تحریر : مرزا رضوان
ویسے تو گذشتہ ہفتے چوہدری مونس الہٰی نے وزیراعظم عمران خان کے روبرو”آن ریکارڈ“کہہ دیا تھاکہ ”جناب وزیر اعظم “پی ٹی آئی والوں کو ذرا ”تگڑے“طریقے سے کہہ دیں کہ ”گھبرانا نہیں“لیکن وقت کی ضرورت اور ”رسم دنیا“نبھانے کیلئے وزیراعظم خان کو بھی ملک کے ”سیاسی بڑوں “کے گھر جاکر ان سے ”تھپکی “لینے کی ضرورت پڑ ہی گئی۔گذشتہ چند دنوں سے پاکستان کاہر شہری ملکی سیاسی و معاشی صورتحال پریقینا بڑی حیران کن صورتحال سے دوچار ہے۔اپوزیشن جماعتوں کے حالیہ عوام کے وسیع تر مفاد میں شروع ہونیوالے ”احساس پروگرام“پر نظر دوڑائیں تو حقیقت کھل کر عیاں ہوجاتی ہے کہ کیا یہ ساری اپوزیشن جماعتیں حقیقی معنوں میں صرف ہماری عوام کی خدمت اور انہیں ان کے بنیادی دلوانے کی جنگ لڑنے پر سب ایک پلیٹ فارم پر متحد و متفق ہو کر موجودہ حکومت کو ہر صورت ایوان سے نکالنے پر حق بجانب ہے تو پھر ماضی قریب میں ہمارے انہی ”محب وطن “اپوزیشن رہنماؤں نے ایک دوسرے کے متعلق جو ”آن ریکارڈ “کلمات ادا کئے اور پاکستانی سیاسی تاریخ میں درج ہوئے ان پر نظر جاتے ہی پشیمانی تو ہوتی ہے ۔سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ، سابق صدر آصف علی زرداری ، مولانا فضل الرحمن ، سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف ، محترمہ مریم نواز شریف ،بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے یکجا ہوکر غربت ، بے روزگاری ، مہنگائی کی چکی میں گذشتہ ساڑھے 3سال سے پستی پاکستانی عوام کو حقیقی نجات دلانے کیلئے گذشتہ دو ہفتوں سے سیاسی تیزی کی طرف سفر شروع کیا ، ماضی قریب میں اسی غریب عوام کیلئے ایک دوسرے کو چور لیٹرے کہنے اور ثابت کرنیوالے وزیراعظم عمران خان سے عوام کو چھٹکار ا دلانے کیلئے ایک دوسرے کیلئے دسترخوان اور کھانے سجانے پر گامز ن ہوگئے ، واضع رہے لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے، چوہدری برادران ، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد ، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر خان ترین سمیت دیگر کے باہمی بلندوبانگ نعروں اور دعووں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔۔ ۔مجھے ”پاور پولیٹکس “سے قطعی اختلاف نہیں اور نہ ہی مجھے ایک دوسرے کو چورلیٹرے ڈاکو ، چینی چورو دیگر القابات سے نوازنے والی ہستیاں ملک کی غریب عوام کی ایک بار پھر تقدیر بدلنے کیلئے میدان عمل میں آنے پر اختلاف ہے ، اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ ان اپوزیشن رہنماؤں کے سنہری ادوار میں جو عوام غریب تھی وہ آج بھی غریب ہی ہے اور یہ ہمارے محب وطن اپوزیشن رہنما اسی غریب کا پھر سہارا بننے کیلئے ایک دوسرے کو گلے لگانے پر مجبور ہو چکے ہیں تاکہ وزیر اعظم عمران خان سے نجات دلاکر ان غریب عوام کو بھی امیر کیا جاسکے ۔۔۔
محترم قارئین !فیصلہ بھی آپ خود ہی فرمادیں ۔۔۔کہ اب میں او ر آپ یہاں کس کو حقیقی ”محب وطن “ٹھہرائیں،ماضی کی غلطیوں کا حال کی تلخیوں سے موازنا تو نہیں کیاجاسکتا مگر حضرت علامہ محمد اقبال صاحب کے پیغام ”پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ “سے ایک نئی امید جنم لیتی ہے ۔اس وطن عزیز کی خدمت کیلئے جو بھی ممبر قومی و صوبائی اسمبلی آیا اس نے کسی غریب کی مراد پوری کی یا نہیں لیکن اس نے اپنی جھولی مرادوں سے ضرور بھر لی،خیر مجھے انکی مرادیں لینے اور دینے سے بھی قطعی اختلاف نہیں یہی ”پاور پولیٹکس“ کے روح رواں آج کل انہی مرادوں کے حصول کیلئے ایک دوسرے چور لٹیروں کو ”چھپیاں“ڈالنے کیلئے بے قرار رہنے لگے ہیں ، مجھے انکی” جپھیوں“ اور” بے قراری“ سے بھی قطعی اختلاف نہیں ، ہاں اگر کہیں اختلاف ہے تو اس بات پر کہ ہمارے یہی ”محب وطن “ملکی سلامتی اور ترقی و خوشحالی کیلئے شب و روز مصروف عمل” اداروں “پر زبان درازی اور شکوک وشبہات کے اظہار پر ہے ۔۔۔پھر کبھی ”ڈیل اور ڈھیل“ کی باتیں ، مادر وطن کے دشمنوں سے دوستیوں کے قصے ، اپنے اقتدار کے کسی دوسری پارٹی کے منتقل ہونے پر ملکی ترقی سے خوفزدہ ، ملک میں انتشار کی سیاست کو فروغ دینا ، عوام سے جھوٹے دعوے اور وعدوں کی سیاست کو پروان چڑھانے والے ، جھوٹ منافقت کی حدیں عبور کرنیوالے ، ایک دوسرے ذاتی زندگیوں پر کیچڑ اچھالنے والے ، خواتین ، بہنوں ، بیٹیوں پر بیان بازی کرکے سیاست چمکانے والے ہی تو ہمارے حقیقی ”محب وطن “ ہیں، جن کی اسی غریب عوام کی خاطر ایک دوسرے پر جھوٹ ، بہتان ، منافقت اور غیرپارلیمانی ”القابات“سے مزین کی جانیوالی ”آن ریکارڈ“تقاریر آج بھی ہماری سیاسی تاریخ کے اوراق پر درج ہیں جن کے نسخہ کیمیا سے ہماری آنیوالی نسلیں ضروراستفادہ حاصل کرتے ہوئے ملک وقوم کی حقیقی خدمت میں کارہائے نمایاں سرانجام دیں گی۔۔۔یہی ہمارے محب وطن خدمت گزار سب مل کر بھی تو ملک وقوم کی خدمت کرسکتے ہیں تو پھر ایک دوسرے کو گرانے، ذلیل و رسوا ہونے اور کرنے، عوامی خزانے کو بے دریغ لوٹنے ، ایک دوسرے کوسڑکوں پر گھسیٹنے کا ڈھونگ رچا کر عوام کو بیوقوف بنا نے کا سلسلہ بھی تھمنا چاہیے، ہمارے ان ”محب وطنوں“کی اس عوامی خدمت کے انداز پر بھی کوئی ”سو موٹو“ہونا چاہیے ۔اب رہی بات پاکستانی سیاست کے بڑوں کے حضور کے حاضری کی توچودھری برادران سے ملاقاتوں کے حالیہ گرما گرم موسم نے کچھ صاحبان کو گرما کر رکھ دیا ہے تو کچھ ویسے ہی گھبرا گئے ہیں شاید ۔۔۔مگر دھیان پھر انکی طرف بھی جاتا کہ جو صرف شرما ہی گئے ہیں ، آصف علی زرداری ، مولانا فضل الرحمن ، میاں شہباز شریف سمیت دیگر اپوزیشن رہنما ؤں کی چودھری برادران کی رہائش گاہ پرذاتی نہیں عوام کے وسیع تر مفاد کیلئے ”آنیاں جانیاں“اور حالیہ تیزی سے بدلتی مختصر سیاسی صورتحال نے واضع کردیا ہے کہ چودھری برادران ہی ملکی سیاست کے بڑے ہیں اور وہ عہدو پیما کے بھی پکے اور سچے ہیں ، جنہیں ماضی قریب میں یہی اپوزیشن رہنما کس کس زبان میں مخاطب کرتے رہے مگر ان کی وضع داری اور خاندانی روایات نے ان سب کو کھلے دل سے خوش آمدید کہااور ان کے اس بڑے پن نے اپنے حریفوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ،مگر جس چاؤ اور یقین کامل سے وہ حاضری دینے سب پہنچے تھے اس پر انہیں گرین کی بجائے ریڈ سگنل ہی دیکھنے کو ملا ۔۔۔ جس پر موقع کی مناسبت سے وزیراعظم عمران خان بھی چوہدری برادران کی رہائش گاہ پہنچے، جہاں کھلے دل سے باتیں تو ہوئیں ملکی اور عوامی مفاد کی مگر ”گلے شکوے“نہیں۔وزیراعظم عمران خان کی چودھری برادران کے ساتھ ملاقات سیاسی افق پر چھا گئی۔ چودھری برادران نے سب ابہام دور کرکے ڈٹ کر وزیراعظم کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر دیا۔وزیر اعظم عمران خان چودھری برادران کی رہائش گاہ پہنچے اورخوب سیاسی رازونیاز کیے۔ اس موقع پر چودھری برادران نے بھی کھل کر وزیراعظم سے بات کی اور ان سے متعلق تمام افواہوں کا پردہ چاک کر دیا گیاجس پر وزیراعظم عمران خان کافی مطمئن دکھائی دئیے،ذرائع کے مطابق اس موقع پر چودھری شجاعت حسین نے بتایا شہباز شریف ان کے گھر آئے، گھرآئے مہمان کو خوش آمدید کہنا ان کی خاندانی روایات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے انہیں جو سیاسی پیشکش کی اس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپوزیشن لیڈر کو بتا دیا تھا عمران خان کو ہٹا نہ سکے تو وہ پہاڑ پر اور باقی سب زمین میں دھنس جائیں گے۔ ایسی چال کا کوئی فائدہ نہیں جو کامیاب نہ ہو۔اس ملاقات میں چودھری برادران نے وزیر اعظم عمران خان کو یقین دہانی کرائی کہ عدم اعتماد کی باتیں افسانہ ہیں۔ وہ سیاست میں ان کے ساتھ رہیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے چین اور روس کے دورے پر چودھری برادران کو اعتماد میں لیا جس پر چودھری شجاعت نے کہا آپ نے تاریخ رقم کی ہے،ملاقات میں وزیر اعلی عثمان بزدار، وفاقی وزراء، فواد چودھری،عبدالرزاق داؤد، مخدوم خسرو بختیار، شفقت محمود، حماد اظہر اور عامر ڈوگر بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔جبکہ دوسری جانب وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے تحریک عدم اعتماد آنے سے پہلے ہی ٹھس ہو چکی۔شیخ رشید نے وزیراعظم عمران خان کی ملاقات پر ردعمل میں کہا ہمارے ممبر پورے ہیں۔ کوئی چھوڑ کر نہیں جارہا۔ اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے، یہ ٹائیں ٹائیں فش ہیں، انہوں نے کچھ نہیں کرنا، عدم اعتماد ختم ہو گیا ہے،وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشیدکا یہ بھی کہنا تھاکہ 23 مارچ کا لانگ مارچ نظر نہیں آرہا، اگر عدم اعتماد پیش کرنی ہے تو کریں، اپوزیشن اپنی سیاسی موت مرچکی ہے، وزیراعظم عمران خان نے ملاقات کرکے اچھا کیا۔دعا ہے اللہ تعالیٰ وطن عزیز کے ان ”سیاسی بڑوں “کو سلامتی عطا فرمائے اور وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ فرمائے ۔آمین