از قلم: ثانیہ سعید
سنو اے مشرقی لڑکی!
مجھے تم سے کچھ کہنا ہے
مجھے تم سے جو کہنا ہے
اسے تم غور سے سننا
جو آنچل اوڑھ رکھا ہے
اسے تم تھام کر چلنا
جو آنچل اوڑھ آئی ہو
ہے یہ اعتبار کا آنچل
جو آنچل اوڑھ آئی ہو
ہے ماں کے پیار کا آنچل
سنو اے مشرقی لڑکی
مجھے تم سے کچھ کہنا ہے
مجھے تم سے جو کہنا ہے
اسے تم غور سے سننا
جو آنچل اوڑھ رکھا ہے
اسے تم تھام کر چلنا
کہ تم بیٹی ہو مشرق کی
ہے تم سے آبرو گھر کی
ہیں بھائی فخر سے چلتے
یہ ان کا مان ہے تم سے
جو بابا کا اٹھا سر ہے نا
اس سر کی شان ہے تم سے
دعائیں پڑھ پڑھ کے پھونکے جو
اس ماں کی جان ہے تم سے
تو سنو اے مشرقی لڑکی
تمہاری راہ زیست میں
کسی انجان رستے پر
کھڑا ہو گر کوئی راہی
کہ جس کے پاس دینے کو
فقط چند جھوٹے دعوے ہوں
مان و چاہت کے وعدے ہوں
وفا کے نام پر ہوں
فقط چند کھوکھلے سکے
تمہارے جیون میں آنے کو
جو ڈھونڈے چور دروازے
اور اپنے ان سراب وعدوں سے
جو آنچل کھینچنا چاہے
تو ان جھوٹے دعوں پر
نہ زیست گنوا دینا
جو بابا کا اٹھا سر ہے
اسے نہ تم جھکا دینا
جو آنچل اوڑھ رکھا ہے
اسے نہ تم تھما دینا
کہ جنہیں اپنا بنانا ہو
وہ چور رستے ڈھونڈا نہیں کرتے
جنہیں عزت سے رکھنا ہو
وہ آنچل کھینچا نہیں کرتے
سنو اے مشرقی لڑکی
مجھے تم سے یہ کہنا تھا
مجھے تم سے جو کہنا تھا
اسے تم غور سے سن لو
جو آنچل اوڑھ رکھا ہے
اسے تم تھام کر رکھو