ڈائیلاگ ہی واحد اور مستقل حل ہے : محمد امین مگسی

ڈائیلاگ ہی واحد اور مستقل حل ہے : محمد امین مگسی

تحریر : محمد امین مگسی

اگر ڈائیلاگ کو آپ بند کرینگے تو ہر دوسرا بلوچ سوال کرے گا, ڈائیلاگ جاری رکھیں اگرچہ حالات کتنے ہی سنگین نہ ہوں, حیرت ہے ان بلوچوں پر جو اپنی ذاتی دشمنی و عناد کی وجہ سے بار بار ریاست کو آپریشن کی دعوت دے رہے ہیں, تاریخ میں جو غلطیاں ہوئی ہیں انہیں ذاتی جنگ کی وجہ سے نہ دہرایا جائے. یہ نادانی کی انتہاء ہوگی کہ جو آپ ریاست کی نظر میں انتہائی چہیتے ہیں اور ہیرو بننے ہوئے ہیں کل وہ اپنے ہی جرائم کی وجہ سے پکڑ میں آئیں گے.

اور ریاست بھی اچھی طرح جانتی ہے جو چند لوگ بلوچستان سے تعلق رکھنے اور بلوچ ہونے کے باوجود بار بار آپریشن کے مشورے کیوں دے رہے. ریاست سب جانتی ہے یہ انکا ذاتی مفاد ہے انہیں ڈر ہے کہ اگر مذاکرات کامیاب ہوگئے اور ریاست نے ناراض بلوچوں کیساتھ معاہدہ کر لیا تو ہماری سیاسی موت ہوجائے گی اور ہم بیروزگار ہو جائیں گے. ایسے لوگ بار بار یہی زور دے رہے ہیں کہ ریاست بلوچستان میں آپریشن کریں. جبکہ یہ بہت بڑی غلطی ہوگی اگر ریاست انکے مشوروں کی وجہ سے بلوچستان میں کسی قسم کا آپریشن کرتی ہے.

بلوچستان کا بچہ بچہ جانتا ہے وہ کیوں آپریشن پر زور دے رہے ہیں اور آپریشن کے پیچھے انکے کیا ذاتی و سیاسی مفادات ہیں. اگر طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات ہوسکتے ہیں تو ریاست اور ناراض بلوچوں کے درمیان بھی مذاکرات ہوسکتے ہیں. ظاہر سی بات ہے نقصان ہورہا ہے مگر جب تک اعتماد قائم نہیں ہوسکتا مذاکرات بھی نہیں ہوسکتے.

سب سے پہلے ریاست کھلم کھلا انہیں اپنا موقف رکھنے کیلئے موقع فراہم کرے اور ریاست کے نمائندے اپنا موقف رکھیں اسکے بعد شرائط پر بات ہو سکتی ہے.

جیسے گذشتہ شب ٹوئٹر اسپیس میں ایک موصوف کہہ رہے تھے کہ کبھی مذاکرات نہیں ہوسکتے انہیں کچلنا ہوگا یہی بے اعتمادی دوسری طرف بھی پائی جاتی ہے کہ ریاست مذاکرات میں سنجیدہ نہیں اور نہ ہی ایمانداری کا مظاہرہ کر رہی ہے دراصل ریاست بھی مذاکرات کے نام پر کچلنا چاہتی ہے. Communication gap & lack of trust and assurance کی وجہ سے کبھی مذاکرات کی ٹیبل نہیں سج سکتی.

سب سے پہلے ریاست قومی چینلز پر ناراض بلوچوں کا موقف ڈسکس کرنے کی اجازت دے اور انکی طرف سے منتخب نمائندے کی جان کا حفاظت کی یقین دہانی کرائے اسکے بعد غیرجانبدار صحافیوں کو اجازت دے کہ وہ انکی رائے پر سوال جواب کریں تاکہ ایک بحث کا آغاز ہو.

ایک طرف ریاست مزاکرات چاہتی ہے دوسری طرف کچھ لوگ ریاست کو کچلنے اور آپریشن کے مشورے دیتے ہیں جبکہ ریاست انکا موقف بھی عوام تک پہنچنے نہیں دے گی , صحافیوں کو سوالات کا موقع نہیں ملے گا, تجزیہ نگاروں کو تجزیہ نہیں کرنے دیا جائے گا تو اعتماد کیسے بڑھے گا. مذاکرات کیلئے راہ کیسے ہموار ہوگی.

صورتحال تو یہ ہے کہ ہم جیسے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بھی جب محب وطنوں سے سوال کرتے ہیں تو وہ آگ بگولے ہوجاتے ہیں, سیخ پا ہوجاتے ہیں اور بجائے مدلل جواب دینے کے ہم پر الزامات و القابات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں. جب ہمارے انتہائی شائستہ سوالات کے جوابات پر ریاستی موقف بیان کرنے والے اینکرز و سوشل ایکٹوسٹ آگ بگولہ ہوجاتے ہیں تو ناراض بلوچوں کے تلخ سوالات, اعتراضات پر ریاستی نمائندے تو لڑنے پر اتر آئیں گے.

کیا ریاست کے پاس ایک ہی سنجیدہ اور برداشت والا نمائندہ نہیں جو تمام تر تلخ سوالات و اعتراضات سننے کی جسارت رکھتا ہو اور انکے مدلل جوابات دینے کی اہلیت رکھتا ہو. اور جو خود سے ریاست کے نمائندے بن کر ہمیشہ کچلنے کی مشورے دیتے رہتے ہیں کیا ریاست اپنے ایسے ناہنجار و اکسانے والے سوشل ایکٹوسٹ و اینکر پرسنز کو روک نہیں سکتی کہ جن کی وجہ سے اور مسائل پیدا ہورہے ہیں.

ہم آج بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر ریاست واقعی بلوچستان میں امن چاہتی ہے اور بلوچستان میں آگ لگانے سے اجتناب کرنا چاہتی ہے تو ریاست کو ڈائیلاگ کی طرف آنا ہوگا اور ڈائیلاگ کے دوران ہر طرح کی بدنظمی کے باوجود ڈائیلاگ کی ٹیبل کو نقصان نہیں پہنچانے دینا چاہیے. ڈائیلاگ ہی واحد حل و مستقل حل ہے.

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*