فلسطین : اقبال کی نظر میں ! سید مرتضیٰ صاحب فصول

فلسطین : اقبال کی نظر میں ! سید مرتضیٰ صاحب فصول

سیدمرتضیٰ صاحب فصول

تحریر : سیدمرتضیٰ صاحب فصول (سابق ثقافتی قونصلر ایران۔ اسلام آباد)

آج اس بات سے مسرت ہورہی ہے کہ ہم علامہ اقبال کے افکار عالیہ کی عظمت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں تاکہ معاصر انسان کے لیے ان کی راہنمائیوں پر ایک نگاہ کریں۔ میں علامہ اقبال یونیورسٹی کا شکرگزار ہوں جس نے اس فریضہ کی ادائیگی کے سلسلے میں کمر ہمت باندھی اور امید کرتا ہوں کہ ہم ان تمام لحظات میں جو یہاں باہم گذاریں گے اس بیدار مفکر کے شجرِدانش و بصیرت سے خوشہ چینی کریں گے۔
”فلسطین، اقبال کی نظر میں“ میرے اس مقالے کا عنوان ہے۔ بادی النظر میں شاید یہ بات عجیب معلوم ہو کہ ایک ایسی شخصیت جو صہیونستی غاصب ریاست کی تشکیل سے پہلے ہی اس دنیا سے جاچکی تھی اس کے افکار، گفتار اور نوشتار نے کس حد تک اس واقعہ کی کامیاب پیش بینی کی اور اس سلسلے میں اس کی رہنمائی موجودہ دور کے لوگوں کے لیے سمت دہندہ ہے۔
حق یہ ہے کہ علامہ اقبال نے ایک روشن خیال متعہد اور دور اندیش مصلح کے طور پر اسلامی معاشرے کی مصلحتوں کو اپنی تلاش اور جدوجہد کا مطمح نظر قرار دے رکھا تھا اوراپنے اردگرد موجود لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں وقف کررکھی تھیں۔
دنیا اور بین الاقوامی سیاست سے متعلق اقبال کی شناخت نے معاصر مسلمانوں کے لیے راہ کی دشواریاں اور اس کی پرخطر کھائیوں اور گھاٹیوں کو واضح کردیا اور اس کے نتیجے میں ان مناسب حکمت عملیوں کو، جو ان کی عقل رسا سے ظہور پذیر ہوئیں انہوں نے اپنے گہرے عشق سے ممزوج کرکے اپنے اشعار و مکتوبات کے ذریعے دوسروں کو منتقل کیا۔
اٹھارویں سے بیسویں صدی تک اہل مغرب کی مہم جوئی،نفع اندوزی اور تفوق طلبی جس کی وجہ سے ان کے طمع کے تیز اور نوکیلے دانت مشرقی ممالک کی سرزمینوں میں گڑھے ہوئے تھے، اور دوسری طرف مسلمانوں کی عدم آگہی اور بے توجہی نے اقبال کو آئندہ نسلوں کے مستقبل کے بارے میں پریشان کیا ہوا تھا۔ اسی دوران اسلامی ممالک کے سربراہوں کی نالائقیاں، خودفروشیاں اور غداریاں تھیں کہ وہ اس بات کے لیے تیار تھے کہ کسی قیمت پر بھی اپنے ملکوں کو اغیار کے ہاتھ بیج دیں اور اپنی چند روزہ طاقت، مال اور حکومت کو باقی رکھیں اور اس طرح مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ بے پناہ اور بے آسرا کردیں اور یہی فکر یں اور اندیشے اس آگاہ مصلح کو شب و روز مشغول کیے رکھتے تھے۔ ان مسائل اور مشکلات کے حل کی راہ جو اقبال نے دکھائی وہ سب کے لیے اظہر من الشمس اور آشکار ہے یعنی خود شناسی یا اپنے آپ کو پالینا اور علمی و تمدنی پس ماندگی کو دور کرنا۔ان کا کہنا تھا:
گفت جانا محرم اسرار شو

خاور از خواب گران بیدار شو
ہیچ قومی زیر چرخ لاجورد

بی جنون ذو فنون کاری نکرد
احتساب خویش کن از خود مرو

یک دو دم از غیر خود بیگانہ شو
تا کجا این خوف و وسواس و ہراس

اندر این کشور مقام خود شناس
شعلہ ای از خاک آن باز آفرین

آن طلب، آن جستجو باز آفرین
اس مجموعی خوف و اندیشہ کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے خاص موضوعات بھی تھے جنہوں نے اقبال کے فکر کو اپنی طرف مبذول کررکھا تھا۔ ان میں سے بعض قومی، بعض علاقائی اور بعض بین الاقوامی تھے۔
ان اہم ترین فکروں اور اندیشوں میں سے ایک موضوع فلسطین کا تھا۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ عالم اسلام کے عین وسط میں ایک صہیونسٹی حکومت کا وجود میں آنا ایک تیس سالہ سازش کا ماحصل تھا جس میں روس، امریکا اور انگلستان کے سیاستدانوں نے،جو اس سازش کے اہم ترین عامل اور کارگزار تھے حصہ لیا اور جس کا ایک نتیجہ عثمانی سلطنت کا سقوط اور عالم اسلام کے مختلف حصوں میں نسلی، لسانی اختلافات پیدا کرکے اپنے لیے ایک مستقر اور دستاویز کا تیار کرنا تھا۔
اگرچہ عثمانی سلطنت اس دور میں اسلام کے ایک ظاہری پوست کی حامل تھی جبکہ تفرقہ سازیوں اور استعمار زدگیوں نے اس کے بعد مسلمانوں کی حالت اور بھی بدتر کردی۔ علامہ اقبال نے عالم اسلام کی پہلی اور بعد کی حالت سے متعلق اپنی پریشانی اور اضطراب کا اظہار ہر کوچہ و خیابان میں کیا ان کا کہنا تھا:
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار
یہ پیر کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے
بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل
تدبیر سے کُھلتا نہیں یہ عقدہئ دشوار
ترکان جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
ایک اور مقام پر شاہان وقت میں سے ایک کی غداری کا گلہ کرتے ہیں کہ اس نے مغربی استعمار سے مل کر عثمانی ترکوں کے خلاف سازش کی:
بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی(ص)
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
آگ ہے، اولادِ ابراہیم(ع) ہے، نمرود ہے!
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟
اقبال نے عوام کے لیے ایجاد کیے گئے اس پرفریب نظریے کو رد کردیا کہ چونکہ یہودی کسی قدیم زمانے میں سالہا سال سرزمین فلسطین میں بود و باش رکھتے تھے اور پھر مدتوں پہلے اسے ترک کردیا اس لیے اس سرزمین پر ان کا ایک تاریخی حق ہے اور ان کو اجازت دی جانی چاہیے کہ فلسطینی مسلمانوں کی زمینوں کو خریدے بغیر ان کے مالک بن جائیں اور وہاں رہائش اختیار کرلیں۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ اگر سابقہ ملکیت اور سکونت کسی کے لیے یہ حق ثابت کرسکتی ہے تو پھر مسلمانوں کو اندلس کی سرزمین پر حق حاکمیت اور حکومت کیوں حاصل نہیں انہیں وہاں سے بے رحمی سے نکال دیا گیا تھا جبکہ یہودیوں نے صدیوں پہلے فلسطین کو خود ترک کردیا تھا مگر مسلمانوں نے نکالے جانے سے پہلے اسپین کو ترک نہیں کیا تھا۔
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
ہرچند کہ یہ موضوع آپ کے لیے نیا ہو تاہم اقبال کے اشعار اور خطوط سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ اس حکیم رہنما نے اس سازش کے واقع ہوجانے سے پہلے ہی اس کی تشخص کرلی اور اس سے بچنے کے لیے پروگرام وضع کیا تھا۔ انہوں نے اس تاریخی سازش یعنی عالم اسلام کے وسط میں ایک سرطانی غدود پیدا کرنے سے نجات حاصل کرنے کی راہ پالی تھی اور زندگی کے آخری لحظات تک اس مقصد کے لیے سرگرم رہے۔ ان کی کاوشوں کے اس سلسلے کو تین حصوں میں بیان کیا جاسکتا ہے:
ان کا عقیدہ تھا کہ:
۱- مسلمانوں کو چاہیے کہ تفرقہ انگیزی کی ان تمام حدود سے جو مغربی استعمار نے ان کے لیے بنائی ہیں اجتناب کریں اور وحدت اسلامی کی طرف لوٹ آئیں۔ وہ معتقد تھے کہ مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ نے جو نیشنلزم یا قومیت کا حربہ استعمال کیا وہ عالم اسلام کے اتحاد کو پار ہ پارہ کرنے کے لیے تھا۔ چنانچہ اس نے اس کے عظیم پیکر سے چھوٹے چھوٹے اور کمزور ممالک نکالے اس لیے کہ نسلی، قومی اور لسانی سرحدوں کے اجاگر کرنے سے اس کے لیے اسلامی سرزمینوں پر تسلط آسان ہو جاتا ہے۔ اقبال نے فرمایا ہم سب خواہ کسی نسل و رنگ سے ہوں ہمیں اسلام کی طرف لوٹ جانا چاہیے:
تو ای کودک منش خود را ادب کن
مسلمان زادہ ای ترک نسب کن
بہ رنگ احمر و خون و رگ و پوست
عرب نازد اگر ترک نسب کن
اسی طرح وہ ایران کی شہنشاہی حکومتی کی اس لیے مذمت کرتے تھے کہ وہ حد سے زیادہ آریائی نسل پر تکیہ کرتی تھی چنانچہ انہوں نے کہا:
باوطن پیوست و از خود در گذشت
دل بہ رستم داد و از حیدر گذشت
یکرنگی و یکجہتی کا نعرہ وہی نعرہ ہے جو ان کے لوح قبر پر نقش کیاگیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہیہ وہی چیز ہے جس امنگ کے لیے شاعر نے اپنی پر برکت زندگی وقف کر دی تھی:
نہ افغانیم و نی ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم
تمیز رنگ و بو بر ما حرام است
کہ ما پروردہ یک نوبہاریم
۲- اقبال کا یہ نظریہ تھا کہ فلسطین کے موضوع کو محض عربوں کا مسئلہ نہ جاننا چاہیے بلکہ یہ تمام عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ یہاں تک کہ اس کے نتیجے میں اگر ہمارے خود فروختہ حکمران غاصب دشمن کے ساتھ مذاکرات کے میز پر بیٹھیں تب بھی اس سانحہ کوختم تصور نہ کرناچاہیے اور اگر کوئی مسلمان ملک سربراہ کے طو رپر اس میں غداری کرے گا تو گویا وہ اپنی قوم کا اعتماد کھو دے گا۔
اقبال نے ۷۳۹۱ء میں اپنی وفات سے چند ماہ قبل کے اس اعلامیہ میں جو برطانیہ کی طرف سے فلسطین کی اراضی کی تقسیم کے موقع پر انہوں نے صادر کیا تھا،اعلان کیا ”دنیا کے تمام مسلمان اپنی تمام تر طاقت اور قوت کے ساتھ یہ اعلان کریں کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کامسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو عالم اسلام کو شدید طور پر متاثر کرے گا۔ مسئلہ فلسطین تاریخی نقطہئ نظر مسلمانوں سے مخصوص ہے۔ یہ مسئلہ کبھی بھی عیسائیوں کا مسئلہ نہیں رہا ہے۔ اب جبکہ یہودیوں کے لیے ایک وطن تشکیل دینے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں تو یہ ایک چال ہے تاکہ برطانوی استعمار مقدس اسلامی علاقوں پر قبضہ جمالے۔ ہمیں یہ فراموش نہ کرنا چاہیے کہ فلسطین انگریزوں کی قومی میراث نہیں ہے اور یہودیوں کا فلسطین پر کوئی حق نہیں ہے۔ زرخیز زمینیں یہودیوں کے لیے اور سنگلاخ پتھریلی زمینوں کا عربوں کے لیے مخصوص کیا جانا ایک عظیم بے انصافی ہے۔عربوں کو جان لینا چاہیے کہ اس کے بعد وہ اپنے ان شاہوں پر ہرگز اعتماد نہیں کر سکتے جو کہ فلسطین کے بارے میں منصفانہ اور قطعی رائے کا اظہار نہیں کرتے۔“اقبال عربوں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ ”عرب اقوام اپنے قومی مسائل میں غور و فکر کریں وہ اپنے شاہوں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ موجودہ حالات میں ان کے حکمران ضروری صلاحیت اور قابلیت سے محروم ہیں۔عرب اقوام کو چاہیے کہ فلسطین سے متعلق اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں۔“
علامہ اقبال اپنے ایک خط میں قائداعظم محمد علی جناح کو لکھتے ہیں:
”میں اس بات کے لیے تیار ہوں کہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی خاطر جیل جاؤں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام عالم اسلام کے لیے انتہائی عظیم مسئلہ ہے۔ فلسطین ایشیا کا دروازہ ہے جس سے استعمار سوء استفادہ کرکے اور اس کا استحصال کر رہا ہے۔“
۳۔ اقبال کا یہ اعتقاد تھا کہ ”مسلمان مسئلہ فلسطین کو صرف اسی صورت میں حل کرسکتے ہیں جب دوسروں کے ذریعے اس مسئلے کے حل کی امیدیں ختم کرکے اپنی طاقت پر اعتماد کریں۔“
اقبال نے ۱۳۹۱ء میں بیت المقدس میں اولین موتمر عالم اسلام میں ہندوستانی مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر شرکت کی۔ اس کانفرنس کے سیکریٹری جنرل سید ضیا الدین طباطبائی ایک دن اپنے دوستوں سے کہہ رہے تھے۔”چونکہ علامہ اقبال مرحوم عربی میں گفتگو نہ کرسکتے تھے لہٰذا وہ انگریزی زبان میں بات کررہے تھے اور میں اس کا عربی زبان میں ترجمہ کر رہا تھا۔ انہوں نے ایک مقام پر اپنے تین فارسی شعر پڑھے جو طارق بن زیاد کے اندلس میں تاریخی خطاب پر تھے۔
ان اشعار نے شرکائے کانفرنس پر ایسا وجد طاری کردیا جو ناقابل بیان ہے۔ سب حاضرین نے ان کی فطری طاقت اور بلاغت بیان کی تعریف کی اور اعتراف کیا کہ عرب ادبا اور شعرا میں سے کسی کا ایسا کلام آج تک ان کی نظروں سے نہیں گذرا جس نے اس طارق کے اس خطاب کو اس اعجاز سے بیان کیا ہو اور وہ فارسی شعر ملاحظہ ہو:
طارق چو بر کنارہئ اندلس سفینہ سوخت
گفتند کار تو ز نگاہ خرد خطاست
دوریم از سواد وطن باز چون رسیم
ترک سبب ز روی شریعت کجا رواست؟
خندید و دست خویش بہ شمشیر برد و گفت
ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدای ماست
حاصل کلام یہ کہ اقبال معتقد تھے کہ مسلمان اقوام صرف اس صورت میں اس مسئلے کو حل کرسکتی ہیں کہ اپنی کشتیوں اور پلوں کو جلا دیں اور اس مقابلے کے لیے عزم صمیم اختیار کریں۔
۴۔ اقبال معتقد تھے کہ مسلمان، خصوصاً فلسطینی عرب ناچار ہیں کہ اپنے دشمنوں کو پہچانیں اور جن سے دوستی کا اظہار کرتے ہیں ان سے امید نہ کریں۔ وہ اپنی اراضی پر قبضے کی مشکل سے نجات کے لیے مغرب سے امید نہ رکھیں کیونکہ وہ افراد جو مغرب کے لیے فیصلے کرتے ہیں وہی صہیونست یہودی ہیں جو فلسطینی عربوں کے گھروں پر قابض ہیں:

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہئ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے!
آخر میں اس عظیم مصلح کی رائے میں فلسطین پر ناجائز قبضے کے پیچیدہ مسئلہ سے باہر نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ مسلمان واحد محاذ بنا لیں۔ وہ لیگ آف نیشنز کے کردار سے، جو ان دنوں موجودہ اقوام متحدہ کا کردار ادا کرتی تھی، مایوس تھے اور اپنے لیے ایک اور مرکز ثقل بنانے کے قائل تھے۔ اپنی ایک پریس ریلیز میں جس کی طرف اشارہ کرچکاہوں وہ فرماتے ہیں: یہ بھی ممکن ہے کہ مسئلہ فلسطین مسلمانوں کو مجبور کردے کہ وہ لیگ آف نیشنز سے جو انگریزوں اور فرانسیسیوں کے لیے ایک نفع بخش ادارہ ہے جان چھڑا کر اپنے لیے ایک”ایشیائی اقوام متحدہ“کو وجود میں لے آئیں چونکہ اقوام متحدہ جو پہلی عالمگیر جنگ کے بعد جنیوا میں تشکیل دی گئی وہ فقط ایک آڑ اور فریب ہے انگلستان اور فرانس کے لیے کہ وہ کمزور اقوام کو آپس میں بانٹ لیں۔
من ازین بیش ندانم کہ کفن دزدی چند
بہر تقسیم قبور انجمنی ساختہ اند
بہنوں اور بھائیو!
اسی مقام پر ہمارے اس پاک سرشت مصلح نے ایشیائی اقوام متحدہ کا تخیل پیش کیا تھا اور ان کا وہ معروف شعر بھی اس جگہ حسن ختام کے طور پر پیش کرتا ہوں:
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہئ ارض کی تقدیر بدل جائے

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*