2024 میں بھی مودی راج؟ حسین جاوید افروز

2024 میں بھی مودی راج؟ حسین جاوید افروز

تحریر : حسین جاوید افروز

پاکستانی انتخابی حرکیات کے معروض میں تواتر سے یہ بات کہی اور سنی جاتی ہے کہ جو پنجاب میں اکثریت لے گیا وہی اسلام آباد میں اقتدار کے سنگھاسن پر قابض ہو جائے گا ۔اسی طرح ہندوستانی انتخابی سائنس کے پیرامیٹرز بھی اس لحاظ سے بالکل واضح ہیں کہ لوک سبھا چناؤ جیتنے کے لئے اتر پردیش کی اہم ریاست کا حصول بہت ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ لوک سبھا کی 80 نشستیں اور ریاستی اسمبلی کی 403 سیٹوں کی ہندوستان کے انتخابی منظر نامے پر اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے ۔یہی کچھ حال ہی میں ہندوستان کے حالیہ ریاستی چناؤ میں بھی دیکھنے کو ملا جب بھارتی جنتا پارٹی نے نریندر مودی اور آدیتہ ناتھ یوگی کی برسر قیادت لگاتار دوسری بار یوپی کے ریاستی چناؤ میں شاندار فتح رقم کی ہے ۔ یہ ریاستی چناؤ مجموعی طور پر یوپی پنجاب ،اتراکھنڈ ،منی پور اور گوا کی ریاستوں میں منعقد ہوئے مگر ماسوائے پنجاب کے ہر جگہ بھارتی جنتا پارٹی کا انتخابی نشان کنول کا پھول ہی کھلتا نظر آیا ۔سب سے پہلے بات کرتے ہیں اترپردیش کے ریاستی چناؤ کی جہاں یوگی جی نے مسلسل دوسری بار وزارت اعلیٰ اپنے نام کی اور تاریخ بنائی ۔وہ سن 85 کے بعد یہ کارنامہ انجام دینے والے دوسرے وزیر اعلیٰ ہیں ۔یوگی جی کو ریاست میں بلڈوزر بابا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اس زوردار جیت نے انہیں پارٹی میں جہاں نریندر مودی کے بعد دوسرا اہم ترین راہنماء بنا دیاہے وہاں سیاسی پنڈت تو انہیں مستقبل میں مودی جی کی جگہ لیتے ہوئے بھی دیکھ رہے ہیں ۔یہاں حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ کروونا کی مہاماری ،غربت ،فرقہ ورانہ سیاست ،لو جہاد اور کسان تحریک کے باوجود یوگی جی اترپردیش میں اپنا دبدبہ بنانے میں کامیاب کیوں رہے ؟اس کا جواب معروف سیاسی رہنماء اور دانشور یوگندر یادیو نے دیا کہ میں نے کسان تحریک کے دوران یوپی میں بہت وقت گزارا اور عام لوگوں سے ان کے مسائل کے بارے میں دریافت کرتا رہا۔تمام تر مسائل کے باوجود یوپی کے پسماندہ عوام ایک بات پر مطئمن تھے کہ کروونا وباء کوئی یوگی تھوڑی لے کر آیا یہ تو ساری دنیا نے جھیلی ہے ۔لیکن پھر بھی یوگی جی نے ریاست میں چودہ کروڑ افراد کو فی یونٹ پانچ کلو غلہ مفت فراہم کیا ۔ان کی سلنڈر اسکیم ،راشن اسکیم نے غریب عوام کے دل جیت لئے ۔جبکہ کسانوں کو سالانہ چھ ہزار روپیہ ملنا شروع ہوا جس کی بدولت جاٹ کسانوں نے بری تعداد میں یوگی کو ووٹ دیا ۔یہ درست ہے کہ یوگی جی نے انتخابی مہم میں کھل کر پاکستان ،مسلمان اور گائے ماتا کے تحفظ بارے پرچار کیا مگر گراس روٹ لیول پر ان کی اسکیم ٹرمپ کارد ثابت ہوئیں اور 403 کے ایوان میں پارٹی کو 255 نشستوں پر فتح حاصل ہوئی۔جبکہ یہاں سماج وادی پارٹی میں جان بھرنے والے اکھلیش یادیو کو بھی سراہنا ہوگا جو جم کر انتخابی میدان میں سائیکل کے انتخابی نشان کے ساتھ بھارتی جنتا پارٹی کو چیلنج دیتے رہے اور 114 سیٹیں لے گئے ۔یاد رہے پچھلی بار سماج وادی پارٹی محض 47 سیٹ ہی لے سکی تھی۔تاہم اکھلیش نے اترپردیش میں اپنا دبدبہ دکھا دیا اور مجموعی طور پر سماج وادی پارٹی کا ووٹ 32 فیصد بڑھا۔ یہاں یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ان کو ریاست کے 83 فیصد مسلم ووٹ اور یادیو ذات کے 86 فیصد ووٹ بھی ملے۔ جبکہ آل انڈیا مسلمین کے شعلہ بیان اسد الدین اویسی بھی اپنا رنگ جمانے میں ناکام رہے اور دوسری طرف مایا وتی کی بہوجن سماج ایک ہی نشست لے سکی۔اسی طرح اتراکھنڈ کے پہاڑی صوبے میں بی جے پی 47 جبکہ کانگرس 19 سیٹیں ہی لے سکی۔ یوں تاریخ بنی جب پہلی بار کوئی جماعت دوسری بار اقتدار میں رہتے ہوئے جیتی۔جبکہ گوا میں بھارتی جنتا پارٹی20 سیٹیں لے کر اول رہی اور جبکہ کانگرس 11 سیٹیں ہی لے سکی۔یہاں شمال مشرق بھارت کی منی پور ریاست میں بھی زعفرانی رنگ ہی دکھائی دیا اور بھارتی جنتا پارٹی 32 نشستیں لے کر میدان مار گئی ۔جبکہ کانگرس محض پانچ سیٹیں ہی حاصل کر پائی ۔اب بات ہوجائے بھارتی پنجاب کے ریاستی الیکشن کی جہاں اس بار سارے پرانے بھاری بھرکم برج الٹ گئے اور اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے اپنا رنگ جما دیا اور 117 کے ریاستی ایوان میں 92 سیٹیں لے کر تاریخ بنا دی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ 1966 کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ کسی جماعت کو پنجاب میں اتنی بڑا مینڈیٹ میسر آیا۔عام آدمی پارٹی کے سونامی نے برسراقتدار کانگرس پارٹی اور بادل خاندان پر مشتمل اکالی دل کے غبارے سے ساری ہوا نکال دی۔ سابق اداکار بھگوت مان اب پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف اٹھا چکے ہیں اور عوام کو عام آدمی پارٹی سے اپنے مسائل کے حل کے لئے ہمالیائی توقعات بھی وابستہ ہیں ۔دلی کے بعد پنجاب کا میدان مارنے کے بعد اب عام آدمی پارٹی کا فوکس پہاڑی ریاست ہماچل اور ہریانہ کے ریاستی چناؤ پر مرکوز ہو چکی ہے ۔انتخابی حوالے سے پنجاب کا مالوہ ریجن خاصی اہمیت کا حامل رہا ہے جہاں آپ کو 69 سیٹوں پر زوردار جیت ملی ۔یاد رہے مالوہ ریجن ہی کو کسان تحریک کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور اروند کیجریوال نے کسان تحریک کی بدولت بے پناہ سیاسی فائدہ بٹورا ہے ۔کانگرس پارٹی آپسی گروہ بندیوں ،کیپٹن امریندر کی بطور وزیر اعلیٰ بری گورننس کی بدولت گزشتہ 45 سالوں میں بدترین شکست کھا چکی ہے ۔نوجوت سنگھ سدھو کی غیر ضروری سیاسی مداخلت کی بدولت چرن جیت چنی کی 111 روز چلی سرکار بھی ناکام رہی اور کانگرس کا چنی کی شکل میں دلت کارڈ کھیلنے کا ٹرمپ کارڈ بھی مکمل طور پر فیل ہوگیا یوں ان کو محض ۱۱ سیٹیں ہی مل سکیں۔جبکہ کیپٹن امریندر سنگھ مہاراجہ پٹیالہ کی طویل سیاسی اننگ بھی اپنے اختتام کو پہنچی ۔ایک طرف سدھو اور مرکزی قیادت سے اختلافات کے سبب کانگرس سے علحیدگی اور نئی جماعت پنجاب لوک کانگرس کی بدترین ناکامی نے ان کی سیاست پر لکیر کھینچ دی۔جبکہ پنجاب کا معروف بادل خاندان جو پرکاش سنگھ بادل ،سکھویندر سنگھ بادل پر مشتمل ہے وہ بھی کیپٹن ،سدھو اور چرن جیت چنی کی طرح اپنے آبائی حلقوں سے شکست کھا گیا۔حالیہ ہندوستانی ریاستی انتخابات کے یہ نتائج ایک زعفرانی ہندوستان کی منظرکشی کرتے دکھائی دیتے ہیں جہاں سیکولر اور جمہوری ہندوستان کی گنجائش کم سے کم ہوتی جارہی ہے ۔بلاشبہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یوپی میں بی جے پی کی دھماکے دار جیت بھارتی جنتا پارٹی کو 2024 کے لوک سبھا چناؤ کے لئے بے پناہ تازگی فراہم کر چکی ہے ۔جبکہ معروف صحافی راجدیپ سر ڈیسائی کے نزدیک ستر کی دہائی جس طرح امتیابھ بچن کے گرد گھوم رہی تھی اور اس دور میں بولی وڈ میں امتیابھ کا مقابلہ امتیابھ سے ہی ہوا کرتا تھا اسی طرح آج اس لمحہ موجود میں ہندوستانی سیاست کا ایک ہی برانڈ ہے اور وہ ہے نریندر مودی۔بھول جائیں کروونا میں کس طرح گنگا میں لاشیں بہتی رہی ؟کیسے دلی میں لوگ آکسیجن سلنڈر کے لئے خوار ہوتے رہے ؟بھلے ہی کسان تحریک نے بھارتی جنتا پارٹی کو متنازعہ بل واپس لینے پر مجبور کر دیا ہو یا چاہے انڈین سماجی فیبرک کتنا ہی فرقہ ورانہ ہوچکا ہو ؟ فی الحال جب بھی جنتا پولنگ ڈے کے لئے گھر سے نکلی گی ان کا ووٹ مودی کے لئے ہی ڈلتا رہے گا ۔ بہر حال سیکولر فورسز خاص کر کانگرس کا مکمل دھڑن تختہ ہوچکا ۔کیا ہی بہتر ہوتا اگر پریانکا گاندھی گوا ، پنجاب اور اتراکھنڈ پر اتر پردیش کے بجائے
فوکس رکھتی تو نتائج شائد بہتر ہوتے ۔جبکہ تیسری فورس کے طور پر چاہے وہ بنگال کی ممتا بینر جی ہوں یا دلی کے اروند کیجری وال ،ان کے لئے یہی کہہ سکتے ہیں ابھی ہنوز دلی دور است۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*