تحریر: طلحہٰ ملک
”دودھ ایک مکمل غذا ہے “ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں شہروں میں فروخت ہونیوالا زیادہ تردودھ بیماریوں کی مکمل آماجگاہ بنتا جارہا ہے۔اردگرد اپنے علاقوں میں نظر دوڑائیں تو یہ حالات اب بڑے شہروں کی حدود سے نکل کر چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں بھی یکساں نظر آتے ہیں۔ دودھ تو پہلے گائے بھینسوں سے ہی حاصل کیا جاتا تھا مگر اب ان مویشیوں کے بغیر ہی دھڑا دھڑ تیار کیا جارہا ہے۔اسی طرح گجر اور گوالے ہی پہلے پہل دودھ بیچا کرتے تھے مگر اب کوئی وکیل ہے یا پھر کوئی سیاستدان۔۔جو مکسر مشینوں سے خالص زہر نما دودھ لوگوں کی رگوں میں دوڑاتے نظر آتے ہیں۔دودھ نما سفیدزہر کیسے تیار ہوتا ہے؟؟ یہ سوال بہت دیر تک لوگوں کے دماغوں میں گھومتا رہا مگراس کہانی کا پردہ تو فوڈ اتھارٹیز کی کارروائیوں میں کھلتا نظر آیاہے۔
صوبہ پنجاب میں سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کے دور حکومت میں بنائی گئی فوڈاتھارٹی نے شب و روز کارروائیوں میں ایسے بہت سے عناصر کو بے نقاب کیا مگر یہ کھیل رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔۔۔بڑے شہروں کے داخلی راستوں پر پولیس ناکوں کی طرح فوڈ اتھارٹی کی گاڑیاں بھی کھڑی نظر آتی ہیں۔بلاناغہ ان ناکوں پر دودھ بردار موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کی قطاریں بھی نظر آتی ہیں،پھر بھی شہر میں خالص دودھ کی فراہمی کسی خواب سے کم نظر نہیں آتی۔حالات اس قدر تنزلی کا شکار ہیں کہ مکسر مشینوں میں یوریا،فارملین،سرف،پاؤڈر اور ڈیٹرجنٹس کا استعمال کرتے ہوئے سفید محلول تیار کیا جارہاہے۔
بلاشبہ دودھ روزمرہ استعمال کی بنیادی ضرورت ہے جو تقریبا ہر دوسرا شخص بلاناغہ استعمال کرتا ہے۔ صوبائی دارلحکومت لاہور کی بات کی جائے توروزانہ لاکھوں لٹر دودھ فروخت ہوتاہے۔ شہر میں موجود مویشیوں سے اتنی بھاری مقدار میں دودھ کی کھپت مکمل کرنا ناممکن ہے اسی لیے دوسرے شہروں سے دودھ لاہور منگوایا جاتا ہے۔عموما لوگ یہ سمجھتے تھے کہ گوالے دودھ میں صرف پانی کی ہی ملاوٹ کرتے ہیں مگراسٹارچ، یوریا،صابن،ڈیٹرجنٹس،آٹا،آئل،نان ڈیری فیٹس اور مضر صحت کیمیکلزکی مدد سے تیار کردہ نام نہاد دودھ عوام تک مسلسل پہنچایا جارہا ہے۔ماہرغذائیات ماہا جاویدکاکہناہے ایسے ملاوٹی محلول کا استعمال السر،کینسر،ہڈیوں کا بھر بھراپن،اندھا پن اور دیگر بیماریوں کا باعث بن سکتاہے۔مگر عوام کی بڑی تعداد اپنے ہی پیسوں سے دودھ کے نام پر زہر خریدنے پر مجبور ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے صحت دشمن عناصر کیخلاف سخت سزائیں تجویز کی جائیں۔ پنجاب اسمبلی میں کیمیکل اور پاؤڈر ملا دودھ بیچنے کے خلاف متعدد بار قرار دادیں جمع کرائی گئی ہیں جس میں کیمیکل سے تیار کردہ”سفید زہرکے قہر“سے بچانے کیلئے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلے میں پنجاب فوڈاتھارٹی کے افسران کوکسی بھی فوڈپوائنٹ کو سیل کرنے سے روکا ہواہے۔فقط جرمانوں اور وارننگ نوٹسز
سے اس مافیا پر قابو پانا محض خواب ہے۔ایسے عناصر کیخلاف ریگولیٹری اتھارٹیز کے اختیارات کو نہ صرف وسیع کرنا چاہیے بلکہ سنگین ملاوٹ اور جعلسازی ثابت ہونے پر مقدمات اور سخت سزائیں دلوانا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ورنہ یہ زہر ہماری آنے والی نسلوں کیلئے کسی قہر سے کم ثابت نہیں ہوگا۔۔۔