تحریر : قیوم راجہ
میں بیمار رہنے کی وجہ سے سوشل میڈیا سے چند دن لاتعلق رہا۔ کچھ افاقہ ہوا تو سنا کہ یاسین ملک نے اقبال جرم کر لیا ہے۔ لبریشن فرنٹ کے کچھ دوست ملنے کے لیے آئے تو انہوں نے کہا کہ یاسین ملک نے اقبال جرم نہیں کیا بلکہ کہا کہ انہیں انصاف کی امید نہیں اس لیے وہ عدالت میں نہیں آئیں گے۔ راقم نے دنیا کے ایک طاقتور سازشی اور سامراجی ملک برطانیہ میں بھارتی سفارتکار مہاترے کیس میں ایک سیاسی ٹرائل کا سامنا کیا۔ اپنے تجربات کی روشنی میں یاسین ملک کی مہم چلانے والے اندرون و بیرون ملک ساتھیوں کو رائے دینا چاہوں گا۔
جیل میں ہم پانچ ساتھی تھے۔ دو نے ثبوت ضائغ کرنے کا جرم قبول کر لیا جو انہوں نے کیا ہی نہیں تھا۔ صدیق بھٹی نے اغوا کا جرم اپنے لیڈر کے مشورے پر اس امید پر قبول کیا کہ جج کا رویہ نرم ہو جائے گا اور سزا کم دے گا مگر جس جرم کی عام طور پر 12 سال قید بنتی تھی اس کی صدیق کو 18 سال سزا ملی۔
پانچ ملزمان میں سے صرف دو پیچھے رہ گے ۔ ایک ریاض ملک تھا اور دوسرا میں۔ ہم پر بھی اقبال جرم کا دبائو ڈالا گیا لیکن میں نے امان اللہ خان کو کہہ دیا کہ ریاض پر دو اور مجھ پر چار الزامات ہیں جن میں قتل بھی شامل ہے اور قتل کی سزا صرف عمر قید ہے اور برطانیہ میں عمر قید 14 سال نہیں بلکہ وزیر داخلہ کی صوابدید پر ہے اور ہمیں برطانوی حکومت سے کوئی خیر کی توقع نہیں۔
ہماری سوچ بالکل درست ثابت ہوئی۔ وزیر داخلہ نے یہ بتانے سے بھی انکار کر دیا کہ ہم کتنا عرصہ جیل میں رہیں گے۔ ہم نے وزیر داخلہ کے صوبدیدی اختیارات کو پہلے لندن ہائی کورٹ اور پھر یورپی انسانی حقوق کی عدالت میں چیلنج کیا جس کے نتیجے میں یورپی عدالت نے وزیر داخلہ کو عدالتی معاملات میں مداخلت سے مکمل محروم کر کے ہمیں بری کر دیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی حکومت سے انصاف کی توقع نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یاسین ملک صاحب کے لیے اس غیر منصفانہ عدالتی عمل اور حکومت کی سیاسی مداخلت کو ثابت کرنے کا بہترین طریقہ اور پلیٹ کون سا ہے۔ میرے نزدیک دنیا کے سامنے بھارتی حکومت کی جانبداری اور تعصب کے بارے اپنا موقف پیش کرنے کے دو طریقے ہیں:
اول ۔۔ یاسین ملک عدالت میں جائیں اور اسے بتائیں کہ سماعت آزادانہ اور منصفانہ نہیں اس لیے وہ عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ بائیکاٹ اور اقبال جرم میں واضح فرق ہے۔
دوم۔۔۔۔ یاسین ملک ڈٹ کر استغاثہ کے سوالوں کا جواب دیں۔ اگر جج کہے کہ میری عدالت کو سیاسی پلیٹ فارم کے طور استعمال نہ کریں تو یاسین ملک کے پاس حکومتی مداخلت اور جانبداری کے بے شمار ثبوت ہوں گے۔ کسی بھی صورت میں جیل کے سیل سے عدالت کو پیغام دینا کہ انہیں انصاف کی توقع نہیں۔۔۔ غلط ہے۔ جو کچھ کہنا ہے عدالت میں جا کر کہیں تاکہ ساری دنیا انکے بیان کو سنے۔
مجھے بھی ایک موقع پر جج نے کہا تھا کہ عدالت کو سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال نہ کریں تو میں نے کہا تھا پھر عدالت بھی مجھ سے سیاسی سوال نہ پوچھے۔ میں نے کہا تھا جج صاحب آپ خود بھی اور استغاثہ بھی بولنا بند کریں تو میں بھی چپ ہو جائوں گا۔ جج کے ساتھ میری بحث طویل تھی مگر سننے کے بعد بی بی سی کی رپورٹر رابیا روبنسن نے خبروں میں کہا تھا:
"Wrong man charged with murder.”
اگر میڈیا میرے الفاظ میرے منہ سے نہ سنتی تو اس نے وہی کہنا تھا جو میری عدم موجودگی میں عدالت یا دوسرے لوگ کہتے۔ المختصر ۔۔۔۔ کہ حتمی فیصلے کا اختیار تو یاسین ملک صاحب کا ہے لیکن انہوں نے جو کچھ بھی کہنا ہے وہ عدالت میں کھڑے ہو کر کہیں تاکہ ساری دنیا سن سکے۔
قانونی کاروائی کے ساتھ ساتھ لبریشن فرنٹ اور دیگر اندرون و بیرون ملک حامیوں کو سیاسی جد و جہد بھی جاری رکھنی چاہیے۔