پیغمبررو پیغام (پیغمبر کا پیغام ) انٹرویو : بھارت کے ہندو نے قرآن کا ترجمہ کرڈالا

پیغمبر رو پیغام (پیغمبر کا پیغام )
انٹرویو : رانا علی زوہیب

عنوان : پیغمبر رو پیغام (پیغمبر کا پیغام ) (کتاب)
کتاب کا لکھاری : راجیو شرما ( گاؤں کلیسیا ، ضلع جُنجنو ، راجھستان ، انڈیا )

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور ہمارے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی بدولت اس دنیا کی تخلیق فرمائی ۔ جب یہ دنیا تخلیق فرمائی تو اسکی رہنمائی کے لیے یکے بعد دیگرے مختلف ادوار میں نبی اور رسول بھیجے جو اس وقت کی قوم کی رہنمائی فرماتے اور انہیں ایک خدا کی دعوت دیتے ، اچھائی اور برائی میں تمیز کرنا سکھاتے ۔ یہ سلسلہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرروں تک چلا اور بالآخر نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ پر آکر ختم ہوا ۔
بلا شبہ حضور نبی کریم ﷺ تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے ، جہالت میں ڈوبے ہوئے معاشرے کو اجالے کی طرف لے کر گئے ، آسمان سے آخری اور مقدس کتاب ”قرآن“ آپﷺ پر نازل فرمائی جو نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ اس دنیا میں موجود ہر زی روح کے لیے ایک مشعل راہ ہے ۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا ایمان بہت مضبوط ہے اور ہم قرآن اور حدیث اور حضور نبی کریم ﷺ کی حیات سے سبق سیکھتے ہیں اور انکی پیروی کرتے ہیں ۔ آج ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں جہاں سائنس نے اتنی ترقی کی ہے وہاں وہی سائنس ہماری مقدس کتاب کو جھٹلانے میں ناکامیاب رہی ۔ چودہ سو سال پہلے جو ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا وہ آج چودہ سوسال بعد سائنس اسکو ثابت کر رہی ہے کہ جی ہاں بالکل ویسا ہی ہے ۔
مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اسلام اور قرآن کی تعلیمات سے استفادہ ہوتے ہیں ، مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج مسلمان اپنے اصل مقصد سے ہٹ گیا ہے ، قرآن کی تعلیمات پر عمل نہیں کیا جا رہا اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہم آج زلت اور پسپائی کی طرف گامزن ہیں ، شاعر مشرق نے کیا خوب کہا ہے
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
آج ہمارے پاس قرآن بھی ہے ، تعلیم بھی ہے ، شعور بھی ہے لیکن اسکو سمجھنے کے لیے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے شاید توفیق نہیں ہے ، نفسا نفسی کے عالم میں اتنا گھِر چکے ہیں کہ اپنے اصل کی طرف دھیان نہیں ہے ۔
کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ مجھے واٹس ایپ پر ایک میسج موصول ہوا۔ میسج میرے ایک عزیز دوست پرامود شرما کا تھا جسکا تعلق چندی گڑھ انڈیا سے ہے ۔ میسج کو کھول کر دیکھتا ہوں کہ کہ انڈیا کے مشہور ٹی وی چینل کے اسٹوڈیو میں ایک ہندو مذہب اور برہمن ذات سے تعلق رکھنے والے شخص ”راجیو شرما “ کا انٹرویو لیا جا رہا ہے ۔ قریب دس منٹ کا انٹرویو تھا ، انٹرویو کیا تھا کہ جیسے جیسے وہ سنتا گیا میں سکتے میں گم ہوتا گیا ۔
ایک ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص کے پاس اسلام کا اتنا وسیع علم کیسے آگیا ؟ دماغ میں وسوسے بھر گئے ، سوالوں کی بوچھاڑ ہونے لگی ۔ راجیو شرما نے حضورﷺ کی حیاتی پر مارواڑی زبان میں کتاب لکھ ڈالی ۔ مارواڑی زبان انڈیا کے سٹیٹ راجھستان میں بولی جاتی ہے ۔ مارواڑی زبان میں حضورﷺ کی حیاتی پر لکھی جانے والی یہ پہلی کتاب ہے ۔
انٹرویو سننا تھا کہ فورا میں نے پرامود شرما سے رابطہ کیا اور لکھاری کا نام پتا پوچھنا شروع کردیا ۔ ایک ہفتے کی تگ و دو کے بعد راجیو شرما کے ذاتی موبائل نمبر پر کال کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ کال کرنے کے بعد اس سے وقت مقرر کیا اور انٹرویو کے لیے تیار کرلیا ۔ راجیو شرما سے کیا گفتگو ہوئی ، کتاب کیسے لکھی ، کیوں کتاب لکھی گئی ، ان سب سوالوں کا جواب آپ کی نظر ایک انٹرویو کی شکل میں کیے دیتا ہوں ۔

تعارف راجیو شرما
راجیو شرما 6 اگست 1987 کو بھارت کی ریاست راجھستان کے ضلع” جُنجنو “کے ایک چھوٹے سے گاؤں ” کولیسیا “ میں پیدا ہوا ۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے سرکاری سکول سے حاصل کی ۔ راجیو شرما کا تعلق ”ہندو“ مذہب اور ”برہمن“ فیملی سے ہے ۔ راجیو کی فیملی میں 4 بہن بھائی ، ماں اور باپ شامل ہیں ۔ راجیو کو بچپن سے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا ۔ پہلی کلاس سے لیکر آکر تک ہمیشہ کلاس میں فرسٹ آتا رہا ۔ کتابیں پڑھنے کے شوق نے آج اسے نہج پر پہنچا دیا کہ سرور کائنات حضرت محمدﷺ کی حیات طیبہ پر کتاب لکھ ڈالی ۔
راجیو شرما کو چونکہ کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اس لیے انکے انگریزی کے استاد (سردارسنگھ جی) نے انکا رجحان مزید کتابوں کی طرف بڑھانے کے لیے راجیو کو انگریزی زبان میں کتابیں لاکر دینا شروع کی جو راجیو شرما نے پڑھنا شروع کی ۔ راجیو کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی ہے جو اپنے بچوں کو سرکاری سکول میں پڑھانے کے علاوہ کہیں اور پرائیویٹ نہیں پڑھا سکتی تھی ۔
کتابیں پڑھنے کا شوق جب حد سے بڑھا اور سکول کی لائبریری میں موجود کتابیں کم پڑنے لگی تو راجیو نے یہ فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اپنے گھر میں بھی ایک لائبریری بنا لی جائے ۔
راجیو شرما نے اپنی حویلی میں موجود میں کمرے کو صاف کیا اور اسے لائبریری بناڈالا ۔ لائبریری تو بن گئی لیکن اس میں کتابیں کہاں سے آئیں ؟ اسکے لیے راجیو شرما نے ہندوستان کے مختلف پبلشرز کو خط لکھنا شروع کیے اور اپنی ذاتی لائبریری میں کتابوں کو جمع کرنا شروع کردیا ۔
عبدالستار ایدھی کی کتاب کب پڑی ؟
اپنے گھر کی لائبریری میں موجود کتابوں میں ایک دن راجیو شرما کی نظر لائبریری میں موجود ایک کتاب پر پڑی ۔ کتاب کسی ہندوستانی رائٹر نے لکھی تھی ۔ کتاب پاکستان میں موجود ایدھی فاؤنڈیشن کے فاؤنڈر ”عبدالستار ایدھی“ کی حیاتی پر لکھی گئی تھی ۔ راجیو نے وہ کتاب پڑھی اور ان جذبات کا اظہار کیا کہ ” اس دنیا میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دھرم سے ہٹ کر سب سے پہلے انسانیت کی خدمت کرتے ہیں ، انسانیت ہی سب کچھ ہے ، کیسے ایک بوڑھا شخص ان بچوں کو پال رہا ہے جن کو زمانہ اور خود انکو پیدا کرنے والے ٹھکرا دیتے ہیں ۔ عبدالستار ایدھی جیسے لوگ اللہ ہر ملک کو عطا کرے “ ۔

اسلام کی طرف توجہ کیسے ہوئی ؟
راجیو شرما نویں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا جب 9/11 کا واقعہ پیش آیا ۔ سکول سے واپسی پر راجیو نے دیکھا کہ اسکے گاؤں میں ایک درخت کے نیچے کچھ لوگ جمع ہیں ، پاس جا کر معلوم ہوا کہ وہ لوگ امریکہ میں ہونے والے دہشتگردانہ واقعے کا زکر رہے تھے ، راجیو کا کہنا تھا کہ اس نے سنا
”امریکہ میں حملہ ’اسامہ بن لادن‘ نے کیا ہے اور وہ ایک مسلم ہے
حملہ کرنے کے لیے اس نے انسپائریشن ”قرآن“ سے لی ، قرآن نے اسے حملہ
کرنے کے لیے مجبور کیا “
راجیو شرما نے جب یہ باتیں سنی تو فورا واپس مڑااور اپنی لائبریری میں پہنچ گیا ۔ لائبریری میں پڑا قرآن اٹھایا اور اسکا مطالعہ شروع کردیا ۔ پڑھتے پڑھتے اور قرآن کو سمجھتے سمجھتے جب وہ (سورتہ المائدہ.31-32) آیت پر پہنچا
”اسی سبب سے، ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے کے بٍغیر یا زمین میں فساد (روکنے) کے علاوہ قتل کیا (یعنی قاتل و فسادی کے علاوہ کسی کو قتل کیا) تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی، اور ہمارے رسول ان کے پاس کھلے حکم لا چکے ہیں پھر بھی ان میں بہت سے لوگ اس کے بعد بھی زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں۔”
تو راجیو نے قرآن کو بند کیا اور ایک لمبی سانس بھر کر کہا کہ ” ایک سچا مسلمان ، قرآن کو ماننے والا کسی کو ناحق قتل نہیں کر سکتا ، جس مذہب کی کتاب یہ کہہ رہی ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا ، جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی تو وہ مذہب(اسلام) اس طرح کے دہشتگردانہ حملوں کی اجازت کیسے دے سکتا ہے یا وہ شخص خود کو مسلمان کیسے کہہ سکتا ہے جو اپنے ہی مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہو “ ۔

سوال : اسلام اور دہشتگردی کا کیا تعلق ہے آپ کی نظر میں ؟
جواب (راجیو شرما)” دہشتگردی کی وجوہات الگ الگ ہوتی ہیں ، دنیا میں کوئی بھی مذہب خواہ وہ ہندو ہو ، اسلام ہو ، عیسائی ہو دہشتگردی نہیں سکھاتا ۔ اسلام نے ہمیشہ امن کا پیغام دیا ہے ، میں سمجھتا ہوں لوگوں نے قرآن پڑھا ہی نہیں ہے ، سنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں ۔ پوری انسانیت کا سبق اس ایک آیت میں چھپا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ جس نے کسی ایک جو ناحق قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا ۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں ، فسادی ہر دور میں پائے گئے ہیں ، حضور ﷺ کے دور میں بھی موجود تھے تو کیا ہم اب اسلام کو غلط کہہ دیں ، ہم قرآن کو غلط کہہ دیں ؟ سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے اگر ہم خود سے تحقیق کرلیں تو شاید ہمارا زہن کچھ اور ہو اور ہم سیدھے راستے پر چل پڑیں ۔سریا میں کیا ہو رہا ہے ؟ عیسائی عیسائی کو مار رہے ہیں ، یورپ عیسائیت کو ختم کرنے پر تُلا ہے ، کیا ہے یہ سب ، میں سمجھتا ہوں قرآن کو پڑھنا تو ضروری ہے لیکن اسکو پڑھنے کے ساتھ ساتھ سمجھنا اور اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔ آج روس قرآن کے نقش قدم پر چل رہا ہے ، برطانیہ قرآن کی تعلیمات کو لے کر کے اپنی حکومت چلا رہا ہے ، تو پوری انسانیت اس ایک کتاب میں سموئی ہوئی ہے جسکا نام قرآن ہے ۔
مسلمانوں میں بھی کچھ فسادی ہیں جیسے ہندوؤں میں ہیں جیسے دوسرے مذاہب میں ہیں لیکن اسکا مطلب یہ تو نہیں پوری کمیونٹی غلط ہے ، ایک شخص کی خاطر ہم کمیونٹی ، اسکے مذہب ، اسکی کتاب کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے ۔ اسلیے سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے قرآن کو پڑھا جائے اور سمجھا جائے تو بہتر ہے ۔

سوال : حضورﷺ کی حیات طیبہ پر کیوں لکھا ؟ جبکہ آپ کا تعلق ایک ہندو مذہب سے ہے ۔
جواب (راجیو شرما) : قرآن کو پڑھنے کے بعد پھر یہ ضروری تھا کہ یہ قرآن جس ہستی پر اتارا گیا اسکو بھی پڑھا جائے ۔ تو میں نے حضور ﷺ کی احادیث کو پڑھان شروع کیا ، قرآن چونکہ عربی زبان میں تھا تو عربی پڑھنے کے لیے مجھے پہلے سات سے آٹھ زبانیں سیکھنا پڑیں ، مختلف زبانیں سیکھ کر عربی زبان سیکھ کر پھر قرآن پڑھا اور احادیث پڑھنا شروع کیں اور حضورﷺ کی حیات کو پڑھا اور پڑھنے کے بعد میں اتنا متاثر ہوا کہ میں نے یہ سوچا کہ میں اپنی زبان ”مارواڑی“ میں حضورﷺ کی حیاتی لکھوں تاکہ میں اپنے مذہب اور مسلمان بھائیوں کے لیے کچھ کر سکوں ۔

سوال : کس چیز نے متاثر کیا کہ آپ کتاب لکھنے پر مجبور ہوگئے ؟
جواب (راجیو شرما) حضورﷺ کی حیاتی کو پڑھتے ہوئے میں جب جنگ بدر کو پڑھا تو میں متاثر ہوئے نہ رہ پایا ، اس میں سب سے بہترین جو چیز تھی وہ تھی ” تعلیم کے بدلے رہائی “ ۔ یعنی جب جنگی قیدیوں کو حضورﷺ کے سامنے لایا گیا اور انکا مقدمہ چلا تو جو مالدار تھے ان کو مال کے بدلے رہا کیا گیا اور جو پڑھے لکھے تھے لیکن مالدار نہیں تھے فدیہ نہیں دے سکتے تھے انکو کہا گیا کہ ” ایک قیدی دس مسلمان بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھائے گا تو اسے رہا کردیا جائے گا “ ۔ مطلب آج سے چودہ سو سال پہلے ایک ایسی ہستی اس دنیا میں موجود تھی جسے تعلیم کی فکر تھی ۔ اور اس نے تعلیم کو ترجیح دیتے ہوئے جنگی قیدیوں کو تعلیم کے بدلے رہائی دے دی ۔ میرے لیے یہ بہت متاثر کن بات تھی کہ آج سے چودہ سو سال پہلے تعلیم کے بارے میں اتنی غورو فکر کرنے والی ہستی موجود ہے جسے اپنی امت کی تعلیم کی فکر ہے ۔ تومجھے سب سے زیادہ متاثر کرنے والی چیز انکی تعلیم کے لیے فکر تھی جس نے مجھے متاثر کیا اور میں نے بھی یہ عہد کیا کہ میں اب انکی حیاتی ، انکی تعلیمات کو اپنے دیش میں اپنے مسلمان بھائیوں میں متعارف کرواؤں اپنی زبان میں جو عربی نہیں پڑھ سکتے اور وہ قرآن اور حدیث کی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں ۔ اسکے علاوہ اگر ہم قرآن کو دیکھیں تو جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ بھی ”اقراء“ یعنی پڑھ کے نام سے تھی ، تو اسلام کی ابتدا ہی تعلیم سے ہوئی ، کتاب کی ابتدا تعلیم سے ہوئی ، تو وہ ہستی کیسے نہ سوچتی کہ امت کو کیسے تعلیم دلائی جائے ۔

سوال : کتاب لکھنے کے لیے کتنا وقت لیتے تھے اور کس وقت لکھتے تھے ؟
جواب (راجیو شرما) میں صبح 9 بجے دفتر جاتا تھا اور شام کو 5 بجے جب چھٹی ہوتی تھی اس وقت لوکل ٹرانسپورٹ بھی بند ہو چکی ہوتی تھی ، حالات ایسے نہیں تھے کہ کوئی سائیکل خرید سکتا ۔ اس لیے دفتر سے روز پیدل گھر جاتا تھا ۔ پیدل گھر پہنچتے ہوئے مجھے 8 بج جاتے تھے اور سارا راستہ پیدل چلتے ہوئے میں اپنے دماغ میں ساری باتیں سوچ لیتا تھا کہ آج کیا لکھنا ہے ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ وہ میرا پیدل چلنا میرے لیے سود مند ثابت ہوا کہ میں سارا راستہ سوچتا اور گھر آکر اسکو لکھ لیتا ۔ رات 9 بجے کے بعد میں لکھنے بیٹھتا اور جو کچھ بھی دفتر سے واپسی پر سوچتا وہ میں لکھ دیتا ، اور روزانہ تقریبا ایک گھنٹہ لگاتار لکھتا رہتا میں ۔

سوال : کتاب لکھنے میں سب سے زیادہ مدد کس نے کی ؟
جواب (راجیو شرما) میری ساری فیملی نے مجھے سپورٹ کیا ، میری دو بہنوں کی شادی ہو چکی ہے ایک بھائی ہے جو چارٹڈ اکاؤنٹنٹ ہے ، میں جب دفتر سے گھر آتا اور کھانا وغیرہ کھا کر لکھنے بیٹھتا تو میری والدہ میرے پاس موجود ہوتی ، کیوں کہ مجھے مارواڑی زبان میں کتاب لکھنی تھی اور مجھے اردو اور ہندی کے کچھ الفاظ ایسے تھے جنکی سمجھ نہیں آتی تھیاس لیے ان الفاظ کے مطلب جاننے کے لیے اور ٹرانسلیشن کے لیے میری والدہ میرے پاس موجود ہوتیں اور جب تک میں لکھتا وہ مجھے ساتھ ساتھ مارواڑی زبان کے لفظ سمجھاتی۔ اس لیے یہ کتاب لکھنے میں سب سے زیادہ وقت اور سپورٹ میری والدہ نے مجھے کیا ہے ، ان کی وجہ سے میں یہ کتاب لکھنے میں کامیاب ہو پایا ہوں ۔

سوال : سب سے زیادہ مشکل کس مرحلے میں آئی ؟
جواب (راجیو شرما) کتاب لکھنے میں کوئی دقت نہیں آئی ، میرے دوست احباب ، فیملی اور گاؤں کے لوگ بہت اچھے ہیں اور بہت زیادہ سپورٹ بھی کرتے ہیں ۔ اس لیے مجھے کتاب لکھنے میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا ۔
لیکن کتاب جب لکھ لی تو حیدر آباد میں موجود ”جماعت اسلامی ہند “ کے سربراہ نے مجھے بلایا ، میں ان سے ملنے گیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور میری تعریف بھی کی ۔ مولانا سے ملاقات کے بعد مجھے مسئلہ پیش آیا میرے دفتر میں جہاں میں کام کرتا تھا ۔ میرے سینئرز اور انچارج مجھ سے خفا رہنے لگے ، میرے ساتھ انکا تعلق آہستہ آہستہ خراب ہوتا گیا اور مجبورا مجھے وہدفتر چھوڑنا پڑا ۔ صرف ایک جگہ پر جہاں پر میں کام کرتا تھا وہاں سے مجھے وہ جاب چھوڑنا پڑی بس ، باقی کہیں پر کوئی بھی مسئلہ نہیں آیا ۔ نہ صرف مسلم بلکہ ہندو لوگوں نے بھی مجھے سراہا ، میرے کام کو سراہا کہ بہت اچھا کام کیا ہے ۔
دوسرا مجھے دقت اس وقت آئی 2005 میں جب میرا ایکسیڈنٹ ہوا ، ایکسیڈنٹ اتنا خوفناک تھا کہ 3 سال تک میں اٹھ کر بیٹھ نہ سکا اور علاج چلتا رہا ، اسکی وجہ سے میرا ریسرچ کا عمل رُک گیا اور میں لکھ بھی نہیں پایا زیادہ ۔ لیکن ہمت نہیں ہاری اور بیڈ پر بھی پڑھتا رہا اور اپنے اس مشن کو جاری رکھا ۔ وہ ایکسیڈنٹ ہونا میں سمجھتا ہوں کہ کوئی معجزہ تھا جو مجھے بچا گیا ، خدا نے مجھے زندگی دی دوبارہ شاید اس لیے کہ میں یہ کام مکمل کر سکوں ۔

سوال : مسلمان دوست ہیں آپ کے ؟ انکا کیا ری ایکشن آیا کتاب کے بعد ؟
جواب (راجیو شرما) میرے پورے گاؤں میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے ، نہ کوئی مسلم گھرانا موجود ہے ۔ سکول میں دوست تھے جو مسلم تھے ، انکے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور آج بھی ہیں ۔ دفتر میں بھی بہت سے مسلم دوست ہیں ، ایک میرا دوست تھا واجد علی ، وہ مسلم تھا اور اپنی دادی کے ساتھ رہتا تھا ، اسکے دادا پاکستان میں رہتے تھے ۔ میرا سکے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا ، ایک پلیٹ میں کھانا کھاتے ہیں ہم ۔ ہم میں کوئی ایسی کراہت یا بات نہیں کہ جس سے لگے کہ میں ہندو اور وہ مسلم ہے ۔
دوست احباب کی حد تک بہت اچھا رسپانس ملا ، میں نے کتاب کی کاپی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی بھیجی اور صدر کو بھی بھیجی اور انکی طرف سے بھی اچھا رسپانس آیا ۔ سب سے زیادہ رسپانس مجھے گلف کنٹریز سے آیا جو لوگ راجھستان سے تھے اور سعودی عرب ، عراق ، دبئی میں جاب کرتے تھے تو جب انہوں نے یہ کتاب پڑھی تو انہوں نے بہت اچھا رسپانس دیا اور اکثر اوقات کہتے ہیں کہ راجیو بھائی آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے ہماری مشکل آسان کردی ہے ، کتاب پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ گاؤں کی مٹی کی خوشبو آرہی ہے ۔ جب ایک کتاب کو ہم اپنی زبان میں ٹرانسلیٹ کرتے ہیں تو اسکو پڑھنے کا مزہ اور بھی آتا ہے اور اسکی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے ۔
ہاں البتہ جیسے میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ کہ ہر مذہب میں کچھ فسادی ہوتے ہیں تو مجھے بھی سوشل میڈیا پر بہت زیادہ تونہیں لیکن تھوڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ، ایسے ایسے کمنٹس کیے لوگوں نے کہ ایک وقت تو میں گھبرا گیا کہ یہ کیا ہو گیا ہے لیکن جہاں 1000 آپکی حمایت میں کھڑے ہوں وہاں 20یا 30 آپکے خلاف بھی ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جہاں تنقید ہوتی تھی وہاں جب انٹرنیشنل نیوزپیپرز میں خبریں چھپتی تھیں تو خوشی بھی ہوتی تھی ۔

سوال : کتاب اور ریسرچ کے سارے پراسیس کو کتنا عرصہ لگا ؟
جواب (راجیو شرما) 2000 ء میں میں نویں کلاس کا طالب علم تھا تب میں پڑھنا شروع کیا ۔ قریبا اس کتاب کو لکھنے میں ، ریسرچ کرنے میں ، پڑھنے میں ، خود سیکھنے میں اور فائنل پبلشنگ میں 17 سال کا عرصہ لگ گیا ہے ۔ میرے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے جو 2005 میں ہوا کی وجہ سے کچھ وقت زیادہ لگا ۔ کچھ 2010 میں ایک اخبار میں میگزین ڈویژن میں نوکری لگ گئی نوکری کی وجہ سے مجھے جے پور آنا پڑا اور لائبریری کو بھی تالا لگ گیا اور کام بھی کچھ رُک گیا ۔ لیکن سترہ سال تقریبا لگے اس سارے پراسیس میں ۔

سوال : قرآن پاک کی ٹرانسلیشن کتنے عرصے میں کی ؟
جواب (راجیوشرما) مارچ 2015 میں قرآن پاک کی بھی مارواڑی زبان میں ٹراسلیشن شروع کی ، پہلے کی طرح بہت زیادہ ریسرچ کی ، سعودی عرب اور عراق کی آن لائن لائبریریز سے مدد لی ، کبھی آدھا پیج اور کبھی ایک پیج ٹرانسلیٹ کرلیتا اور میرا یہ سفر 2دسمبر2017 تک جاری رہا ۔ 2 دسمبر 2017 میں نے قرآن پاک کی مارواڑی زبان میں ٹرانسلیشن مکمل کی اور میری خوش نصیبی یہ ہے کہ اس دن عید میلاد النبی ﷺ بھی تھا جس دن میں نے قرآن مکمل کیا ۔ ٹرانسلیٹڈ قرآن ابھی ویسے ہی ہے رجسٹر پر ، پبلشرز سے بات چل رہی ہے بہت جلد وہ بھی پرنٹ کروا کے پبلش کردیا جائے گا ۔

سوال : زندگی کے سترہ سال وقف ہوگئے ایک کتاب پر ، کیا نتیجہ اخذ کیا آپ نے ؟
جواب (راجیو شرما) وقت جتنا بھی لگا مجھے کوئی پرواہ نہیں ، سترہ سال مزید بھی لگ جاتے تو میں خوشی سے لگاتا ، مجھے خوشی اس بات کی ہے اور میں خوش نصیب سمجھتا ہوں خود کو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ کام کروایا، میں سمجھتا ہوں کہ جو مصیبت مجھ پر 2005 میں آئی وہ مصیبت بھی رحمت بن گئی میرے لیے ۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلام محبت ، بھائی چارہ ، امن ، تعلیم اور انصاف کا درس دیتا ہے ۔ ایک مسلمان دہشتگرد نہیں ہو سکتا ۔ میرا مذہب ہندو ہے لیکن میں نے قرآن پڑھا ، میں نے اسے سمجھا اور اب دوسروں کو سمجھا رہا ہوں ، زندگی میں بہت سے ایسے حالات بھی آئے ہیں کہ میں لڑ پڑتا ہوں لوگوں سے کہ قرآن کو سامنے رکھ کر جو بات آپ کر رہے ہو وہ قرآن میں ہے ہی نہیں ، پہلے قرآن پڑھ تو لو پھر بات کرو ، سنی سنائی باتوں پر یقین کیے بیٹھے ہو ۔ ہر آدمی کا نظریہ الگ ہوتا ہے ، لیکن نظریے کی بنیاد پر مذہب کو غلط نہیں کہا جا سکتا خاص طور پر اسلام جیسے مذہب کو ۔ دعا گو ہوں کہ اللہ میری اس کاوش کو قبول فرمائے اور وہ لوگ جو مذہب اسلام کو بنیاد بنا کر دہشتگردانہ کاروائیاں کرتے ہیں اصل میں انکا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*