تحریر: عثمان غنی
عورت لفظ سنتے ہی میرے ذہن میں سب سے پہلے میری ماں کا سراپا ابھرتا ہے۔
میں عورت ذات کی عزت کرتا ہوں کیونکہ میری ماں ایک عورت ہے۔
ماں کے بعد عورت کا ہر روپ سہانا ہے۔
بہن کی صورت وہ ماں ہی کا دوسرا روپ ہوتی ہے۔
بیوی کی صورت عورت ذات کو مرد کے لیے تسکین اور سکون بنایا گیا ہے، راز دار بنایا گیا ہے۔
بیٹی سراپا رحمت، بخشش کا ذریعہ، محبت کا سب سے الگ روپ۔ ننھی پریاں جو فرشتہ لگتی ہیں۔
عورت محبت ہے، شفقت ہے، دعا ہے، غرض یہ کہ عورت ہر وہ رشتہ ہے جسے انسان اگر پوری ایمانداری سے نبھائے تو اسے انسانیات کی معراج تک پہنچانے والی یہی عورت ہوتی ہے۔
عورت نشہ ہے، محض عورت کی وجہ سے سلطنتوں کے سلطان جنگوں میں ہزاروں انسانوں کی موت کا سبب بنے کیونکہ انہیں ایک عورت کی خاطر کسی دوسرے سلطان سے لڑنا تھا اور حاصل کرنا تھا۔
عورت کے روپ ہر انداز میں نرالے ہوتے ہیں۔ سمجھِ انسانی اور سوچِ انسانی پر منحصر ہے کہ وہ عورت کو کس نظر اور زاویہ سے دیکھتا ہے۔
اسلام نے عورت کو چھپانے کی چیز قرار دے کر قیمتی ترین کر دیا ہے۔
ماں کے روپ میں قدموں تلے جنت رکھ دی ہے اور باپ کو اسی جنت کا دروازہ قرار دے کر حقوق برابر کر دیے ہیں۔