تحریر : مطاہرہ
آج ملک وڈیروں لٹیروں جاگیرداروں اور حکمرانوں کے ہاتھوں کھلونا بن چکا ہے ۔۔۔۔۔۔ میں مخاطب ہوں ان تمام برائے نام لیڈروں سے کہ کیا یہ ہے ریاست مدینہ کہ جہاں قلم بکتے ہوں اصول بکتے ہوں ضمیر بکتے ہوں کردار بکتے ہوں اقدار بکتے ہوں اور جب ان حکمرانوں سے کوئی سوال پوچھا جائے تو وہ صحافی پہ پیسے لینے اور بکے ہونے کا الزام لگا دیا جائے کیا یہ ہے نظام؟؟ کیا یہ خودار ریاست کو زیب دیتا ھے کہ اپنی نالائقی اور نا اہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے صحافت کو ہی برا اور بکا ہوا قرار دیا جائے ؟؟؟؟؟ سچ کی طرح سچے سوال بھی بہت کڑوے ہوتے ہیں آج دیکھ بھی لیا۔۔۔۔۔۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم کسی کی کردار کشی کر کے اپنے کردار پہ اٹھتی ہوئی انگلیاں کیسے روکیں گے!!!!!
آج ملک کو ریاست مدینہ قرار دینے والے آزادی حق گوئ پہ الزامات لگا رہے ہیں اور نا مناسب زبان استعمال کر کے اپنی حقیقت واضح کر رہے ہیں ارے جس ریاست مدینہ کی آپ بات کرتے ہیں وہاں حق گوئ پہ پابندی نہیں تھی بلکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز(رض) کے دور ميں قوم کو زوال سے بچانے والا کام آزادی حق گوئ کا اقدام تھا اور یہاں آپ زرا سے سوالات پہ بھڑک اُٹھے
افسوس کا مقام ہے کہ وہ صحافت جو آپ کو کوریج دیتی ہے آج وہی آپ کے لیے بکے ہوئے بن گئے ۔۔۔۔۔۔
صحافت پہ انگلی اٹھانا آپ کی نا اہلی اور نالائقی ظاہر کرتی ہے ۔۔۔۔۔ ایک وزیر کی سینئر صحافی سے بدکلامی کی مزمت کرتی ہوں ۔۔۔۔۔ آپ کے اندر برداشت کا مادہ ہونا چاہئے ۔۔۔
صحافت کی مدد کے بغیر آپ کی سیاست کا کوئی وجود نہیں ۔۔۔۔۔
جس دن ہم نکتہ چینی اور تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کریں گے اس دن ہم کامیاب بن سکیں گے ۔۔۔۔۔ اور معافی مانگ لینے سے آپ کے قد میں کمی نہیں آ جانی تھی ۔۔۔۔جس دن ہم اپنی غلطی تسلیم کرنا سیکھ لیں گے اس دن ہم جینا سیکھ لیں گے ۔۔۔ کردار بدلے گا سوچ بدلے ہم بدلیں گے تو پاکستان بدلے گا۔۔۔۔