھے پتہ چلا کہ تیز ہوائیں چل رہی ہے اور لوگ جلدی بھاگ کر کہیں گھروں میں پناہ لے رہے ہیں۔میں بھی بھاگم بھاگ خط بھول کر گھر کی طرف دوڑا اور گھر پہنچ کر دم لیا۔گھر پہنچ کر پتہ چلا کہ جو عینک بچے نے دوسرے جہان بھیجا تھا۔اس کے ساتھ ایک اور عینک بھی رکھی ہوئی تھی۔جب اس جگہ پہنچ کر دیکھا تو دو چوہے اس عینک کو ہڑپنے کی تیاری کررہے تھے۔مجھے دیکھ کر چوہے جلدی وہاں سے نو دو گیارہ ہوئے۔میں نے گرد میں چھپی عینک اٹھاکر صاف کرکے خط دیکھنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو خط غائب تھی۔پھر یاد کرنے پر پتہ چلا کہ وہ تو جہاں سویا تھا وہی سرہانے پر ایک پتھر کے نیچے رکھا ہے۔جب ایک گھنٹے کا راستہ طے کرکے وہاں پہنچا اور خط کو پاکر اتنی خوشی محسوس ہوئی۔کہ سارے دن کے دن کی بھاگ دوڑ اور تھکن ہلکا محسوس ہونے لگا۔پھر جب اپنے ٹوٹے الفاظ میں آپ کا خط پڑھا۔جس میں آپ نے اپنے امتحانات میں پاس ہونے اور خیریت سے ہونے کا بتایا تھا۔جب ان باتوں کا پتہ چلا تو دل گارڈن گارڈن ہوا۔میرے سرمایہ کل خدا تجھے نواز شریف سے بھی ذیادہ امیر بنائے اور اس کی طرح تجھے شہرت دوام بخشے۔بس اپنی پڑھائی پر توجہ دیں۔کبھی کبھار ہنسی مزاح کیلئے تھوڑا وقت نکالا کریں تاکہ طبیعت ہشاش بشاش ہوسکے اور دماغ پر موجود بوجھ میں کمی واقع ہوسکے۔خدا کرے تجھے میری کیا نواز شریف اور آصف علی زرداری کی عمر بھی لگ جائے۔بس ہمیشہ محنت کو اپنا شعار بنائیں اور وقتا فوقتا ہمیں خط لکھ کر تھکانے کا موقع فراہم کریں۔تاکہ ہم آپ کیلئے تھک کر لطف لے سکیں۔تمھاری امی جان کی طرف سے ڈھیر ساری دعائیں اور چھوٹے بہن بہائیوں کی طرف بے پناہ پیار قبول کریں۔
فقط آپ کا آباجان : محمد فقیر لہری ، سکنہ تھپاں رانولیا۔