"تاریخ میرپور کے چند گمشدہ اوراق."

"تاریخ میرپور کے چند گمشدہ اوراق.” : تبصرہ : قیوم راجہ

کتاب پر تبصرہ :

تبصرہ: قیوم راجہ
نام کتاب : "تاریخ میرپور کے چند گمشدہ اوراق.”

مصنف: راجہ محمد شبیر
اشاعت 2021

تحریر و تحقیق کو ہر مہزب معاشرے میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ریاست جموں کشمیر کی جبری تقسیم کے بعد اس بد نصیب ریاست کی تاریخ تو واقعی گم ہو گئی یا گم کر دی گئی۔ بھارت کیا پاکستان نے بھی نصاب سے جموں کشمیر کی تاریخ کو نکال دیا۔ راقم نے ہائی کورٹ میں ایک رٹ کے تحت آزاد کشمیر ٹیکسٹ بک بورڈ منظور کروایا مگر پھر بھی وہ آزادانہ طور ہر کام کرنے میں ناکام ہے۔ ان حالات میں منقسم ریاست جموں کشمیر کی نوجوان نسل کی معلومات کا دارو مدار راجہ شبیر جیسے محققین کی غیر نصابی کتابوں پر ہے اور وہ بھی لکھنے میں اتنے آزاد نہیں کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ ریاست کے جس حصے کو ہم آزاد کہتے ہیں وہ کتنا آزاد ہے برحال راجہ شبیر صاحب کی کاوش قابل ستائش ہے جنہوں نے اپنی تحقیق کے زریعے میرپور کی گمشدہ تاریخ کو کتابی شکل میں منظر عام پر لایا۔انہوں نے ریاست کی تقسیم سے قبل اور بعد کی مسلم و غیر مسلم شخصیات اور انکے آپس میں تعلقات کا بلا تخصیص تزکرہ کیا۔ ریاست کے ہر دو منقسم خطوں میں ریاست کی تقسیم کا درد رکھنے والے مسلم و غیر مسلم شخصیات کے جزبات کا زکر کر کے یہ ثابت کیا کہ یہ تقسیم کسی کو منظور نہیں البتہ راجہ محمد شبیر کی تحقیق میں اگر وحدت کی بحالی کے لیے جاری تحریک میں آج کے نوجوانوں کے کردار اور ان کی قربانیوں کا بھی زکر ہو جاتا تو کتاب کی اہمیت میں اصافہ ہو جاتا لیکن یہ کام شاید دوسرے ایڈیشن کے لیے رکھ دیا گیا۔ ایسا کرنے سے مصنف کا اپنے آپ کے ساتھ انصاف ہو گا کیونکہ بعض قارئین کا شکوہ ہے کہ کتاب میں زیادہ تر ان شخصیات کا زکر ہے جو ریاست جموں کشمیر کی تقسیم اور بعد میں آزاد کشمیر کی آئینی و تاریخی حیثیت کو کمزور کرنے کے زمہ دار ییں۔ اقتدار کی خاطر ان سیاستدانوں نے آزاد کشمیر کے قیام کے مقاصد اور ابتدائی بیانیہ سے انحراف کر کے آزاد کشمیر حکومت کو تحریک آزادی سے عملی طور ہر الگ تھلگ کر دیا بلکہ جن محب وطنوں نے از خود اپنے پاکیزہ جزبوں کی بنیاد پر تحریک میں رضاکارانہ کردار ادا کیا ان کی راہ میں روڑے اٹکانے جس کا مقصد اقائوں کی خوشنودی تھی۔ برحال پھر بھی ہم راجہ شبیر صاحب کی ہمت و جرات کو داد دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنی کتاب میں کرشن دیو سیٹھی ، ماسٹر روشن لعل، راجہ محمد اکبر اور خالق انصاری جیسی شخصیات کا بھی زکر کیا۔ منگلہ ڈیم کی نزر ہو جانے والے پرانے میرپور کا تاریخی احوال اور نئے میرپور کے ابتدائی حالات کی جانکاری کا شوق رکھنے والوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ امید کی جاتی کہ راجہ شبیر صاحب کی تحریر و تحقیق کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور نوجوان نسل کو موجودہ تحریک کے گم نام شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں اور حالات زندگی سے بھی آگاہ کر کے میرپور کی گم شدہ تاریخ کے اوراق مکمل کریں گے۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*