خضدار کے مہذب ڈاکو : نجیب زہری

خضدار کے مہذب ڈاکو : نجیب زہری

تحریر : نجیب زہری

اس نام سے ایک ہی شعبہ ( صحت) پر یہ میرا دوسرا آرٹیکل ہے میں نہیں چاہتا کہ میرے الفاظ اور واقعات کے بیان پر کوئی صاحبِ فہم و خرد یہ تصور کر بیٹھے کہ کسی شخصی انا کی وجہ سے یہ کالم دوبارہ اسی نام سے لکھ رہا ہوں ایسا ہرگز ممکن نہیں کہ کسی کے شعبے اور ذات سے انا پالوں – ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس میں انقلاب بالائے بام ہے مگر چھوٹی سی کوشش کو مزاحمتی انداز دینا چاہئے تاکہ کسی مجبور کی عزت نفس نہ اچھالا جائے یا اسکی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھایا جائے –

بلوچستان میں علاقائی مسائل بیان کرنا بڑی دلیری مانگتی ہیں حقائق پر بات کرنا, لکھنا حتٰی کہ سوچنا بھی ہمارے معاشرے میں خود کی وار سے خود مرنے سے کم نہیں لیکن معاشرے کے ذمہ داریوں پر بیٹھے برے کرداروں سے جواب طلبی ہر شہری کا حق ہے بلکہ یہ حق اکثر یہ کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ ہم روایات اور قبائلی معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں لہٰذا کسی سے کیا کہنا وہ ہمارا ہی بندہ ہے یا قبائلی تعلقات ہیں انہیں بنیاد بنا کر ساری زندگی ہر شعبے میں زلت آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ زندہ معاشروں کے لئے مرنے سے کم نہیں-

خضدار کے ٹیچنگ ہسپتال میں مریض اور مریضوں کے لواحقین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ قابلِ بیان نہیں ہمارے ہاں سرکاری ہسپتالوں میں اکثریت مضافات کے غریب و نادر لوگ علاج و معالجے کے لئے آتے ہیں انہیں اتنا پتا ہوتا ہے کہ یہاں ڈاکٹر بیٹھے ہیں جو ان کے مرض کی تشخص کر کے شفاء کا سبب بنیں گے وہ دور دراز کا سفر کر جب ان مسیحوں کے پاس پہنچتے ہیں تو ان کا سامنا مسیحا سے نہیں بلکہ ایک مغرور اور مفادات پرست, موقع پرست شخص سے ہوتا ہے جو انکی مجبوری کا فائدہ جس انداز میں چاہئے اٹھائے وہ اس کی صوابدید پر ہے-اتنا سخت مؤقف رکھنے کا سبب بھی اس لیئے ہے کہ ٹیچنگ ہسپتال خضدار میں جو مشاہدات کیئے میں سمجھتا ہوں یہ تلخی بھی کم ہے-

12 اپریل منگل کے دن جب مجھے ایک قریبی رشتہ دار کی کال آئی کہ ہم ٹیچنگ ہسپتال خضدار میں ہیں ٹائم ملے تو آجانا میں فرصت میں دوپہر تین بجے کے ٹائم ہسپتال پہنچا تو مریض کا حال حوال پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہاں جو ڈاکٹر بیٹھے ہیں انکی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ مریض کو پارٹ ٹائم نجی ہسپتال (پرائیویٹ ) میں لیکر آئیں وہاں چیک اپ کریں گے چونکہ مریضہ زچہ بچگی کی تھی تواتر سے Check-ups خضدار کی معروف لیڈی ڈاکٹر محترمہ سلمیٰ بی بی سے کرواتے رہے ہیں اب چونکہ زچہ بچگی کے دن تھے Routine check-up کے لئے صبح کے وقت OPD میں لیڈی ڈاکٹر سلمیٰ صاحبہ کے پاس گئے تو انہوں نے GYNAE وارڈ میں معائنے کے لئے کہا جب مریضہ کو وارڈ منتقل کیا گیا تو محترمہ کی اسسٹنٹ شبنم نے کہا کہ ابھی مریضہ کو گھر لیکر جائیں 2nd time ڈاکٹر صاحبہ نجی ہسپتال (پرائیویٹ) میں بہتر انداز میں مریضہ کا چیک اپ کریں گی جب مریضہ کو وہاں لیکر گئے تو شاہی فرمان جاری ہوا کہ فوراََ آپریشن کی تیاریاں کریں آپریشن ہوگا نہیں تو ماں اور بچے کی جان کو خطرہ ہے-

لواحقین نے اصرار کیا کہ محترمہ ہم غریب ہیں یہاں ساٹھ سے ستر ہزار برداشت نہیں کر سکتے آپ یہ آپریشن ٹیچنگ ہسپتال میں کریں تاکہ جو مناسب خرچہ ہوگا وہ ہم کر سکیں گے اس پر َلیڈی ڈاکٹر سلمیٰ صاحبہ کا پارہ ہائی ہوا اور طیش میں آکر فرمان جاری کردیا کہ آپریشن کرانا ہے تو یہیں کراؤ نہیں توٹیچنگ ہسپتال میں مریضہ کو کچھ ہوا اس کی ذمہ داری میں نہیں لیتی وہ ذمہ داری کیسے لے سکتی تھی کہ ٹیچنگ ہسپتال میں انکی فیس انہیں نہیں ملنی تھی مالی خسارہ تھا جب مریضہ کو بعد میں ٹیچنگ ہسپتال منتقل کیا گیا تو محترمہ اپنا موبائل بند کر کے کہیں گوشہ نشینی اختیار کرلی ادھر مریضہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی اُدھر لیڈی ڈاکٹر اپنی ضد پر اڑچکی تھی یہ تو بھلا ہو وہاں GYNAE وارڈ میں موجود LHV کا کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری میں نارمل ڈلیوری کرادی ماں اور بچے کی زندگی کی بچا لی گئی جس پر ان کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے-

اس واقعے سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ میں ان مسیحاؤں کو خضدار کے مہذب ڈاکو کہنے میں غلط نہیں تھا -خضدار کی آٹھ لاکھ آبادی کو ایک ہی سرکاری ہسپتال میسر ہے اس میں بھی انتظامیہ اور ڈاکٹرز صاحبان کی غیر ذمہ داری کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنی پانچ سو سے ایک ہزار کی فیس کے لئے کسی کی جان کی بھی پروا نہیں کرتے ضلعی انتظامیہ بھی غفلت میں ہے محکمہ صحت بلوچستان کی طرف سے خضدار کے لئے عدم توجہی قابل مذمت ہے-

خضدار کے سیاسی و سماجی شخصیات اس بات سے ناواقف ہیں کوئی Check and balance نہیں ہے اس واقعہ سے مزید معلومات کا تجسس ہوا تو پتا چلا کہ بانچ کروڑ کی بجٹ سے منظور شدہ GYNAE OT بھی فعال نہیں دروازے پر خوبصورت سا تالا لگا ہوا ہے زچگی خواتین کے علاج کی تمام سہولیات موجود ہیں پر غفلت کی وجہ سے وہ قابل استعمال نہیں جس کی بنیاد پر َلیڈی ڈاکٹرز نجی ہسپتالوں میں علاج کو ضروری سمجھتی ہیں تاکہ مال بھی بٹور سکیں اور بدنام بھی نہ ہوں-

خضدار ٹیچنگ ہسپتال میں صبح کے اوقات میں30 سے زائد لیڈی ڈاکٹرز موجود ہوتی ہیں بدقسمتی سے ایوننگ اور نائیٹ پر کوئی لیڈی ڈاکٹر ٹیچنگ ہسپتال خضدار میں موجرد نہیں لبروم صرف دائی اور LHV کے حوالے کردیا گیا ہے-

مردہ خانہ میں سب سہولیات موجود ہیں پر وہاں کی مشینری کی بیٹریاں نہ جانے کس MS کے گھر پر استعمال ہو رہی ہیں وہ جانے اس کا خدا جانے- OPD TOKEN ROOM کے سامنے اطلاعی اشتہار لگا ہوا ہے کہ ٹوکن کے لئے کوئی فیس نہیں لیکن وہاں موجود عملہ جلدی کام ہونے کے بہانے سے غریب عوام سے دس سے بیس روپے بھتہ وصول کر رہا ہے Blood bank. Pathologist. Bio chemistry. Hematology. Serology. روم میں بھی ایک صاحب فیس کے بنا سلام کا جواب بھی نہیں دیتا-

اس صورتحال کو ایم ایس ٹیچنگ ہسپتال خضدار کی غفلت کہیں یا ملی بھگت یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ یہ سب انکی موجودگی میں ہو رہا ہے

بحیثیت ایک شہری میں نے یہ ضروری سمجھا کہ ان محرکات کو کالم کی صورت دوں تاکہ عوام و خواص بخوبی اندازہ لگا سکیں کہ جس معاشرے میں لوگوں کو کھانے کو کچھ نہیں وہاں یہ مہذب ڈاکو انہیں لوٹنے کے کتنے راستے کھول کر بیٹھیں ہیں سرکاری ملازم ہونے کے باوجود اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنا یہ کسی بھی شعوری معاشرے میں قابلِ قبول نہیں-

سیاسی و سماجی شخصیات کو چاہئے کہ وہ خضدار کی عوام کی مشکلات کو ہر شعبے میں سمجھیں اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں تاکہ ضرورت مند کی ضرورت کو ترجیح دی جاسکے- اللہ تعالیٰ اس قوم کی تقدیر کبھی نہیں بدلتا جو خود اپنی تقدیر بدلنے کے لئے جہد جاری نہ رکھے

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*