’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ نماز نیند سے بہتر ہے : قیوم راجہ

تحریر: قیوم راجہ

چند ہفتے قبل ہمارے بھانجے ڈاکٹر رمیض کے ساتھ فالج اور دل کی بیماریوں میں پریشان کن اضافے ہر بات ہو رہی تھی۔ ہمارے گاؤں کھجورلہ کو کھوئی رٹہ کا مری کہا جاتاہے جہاں کی آب و ہوا اور ماحول کئی دوسرے علاقوں کی نسبت خو شگوار اور صحت مندانہ ہے لیکن پھر بھی فالج اور دل کے مریضوں میں دن بدن اصافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عید الفطر کی نماز کے بعد میں نے گرد و نواح میں بزرگوں اور بیماروں کو ملنے کا فیصلہ کیا۔ یہ جان کر حیرت ہوئی کہ درجن مریضوں میں سے سات فالج اور دل کے مریض تھے جبکہ کل اس ڈھوک کی کل ابادی تین سو کے قریب ہے۔ دوسرے گائوں کی حالت بھی ملتی جلتی ہے۔ عام لوگ کہتے ہیں کہ خوراک ٹھیک نہیں۔ لوگوں نے اپنی زمینوں میں دیسی چیزیں اگانا بند کر دی ہیں اور پاکستانی مارکیٹوں سے آنے والے مال ہر گزارہ کیا جاتا ہے

ڈاکٹر رمیض راجہ

یوں تو پاکستان بھر میں کھانے پینے کی خالص چیزوں کی دستیابی ایک بڑا مسلہ ہے لیکن آزاد کشمیر میں ناقص ترین اشیاء لائی اور بھیجی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر رمیض ایک نوجوان ڈاکٹر کی حیثیت سے تحقیق میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے طرز زندگی پر بات کرتے ہوئے انٹرنیشنل سوسائٹی آف اینڈوکرینالوجسٹ کی ایک رپورٹ کا زکر کیا جس کے مطابق ڈاکٹر اپنی میڈیکل ریسرچ کے نتائج اور فجر کی اذان کے اثرات کا موازنہ کرنے کے بعد حلقہ اسلام میں داخل ہو گے۔ ہوا یوں کہ انٹرنیشنل سوسائٹی آف اینڈوکرینالوجسٹ نے ایک تحقیق کی جس سے ڈاکٹروں نے نتیجہ اخذ کیا کہ رات کے تیسرے فیز میں (2-5) شوگر لیول میں بے شمار تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں لیکن اگر مریض صبح جلد بیدار ہو جائیں تو شوگر لیول کنٹرول رہتا ہے اور جو لوگ صبح دیر سے جاگتے ہیں انکا شوگر لیول بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں نے شوگر کے مریضوں کو صبع جلد جاگنے کا مشورہ دیا۔ میڈیکل محققین کا ایک رکن مسلمان تھا جس نے اپنے غیر مسلم ساتھیوں کو کہا کہ جو پیغام آپ اتنی مہنگی اور طویل تحقیق کے بعد دے رہے ہیں وہ تو ہمارے نبی نے چودہ سو سال پہلے دے دیا تھا۔ ساتھیوں کے پوچھنے پر مسلمان ڈاکٹر نے کہا کہ دن میں چار نمازوں کی اذان تو ایک ہی ہے لیکن صبح کی اذان کا آخری جملہ مختلف ہے اور اس کا مطلب ہے "نماز نیند سے بہتر ہے”
یہ سنکر غیر مسلم ڈاکٹروں نے اسلام میں مزید دلچسپی لی جو قبولیت اسلام پر منتہج ہوئی

ڈاکٹر رمیض اور انکے ساتھیوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلم حکمران اس طرح کی تحقیق کروانا تو دور کی بات ہے دوسروں کی کوئی تحقیق اسلام کی حقانیت کو ثابت کرے تو اسے بھی ھائی لائٹ نہیں کرتے ۔ انہوں نے کہا کہ چاند پر پہنچنے والے ڈاکٹروں نے بھی ازان سننے کی خبر دی تھی لیکن مسلم میڈیا نے جس حد تک اسے اجاگر کرنا چاہیے تھا نہیں کیا ۔ اسلام سے محبت کا تقاضا تھا کہ باوسائل اسلامی ممالک مزید ریسرچ کرواتے بلکہ ریسرچ سسٹم قائم کر کے سائنس اور اسلام کے تعلق سے دنیا کو آگاہ کرتے مگر بد قسمتی سے نظام تعلیم انحطاط پزیر ہے جسکی وجہ میڈیکل شعبوں کو مغرب میں تحقیق اعراس کے نتائج کا انتظار رہتا ہے۔

مغرب خود تسلیم کرتا ہے کہ پندرویں صدی تک دنیا مسلمانوں کی سائنسی ترقی پر انحصار کرتی تھی۔ برطانوی مصنفین خود کہتے ہیں کہ خلیفہ بغداد کے دور میں برطانیہ کے لارڈز اور بیرونس کی اکثریت بمشکل نام لکھنا جانتے تھے جبکہ خلیفہ بغداد کی سلطنت میں 12 سال کی عمر کا ہر بچہ اور بچی سکول جاتے تھے اور تعلیم مفت تھی۔ سلطنت عثمانیہ کے عروج و زوال کے پیچھے تعلیمی شعبے کی ترقی و تنزلی کارفرما تھی وہاں اقتدار کی خاطر اندرونی سازشوں کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔ مسلمان حکمران ہر جگہ اقتدار کی خاطر لڑنا شروع ہو گے تھے جس سے بیرونی قوتوں نے فائدہ اٹھا کر اسلام کا شیرازہ بکھیر دیا ۔ اندرونی خانہ جنگی نے انکی توجہ تعلیم سے ھٹا کر اپنے دفاع پر لگا دی۔ اندرونی خانہ جنگی اور بیرونی سازشوں نے نو آبادیاتی نظام کا راستہ ہموار کیا جس کے نتیجے میں مغرب دنیا پر چھا گیا اور ہم دو وقت کی روٹی کو ترسنے لگے۔ تعلیم کے دروازے خود بخود بند ہو گے۔ اب مسلمان ممالک بہت کچھ کر سکتے ہیں مگر وہ فرقہ واریت ، غیر جمہوری نظام اور تعصبات کا شکار ہیں۔ وہ اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ مسلمانوں کی قیادت کا حق عربوں کا ہے یا اجمی مسلمانوں کا جسکی ایک مثال تین سال قبل ملیشیا اسلامی سمٹ ہے جس میں سعودی عرب نے خود بھی شرکت نہ کی اور پاکستان کو بھی نہ کرنے دی۔ برحال تعصبات اور فرقہ واریت سے چھٹکارا پا کر ایک صحت مندانہ سیاسی ، اقتصادی اور تعلیمی نظام کی بحالی ناگزیر ہے۔ اسلامی دنیا میں مائرین کی کمی نہیں لیکن تحقیق و تخلیق کے لیے انکو حکومتوں کی طرف سے مالی وسائل مہیا کرنے کی ضرورت یے۔

تعارف: قیوم راجہ

ایک تبصرہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*