امریکہ میں مقیم کشمیری رہنما راجہ مظفر خان نے “کشمیر فائل” فلم کو بھارتی حکومت کا منفی پروپیگنڈا قرار دیتے دیتے ہوئے مسترد کیا انہوں نے کہا کہ کشمیر المیہ کی ہزاروں صفحات پر مشتمل اصل فائل میں سے ایک خط سامنے آ گیا ہے جو صاف ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح 1990 میں پنڈت برادری کو گورنر جگموہن، اور آئ بی کے چند ایجنٹوں اور دیگر مفاد پرستوں نے ‘قربانی کا بکرا بنایا اور اپنا الوسیدھا کیا۔
انڈین ائیر فورس کے ایک ریٹائرڈ پائلٹ راجیو تیاگی نے سرینگر سے شائع ہونے والے اخبار الصفا کی 22 ستمبر 1990 کی اشاعت میں کشمیر کے 23 ممتاز پنڈت رہنماؤں کا شائع ہونے والا خط شئیر کیا ہے ۔
خط کے آخر میں جن رہنماؤں کے دستخط ہیں ان میں : برج ناتھ بھان، ایم ایل دھر، کے ایل۔ کاو، کنیا لال رینا، جی این۔ دفتاری، موتی لال مام، سی ایل کاک، چونی لال رینا، ایم ایل منشی، بی این گنجو، اشوک کول، سی ایل پریمو، پشکر ناتھ بھٹ، پریم ناتھ کھیر، آر کے کول، ایم ایل رازدان، پشکر ناتھ کول، بی این۔ بھٹ، موتی لال کول، اشوک دھر، کمل رائنا، ایچ کول اور ایس این دھر۔ کے نام شامل ہیں ۔
تیاگی لکھتے ہیں ؛ “خط کے مصنفین نے ریاست سے اپنے نکالے جانے کو ‘ریاستی انتظامیہ کی ملی بھگت اور ڈرامہ قرار دیا ہے۔
تیاگی نے لکھا ہے کہ؛ اس سے پہلے کہ آپ کشمیری مسلمانوں پر تنقید اور الزامات لگانا شروع کر دیں، کچھ حقائق جان کر اپنی راے قائم کریں”-
کسی کشمیری مسلمان نے کسی کشمیری پنڈت کو نہیں مارا۔
انوپم کھیر نے یہ فلم بنا کر کشمیری پنڈتوں کی کوئ خدمت نہیں کی ۔ کشمیری پنڈت اس کو پسند نہیں کرتے ۔ اس نے اپنی برادری کے نام پر مفادات اٹھانے کی وجہ سے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔