تحریر : وصال محمد خان
یہ بھی خوب رہی ۔اللہ تعالیٰ نے پاکستانی قوم کوکیسے کیسے ”عظیم “راہنماؤں سے نوازاہے ۔یعنی اب کسی شہرکوضلع بنانے کیلئے 26افراد کواپنی جانوں کانذرانہ پیش کرناہوگا۔پچھلی حکومتوں ،گزشتہ ادواریاماضی قریب وبعیدمیں لوگ اپنے علاقے ، گاؤں ،شہریاملک آزادکرانے یادشمن سے بچانے کیلئے اپنی جان جانِ آفریں کے حوالے کرکے شہادت کارتبہ پاتے تھے ۔ جدیددورمیں فوجی سرحدوں پرجبکہ عام لوگ شہروں ،بازاروں ،شاہراہوں اورمساجدتک میں دہشت گردی کانشانہ بن کروطن پرقربان ہوتے ہیں ۔فوجی دلیری سے لڑ کرشہادت کارتبہ پاتے ہیں جبکہ عام لوگ اکثروبیشتربے خبری میں مارے جاتے ہیں ۔یہ تمام شہادتیں اورقربانیاں ازل سے چلی آرہی ہیں اورابدتک جاری رہنے کے امکانات ہیں ۔مگرکسی شہرکوضلع بنانے کیلئے چھبیس افراداپنی جانیں واردیں ۔یہ شائددنیاکی تاریخ کاانوکھاواقعہ ہے ۔جدیدتاریخ میں شائداسکی مثال ملنااگرناممکن نہیں توبے انتہامشکل ضرورہے۔یعنی و سیم اکرم ڈبل پلس اپنی باؤنسی ، پیچ دارباؤلنگ اورپاورہٹنگ میں اتنے مصروف تھے کہ انہیں پتاہی نہیں چلاکہ مری کوضلع بھی بناناہے ۔ایک صوبائی حکومت کویہ پتاتب چلے گاکہ ایک شہرکوضلع بناناہے جب وہاں چھبیس افراداپنی جانوں سے جائیں گے ؟”سیاحت کوفروغ دیں گے ، سیاحت ریڑھ کی ہڈی ہے ، سیاحت کے شعبے میں سویزرلینڈسے زیادہ کماسکتے ہیں ،سیاحت کی فروغ اولین ترجیح ہے ،سیاحت یہ ہے ،سیاحت وہ ہے ،سیاحت ایسے ہے ،سیاحت کوایساکریں گے “۔روزانہ اس قسم کے ان گنت بیانات دینے والوں کویہ تک پتانہیں کہ ملک میں سیاحت کے حب شہرکوضلع بھی بناناہے ۔اس قسم کے غافل ،لاپروااوربے خبرحکمران پاکستان کوسیاحوں کیلئے جنت بنادیں گے یہ خام خیالی جس کوبھی لاحق ہے اسکے عقل پرماتم کے علاوہ اورکیاکیاجاسکتاہے ؟سیاحت کی فروغ کیلئے موجودہ وفاقی یاصوبائی حکومتوں نے بیانات کے علاوہ بھی اگرکوئی کارنامہ سرانجام دیاہے تووہ یہی ہے کہ مری کوبیس پچیس افرادکی بھلی چڑھانے کے بعدضلع بنانے کااعلان کیاگیا۔اب مری کوضلع بنانے کے بیانات سامنے آئیں گے ،ڈپٹی کمشنرکاتقررکیاجائیگا،ڈی پی اواورضلعی پولیس سٹرکچربنایاجائیگا،اوراس حوالے سے بیانات اورخبریں اخبارات اورٹی وی سکرینوں کی زینت بنیں گی ، جن بدقسمت افرادنے مرناتھاوہ مرگئے۔ یاشہادت کارتبہ پاناتھاوہ پاچکے ۔ اب اگرمری ضلع بنے ،وہاں ڈپٹی کمشنر،ڈی پی اووغیرہ کے دفاتربنائے جائیں تواس سے شہیدہونے والوں کی روحوں کے درجات توبلندنہیں ہونگے ۔ ضلع بناناہے شوق سے بنائیے جناب ۔ مگرکرنے کے کام یہ ہیں کہ مرنے والوں کے لواحقین کوشہداء پیکیج کے برابرامداددی جائے ، اپنی گورننس پرتوجہ دیکرمری میں تمام سروسزکے نرخ مقررکئے جائیں اوران پرسختی سے عمل درآمدکرائی جائے ۔حکومت کاقصوریہ ہے کہ پورے ملک میں کسی بھی چیزکی قیمت حکومتی کنٹرول میں نہیں ۔ جس کاجہاں بس چلتاہے کسی نہ کسی کولوٹنے کی کوشش ضرورکرتاہے ۔ مگراسے نہ حکومت کاخوف ہے ،قانون کی فکرہے اور خوفِ خداتوپہلے ہی ناپیدہوچکاہے ۔اب اگرحکومت سیاحت کوفروغ دینے کی خواہاں ہے توخداکیلئے سیاحتی مراکزپرقیمتوں کوکنٹرول کرے ۔ کھانے پینے کی اشیاء ،ہوٹلزاوردیگرسروسزفراہم کرنے والوں پرکڑی نظررکھی جائے اورجوبھی قانون توڑتاہوانظرآئے چاہے وہ کوئی ہوٹل والاہے جوایک ہزارروپے والے سٹینڈرڈکاکمرہ پچاس ہزارمیں دے رہاہے ،چاہے وہ کوئی جنرل سٹوروالاہے جوپانی کی بوتل پانچ سوکی بیچ رہاہے ،کوئی چین والاہے جوچین کی قیمت سے چارگناقیمت پرچین لگارہاہے ،یاکوئی تندوروالاہے جوایک روٹی پانچ سوروپے کی دے رہاہے ، جوایک پلیٹ سالن پانچ ہزار یاایک چائے کاکپ پانچ سوکی دے رہاہے یہ سب سیاحت کی فروغ کے دشمن ہیں ،یہ مفادپرست ہیں ، یہ ناجائزمنافع خورہیں ، یہ ظالم ہیں ، یہ درندے ہیں ،جوسیاحوں کولوٹتے ہیں۔اپنی استطاعت کے مطابق شہریوں کااستحصال کرتے ہیں ،یہ مجرم ہیں ان کیلئے سخت سے سخت سزائیں تجویزکرکے ان پرعملدرآمدکرایاجائے ۔الٹے سیدھے بیانات اوراقدامات سے حکومتی کارپردازمزیدرسواہونگے ۔اورملک کی بھی جگ ہنسائی ہوگی ۔حکومت اگرمزیدرسوائی سے بچناچاہتی ہے۔ توجلدازجلدمری اوردیگرسیاحتی مقامات پرتوجہ دے ۔وہاں پارکنگ اوررہائش کی بہترین سہولیات مہیاکی جائیں ۔ سڑکوں پرتوجہ دی جائے، سیکیورٹی کاپول پروف بندوبست کیاجائے ، خلوص نیت سے کام کیاجائے تواس میں قدرتی مددبھی شامل حال ہوگی ۔حالیہ سانحہ مری سے سیاحت کوجودھچکالگاہے اسکے بداثرات مٹانے کیلئے انتھک جدوجہدکی ضرورت ہوگی ۔ اوریہ سب ذمے داریاں حکومت کی ہیں ۔ یہ حکومت چاہے عمران خان کی ہو، عثمان بزدارکی ہو، محمودخان کی ہو،قدوس بزنجوکی ہویاپھرمرادعلی شاہ کی ہو۔ان حکومتوں کواب کام کرناہوگا۔بیانات سے مزیدکام نہیں چلنے والا۔ بہرحال یہ بھی غنیمت ہے کہ اعلیٰ حضرت عثمان بزدارنے مری کوضلع کادرجہ دینے کیلئے فوری اقدامات کی ہدایت فرمائی ہے ۔ لگے ہاتھوں وزیراعلیٰ یہ بھی احکامات صادرفرمائیں کہ ایسے جتنی بھی جگہیں ہیں جہاں ضلع بنانے کیلئے بیس بائیس افرادکی شہادت کی ضرورت ہو۔وہاں ایسی نوبت آنے سے پہلے خدارا،ان شہروں کوبھی ابھی سے ضلع بنانے کے احکامات صادرفرمائے جائیں ۔ کیابیس پچیس جانیں ضائع ہونگیں ،کیاشوروواویلامچے گااورپھروزیراعلیٰ کی آنکھ کھلے گی اوروہ ضلع بنانے کے احکامات دیں گے ۔بزدارصاحب ! ذمے داریاں نبھانے ،خودکوبہترحکمران ثابت کرنے اورسیاحت کوفروغ دینے کیلئے ضلعے بنانے کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی ۔ضلع بنانے سے کیاہوگا؟ اب اے سی کاتبادلہ ہواہے تب ڈی سی صاحب تبدیل ہونگے ۔ اب ایس ڈی پی او کوتبدیل کیاجائیگا۔ضلع بنانے کے بعدڈی پی اوکسی اورضلع میں تبدیل ہونگے ۔ اس طرح روٹین کے اقدامات جواب ہورہے ہیں تب بھی ہونگے ۔ اصل چیز ہوتی ہے احساس ذمہ داری ۔بہترطرزحکمرانی ،عوام یااپنی رعایا سے محبت اورسب سے بڑھ کرخوف خدا۔بہرحال اب مری کوضلع بنانے کے بعدضلع مری کی اہم سڑکیں ،شاہراہیں اوردیگرنمایاں مقامات جاں بحق سیاحوں سے منسوب کئے جائیں ۔اورمستقبل میں اس قسم کے اندوہناک سانحات کی روک تھام کیلئے نظرآنے والے اقدامات اٹھائے جائیں ۔